نظام شوگرفیکٹریز کے احیاء کی آس مایوسی میں تبدیل

بودھن۔30جولائی (جورشید اختر) نوتشکیل شدہ ریاست تلنگانہ کی برسراقتدار ٹی آر ایس حکومت ریاست میں خوشحالی لانے زراعت کے شعبہ کے ساتھ ہی ساتھ صنعتوں کو فروغ دینے اندرون و بیرونی ممالک کے صنعتکاروں کو تلنگانہ ریاست میں صنعتیں قائم کرنے ترغیب دے رہی ہے ۔ چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی مثبت سونچ و فکر کے باعث تلنگانہ کے بے روزگار نوجوان اور نیم فاقہ کش کی زندگی بسر کرنے والی عوام و کسانوں میں ایک نئی اُمید جاگ ی لیکن ضلع نظام آباد خاص کر بودھن ڈیویژن کی عوام گنا اگانے والے کسان اور NSF کے سابق ملازمین برسراقتدار ٹی آرایس حکومت کی جانب سے نظام شوگر فیکٹری کو سرکاری تحویل میں لئے جانے کے تعلق سے تاحال عملی آغاز نہ کئے جانے پر فکر مند ہے ۔ سال 2002ء کے دوران تلگودیشم حکومت نے نظام شوگر فیکٹری کے تینوں یونٹس شکرنگر ‘ میدک ‘ مٹ پلی کو خانگی شعبہ کے حوالے کردیا تھا ‘ تب کی حسب مخالف سیاسی جماعتیں کانگریس اور ٹی آر ایس نے تلگودیشم حکومت کے فیصلے کی شدید مخالفت کی تھی ۔ بعد ازاں سال 2004ء کے عام انتخابات میں ریاست و مرکز میں کانگریس و ٹی آر ایس کے اتحاد کو اقتدار حاصل ہوا ۔ موجودہ چیف منسٹر مسٹر کے سی آر کو مرکزی حکومت میں وزیر لیبر کا قلمدان حوالے کیا گیا تھا ۔ کے سی آر کے مرکزی کابینہ میں شمولیت پر نظام شوگر فیکٹری کے تینوں یونٹس کے کسانوں اور ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی ‘ کسان خوش تھے کہ انہیں ( نیشکر) کی فصل کی اطمینان بخش قیمت وصول ہوگی اور سال 2002ء کے دوران جبری طور پر سبکدوش کئے گئے ملازمین پھر سے ملازمت پر بحال ہوجائیں گے اور رضاکارانہ سبکدوش ملازمین کے بچوں کو NSF میں ملازمت فراہم کئے جانے کی توقع لگائے بیٹھے تھے لیکن تب ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ تلنگانہ تحریک کو مزید تقویت پہنچانے بانی ٹی آر ایس پارٹی کے سی آر نے مرکزی کابینہ سے اور ریاستی کابینہ میں شامل ٹی آر ایس قائدین پہلے کابینہ سے اور بعد میں پارلیمنٹ اور اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے ۔ سال 2004ء سے 2014ء تک کانگریس پارٹی برسراقتدار رہی اور اس دوران کانگریس پارٹی کے قائدین نے فیکٹری کو حکومت کی تحویل میں لینے کسانوں اور سابق ملازمین کو تیقن دیتے رہے ۔

آنجہانی چیف منسٹر ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے NSF کو حکومت کی تحویل میں لینے ایک کُل جماعتی ارکان اسمبلی پر مشتمل سب کمیٹی تشکیل دے کر کمیٹی سے رپورٹ طلب کی ۔ کمیٹی کے ارکان نے تمام بینوں یونٹس کا دورہ کرتے ہوئے کسانوں سابق ملازمین اورمقامی عوام سے بات چیت کی اور فیکٹریوں کی مشنری کا معائنہ کرنے کے بعد سال 2007ء میں سب کمیٹی نے نظام شوگر فیکٹری کو حکومت کے زیر انتظام میں لینے حکومت کو سفار شپی کی تھی ‘ کمیٹی کی سفارشات اور عوامی احتجاج کے باوجود کانگریس حکومت NSF کو حکومت کے زیرانتظام لینے میں تاخیر کرنے کی وجہ سے بعض کسانوںاور ملازمین نے عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا تھا ‘ تقریباً چھ سال کے بعد عدالت نے بھی کسانوں اور ملازمین کے حق میں فیصلہ سنایا ‘ فیصلہ پر عمل درآمد کرنے سے عین قبل کانگریس حکومت اقتدار سے محروم ہوگئی اور ٹی آر ایس پارٹی برسراقتدار آئی ۔ کانگریس دور حکومت میں اس وقت کی حسب مخالف جماعت ٹی آر ایس پارٹی کے قائدین کے سی آر اور ہریش راؤ ‘ این نرسمہا ریڈی نے یہاں شکر نگر بودھن میں کسانوں اور ملازمین کی جانب سے منظم کردہ احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی تھی اور NSF کو فوری حکومت کے زیرانتظام لینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اب جبکہ ریاست کی باگ ڈور ٹی آر ایس کے ہاتھ میں آچکی ‘ فیکٹری کو حکومت کے زیرانتظام لینے کے تعلق سے جو رکاوٹیں تھی وہ تقریباً دور ہوچکی ۔ شکر نگر‘ میدک ‘ مٹ پلی یونٹوں سے تعلق رکھنے والے سابق ملازمین اور کسان کا اصرار ہیکہ نئی حکومت NSF کے سابق موقف کو فوری طور پر بحال کیا جئے اور اس سے قبل اس ضمن میں تیار کئے گئے لائحہ عمل کا چیف منسٹر کے سی آر برسرعام اعلان کریں۔ اس تعلق سے مزید تاخیر ہو تو بودھن ڈیویژن و ضلع نظام آباد کی عوام کو یہ سمجھنے میں دیر نہ ہوگی کہ سابق تلگودیشم ‘ کانگریس حکومتوں کی طرح موجودہ برسراقتدار ٹی آر ایس حکومت بھی NSF کو حکومت کے زیرانتظام لینے میں کوئی خاص دلچسپی باقی نہیں رہی ۔