رام پنیانی
لوک سبھا میں حال ہی میں حکومت کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر جو مباحث ہوئے ان مباحث نے مودی سرکار ( حکومت ) کی پالیسیوں کو منظر عام پر لایا۔ جہاں تک مودی حکومت کا سوال ہے اکثر محاذوں پر حکومت ناکام ہوگئی ہے۔ کرپشن پر قابو پانے کا معاملہ ہو یا پھر بیروزگار نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کا وعدہ، مودی حکومت نے اس کے لئے کچھ نہیں کیا۔ انتخابی مہم کے دوران مودی نے پرزورالفاظ میں اور بار بار عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ بیرونی بینکوں میں ناجائز طور پر جمع کروائے گئے سیاہ دھن کو واپس لائیں گے لیکن آج تک بیرونی ملکوں میں جمع ایک پیسہ بھی مودی واپس نہیں لاسکے۔ ہر ہندوستانی شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ جمع کروانے کا بھی انہوں نے وعدہ کیا تھا تاہم مودی اُن دوسرے وعدوں کی طرح اس وعدہ کو بھی وفا کرنے میں ناکام رہے۔ حد تو یہ ہے کہ 2013 کے لوک سبھا انتخابات میں کسانوں کے مسائل اور زرعی شعبہ کے بحران کو حل کرنے کا وعدہ بھی وہ فراموش کرچکے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے مباحث میں حصہ لیتے ہوئے صدر کانگریس راہول گاندھی نے ایوان میں جو نکات اٹھائے اُس سے مودی جی پریشان ہوگئے۔ مودی جی ان کے کابینی رفقاء اور حامیوں کے چہروں پر ہوائیں اُڑنے لگی۔ اس طرح کے نکات اُٹھاتے ہوئے راہول گاندھی نے ایک طرح سے مودی جی کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ بعض دوسرے مسائل بھی جسے اُس وقت ایوان میں اٹھائے جانے کی ضرورت تھی جن پر جتنا اظہار خیال کیا جانا تھا اتنا نہیں بولا گیا۔ خاص طور پر معاشرہ میں بڑھتی نفرت و تشدد اور خاص طور پر مذہبی اقلیتوں کو ڈرانے دھمکانے اور ان کی اہمیت ختم کرنے کے خطرناک رجحان پر مودی حکومت کو اس کی ذمہ داریاں بار بار یاد دلانے کی ضرورت تھی۔مہذب سماج ( سیول سوسائٹی ) کے گروپوں نے ملک میں تشدد و نفرت کے ماحول مذہبی اقلیتوں پر حملوں و ہجومی تشدد اور ان تمام پر مودی حکومت کی مجرمانہ خاموشی پر ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان گروپس نے بڑی ہی محنت و جانفشانی سے تیار کردہ ان رپورٹ کو مودی سرکار کے چار سال کی تکمیل پر منظر عام پر لایا۔ اس رپورٹ کو ’’ ختم ہوتا ہندوستان ‘‘ کا عنوان دیا۔ کتاب کی شکل میں منظر عام پر آئی اس تفصیلی رپورٹ کو جان دیال، لینا دابیرو اور شبنم ہاشمی نے ایڈٹ کیا۔
اس رپورٹ میں ان تمام حالات و واقعات کا غیر معمولی انداز میں نقشہ کھینچا گیا ہے جو مودی کی حکمرانی میں گذشتہ چار دہوں سے ملک میں رونما ہورہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مودی حکومت میں ہجومی تشدد کے واقعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ہے جس میں اکثر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور بنایا جارہا ہے ۔ اس معاملہ میں فرقہ پرست پیادے بہت ہی سرگرم ہوگئے ہیں اور معاشرہ میں خرابی پیدا کرچکے ہیں۔ ان لوگوں کی سرگرمیوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ ڈیزائن یا تیار کی گئیں ہجومی تشدد کے واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ ہجوم اچانک تشدد پر اُترتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ بلکہ بہت ہی منظم ہوتے ہیں انہیں دراصل ایوان اقتدار میں بیٹھی طاقتوں کی کھلی حوصلہ افزائی حاصل ہوتی ہے جو بڑی مکاری و عیاری سے اپنے ان پیادوں کا استعمال کرتے ہیں تب ہی تو وہ قانون اپنے ہاتھوں میں لینے سے گریز نہیں کرتے، گریز کیا قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے نہیں ڈرتے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں قانون کی گرفت میں آنے سے بچالیا جائے گا۔ اس رپورٹ کو اس کے ایڈیٹرس نے بہت ہی اچھی طرح تیار کیا ہے اور خاص طور پر مودی سرکار کے اس پہلو پر توجہ مرکوز کی جہاں روایتی قصہ، تعصب و جانبداری دقیانوسی تصورات کو فروغ دیا جارہا ہے۔ قانون ہاتھوں میں لینے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور معاشرہ کے کمزور طبقات کے خلاف تشدد اور دھمکیاں مسلط کردی گئیں۔
اس رپورٹ میں مصنفین نے جو اجتماعی طور پر نظریہ تصور ہند کے تحفظ سے متعلق اپنی فکر مندی کیلئے جانے جاتے ہیں شہری حقوق، حقوق انسانی اور معاشرہ میں بڑھتے خوف کا اچھی طرح جائزہ لیا ۔ اس رپورٹ میں ہماری سماجی زندگی، تہذیب و تمدن، ہندوتوا کی تخریبی سیاست کا فروغ، تاریکی کو فروغ دینے والے کلچر اور ملک کی جدوجہد آزادی کی بنیاد یعنی تحریک آزادی کے اقدار کی مخالفت کے تمام پہلوؤں سے متعلق مضامین شامل ہیں ۔ ایک طویل فہرست سے چند مثالیں دینے کیلئے جان دیال نے ایک سخت و تند مضمون لکھا جس کا عنوان ’’ ہجومی تشدد اور نفرت کے دوسرے نتائج ‘‘ رکھا۔ اس مضمون کے ذریعہ انہوں نے معاشرہ میں بڑھتے تشدد کے مسائل پر سوسائٹی کو آئنہ دکھایا۔ جہاں تک تشدد کا تعلق ہے یہ اچانک برپا نہیں ہوتا یہ دراصل غلط تصورات، غلط نظریات، غلط فہمیوں اور جھوٹ پھیلانے کے نتیجہ میں پھوٹ پڑتا ہے۔اس کتاب نما رپورٹ میں جو مضامین شامل کئے گئے ہیں ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران مذہبی اقلیتوں کے خلاف کس طرح نفرت کو فروع دیا جارہا ہے اور کیسے ایک ایسا ماحول تیار کیا جارہا ہے جہاں سماج میں فرقہ واریت کا زہر گہرائی تک سرائیت کرجارہا ہے۔ یہی نکتہ ہرش مندر نے اپنے آرٹیکل ’’ جمہوریہ نفرت ‘‘ میں بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ۔ دوسری طرف ملک کے تعلیمی نظام کو بھی بڑی تیزی کے ساتھ فرقہ واریت کے رنگ میں رنگا جارہا ہے۔ تعلیمی نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی جارہی ہیں تاکہ معاشرہ میں دقیانوسی نقطہ نظر اور خیالات و تصورات کو فروغ دیا جائے۔ ہندو بادشاہوں کو باعزت تعظیم و تکریم کا حامل بناکر پیش کرنا اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بادشاہوں و حکمرانوں کو بدنام کرتے ہوئے انہیں غلط انداز میں عوام کے سامنے لانا مودی حکومت کے ایجنڈہ کا ایک حصہ ہے۔ اس طرح کے نکات یعنی مودی حکومت کے ایجنڈہ کو کرن گیبرل نے بڑے ہی عام فہم انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک بات تو ضرور ہے کہ مودی حکومت میں ایک طرح سے اس کی سرپرستی میں تعلیمی نصاب کو بھگوا رنگ دیا جارہا ہے۔
جب ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے قدیم ہندوستان میں پلاسٹک سرجنس، ایک لڑکے کے سر پر ہاتھی کے سر کی پیوند کاری کی بات کی تو اس سے کوئی بھی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے یا تصور کرسکتا ہے کہ حکمراں طبقہ ماضی کو تابناک قرار دینے کیلئے کس طرح اندھے عقائد کو فروغ دے رہا ہے، توہم پرستی کے جال بن رہا ہے، دقیانوسی نظریات پھیلارہا ہے۔ ماضی کو تابناک بناکر پیش کرنے کی کوشش میں ہمارے وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے رفقاء عجیب و غریب باتیں بیان کرنے لگے ہیں ان کی باتوں سے ہی ہمیں پتہ چلا کہ زمانے قدیم کے ہندوستان میں پلاسٹک سرجنس ہوا کرتے تھے جنہوں نے ایک لڑکے کے سر پر ہاتھی کے سر کی پیوندکاری کی۔ اس دور میں پشپک ومان ( اُڑان بھرنے والی رتھ ) وائی فائی، ٹی وی اور اس موجودہ دور میں جوکچھ ہے وہ موجود تھا۔ گوہر رضا اور ڈاکٹر سرجیت سنگھ نے ہمارے لیڈروں کے تمام مضحکہ خیز اعلانات و بیانات کی ایک لمبی فہرست تیار کی اور بتایا کہ بات صرف بیانات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہماری سائینسی پالیسی اور سائنسی تحقیق کی فنڈنگ سے تعلق رکھتی ہے۔
اب حال یہ ہے کہ پنچ گیا ( گائے کے گوبر، پیشاب، دودھ، دہی اور گھی کے مرکب ) پر تحقیق کیلئے ایک عالمی سطح کی کمیٹی کے تحت زبردست فنڈنگ حاصل ہورہی ہے۔
حکومت اپنی ایسی پالیسی کیلئے جس پر ساری دنیا ہنس رہی ہے جس کا مضحکہ اُڑایا جارہا ہے ہمارے ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی فروغ کردہ سائنسی پالیسی اور دستور میں اس تعلق سے دی گئی ضمانت کو نظرانداز کیا جارہا ہے بڑی سنجیدہ ہے ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت حقیقی سائنس پر دقیانوسیت کو ترجیح دے رہی ہے۔ تعلیمی نظام کو بھی بڑی تیزی کے ساتھ فرقہ وارانہ رنگ دیا جارہا ہے۔ اس میں ہندو راجاؤں کو بہادروں کی طرح اور دوسروںکو بزدلوں اور ویلن کی طرح پیش کیا جارہا ہے اور یہ سب کچھ مودی حکومت کے ایک ایجنڈہ کے طور پر کیا جارہا ہے۔ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ ہندوستان میں حکمرانی کرنے والے حکمرانوں میں کون بہادر تھے کون بزدل ، کون رحمدل تھے ، کون سنگدل۔ کیران گیبریل نے اسی نکتہ کو بڑے عام فہم انداز میں پیش کیا جبکہ کے ننچسبدانندن ہندوستان کے ہمہ تہذیبی روایات پر حملوں کو لیکر پریشان ہیں وہ اپنے آئیڈیا آف انڈیا میں ہندوستان کے تہذیبی تنوع کے تحفظ پر زور دیتے ہیں، فاشسٹ حکومت مس آدی واسی کے زیر عنوان آرٹیکل میں گولڈی جارج قبائیلیوں یعنی آدی واسیوں کو نظرانداز کئے جانے پر توجہ مبذول کرواتے ہیں جبکہ کونپا کرشنن خواتین پر حملوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے خواتین کو خود مختاری اور حقوق پر بدترین حملے کے زیر عنون آرٹیکل میں یہ بتایا ہے کہ مودی حکومت میں خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں خواتین پر کبھی بھی ایسے حملے نہیں کئے گئے۔
مصنفین نے بہت ہی ماہرانہ انداز میں ذرائع ابلاغ ( میڈیا ) ، عدلیہ سے متعلق حکومت کی پالیسی اور قومی اقدار کے بارے میں بہتر طور پر روشنی ڈالی۔ ان مصنفین نے مہذب سماج اور اظہار خیال کی آزادی پر حملے، تعلیم پر حملہ، مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انہیں چن چن کر تشدد کا نشانہ بنانے، عیسائیوں اور دلتوں کے خلاف تشدد، گائیوں کے نام پر ہجومی تشدد اور خواتین پر حملوں جیسے اہم مسائل پر ڈاٹا بھی جمع کیا۔ غرض اس رپورٹ میں ہمارے ملک کو درپیش سنگین مسائل کا آج کے سیاسی پس منظر میں بہت گہرائی سے جائزہ لیا گیا اور سماج کو ملک کے حقیقی حالات سے واقف کروایا گیا۔ اس رپورٹ میں بی جے پی کی ہندو قوم پرستی کی سیاست کو بے نقاب کیا گیا ہے جو اسے اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کی دین ، آر ایس ایس اور بی جے پی نے پچھلے چار سال کے دورن اپنے اقتدار میں نظریہ ہند کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے حالانکہ اسی نظریہ ہند کے تحفظ اور فروغ کی ضرورت ہے۔