نظام آباد:29؍ نومبر (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز)نظام دکن شوگرلمیٹیڈ (این ڈی ایس ایل) اس سال نیشکر کی کریشنگ کا آغاز نہ کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے لئے گئے فیصلہ کی زبردست مخالفت کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ ریاستی حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل نیشکر کے کسانوں کو نظام دکن شوگر فیکٹری کو حکومت کی تحویل میں لینے کا تیقن دیا تھا18ماہ کا وقفہ گذرنے کے باوجود بھی اس خصوص میں کوئی اقدامات نہیں کئے گئے، چنانچہ نظام دکن شوگر فیکٹری لمیٹیڈ کے فیکٹریوں میں کریشنگ نہ کرنے کے حکومت کے فیصلہ پرملازمین اور کسانوں نے احتجاج کا آغاز کردیا ہے۔ تلنگانہ کے نظام آباد بودھن، کریم نگر کے مٹ پلی اور میدک ضلع کے ممبوجی پلی میں نظام دکن شوگر فیکٹریاں واقع ہے۔گذشتہ سال بھی کریشنگ پر تجسس تھا اور حکومت پر دبائو ڈالنے کی صورت میں تینوں فیکٹریوں کے علاقہ میں 3.32لاکھ میٹرک ٹن نیشکرکو فروخت کیا تھااور سب سے زیادہ کریم نگر ضلع کے متیم پیٹھ شوگر فیکٹری میں 1.26لاکھ میٹرک ٹن اور بودھن میں 1.16 لاکھ ٹن اور ممبوجی پلی میں 96 ہزار ٹن کریشنگ کی گئی اور فی ٹن 2600 روپئے قیمت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھااور انتظامیہ کی جانب سے 2260 اور حکومت کی جانب سے 340 روپئے کسانوں کو ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیااور اس طرح 11.32 کروڑ حکومت کی جانب سے کسانوں کو ادا کیاگیااور انتظامیہ کی جانب سے 86.32 کروڑ روپئے ادا کرنا تھا ان میں سے 48 کروڑ روپئے ادا کئے گئے ان میں باقی رقم 30 کروڑ روپئے شکر کی فروختگی کے بعد ادا کی گئی اور 27لاکھ روپئے بقایہ جات زیر التواء ہے۔سابق میں اکتوبر سے کریشنگ کیلئے تیاریاں کرتے ہوئے ڈسمبر تک کریشنگ کا آغاز ہوجاتا تھا۔ ماہ نومبر کے اختتام کے باوجود بھی حکومت کی جانب سے کوئی واضح اعلانات نہیں کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے نظام آباد، کریم نگر، میدک ضلع کے این ایس ایف کے کسانوں نے احتجاج کا آغاز کیا ہے۔ بودھن کے علاقہ میں 33 ہزار سے زائد ایکر پر نیشکر کی کاشت کی گئی اور مٹ پلی میں 45 ہزار اور میدک کے ممبوجی پلی کے فیکٹری میں ایک لاکھ ایکر اراضی پر نیشکر کی کاشت کی گئی لیکن ابھی تک اس خصوص میں کوئی اقدامات نہیں کئے گئے اور حکومت پر دبائو ڈالنے کیلئے کسانوں نے احتجاج کا آغاز کیا ہے۔ جبکہ حکومت کی جانب سے بودھن کے نیشکر کے کسانوں کو کاماریڈی گائیتری شوگر فیکٹری اور میدک ممبوجی پلی کے کسانوں کو سنگاریڈی کے گنپتی شوگرس کو اور بودھن کے ماگنگ شوگرس کو فروخت کرنے کیلئے احکامات دئیے گئے ہیںاور حکومت کی جانب سے ٹرانسپورٹ کا خرچ ادا کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ان فیکٹری کے انتظامیہ مقدار سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اعتراضات پیش کررہے ہیں ان تینوں فیکٹریوں میں 257 مستقل ملازمین اور 63 سیزنل ملازمین اور ان سب کوستمبر سے تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئی اور موظف ملازمین بینفٹ کی ادائیگی کیلئے منتظر ہیں۔ ماہ مارچ سے پی ایف کے 2 کروڑ روپئے بھی ادا نہیں کئے گئے اور سال گذشتہ کے بقایہ جات اور کسانوں کو نیشکر کی خریدی کے مسئلہ پر حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے کسانوں اور ملازمین میں تجسس برقرار ہے اور نیشکر کی منتقلی بھی کسانوں کیلئے اہم مسئلہ ہے۔ مارچ سے قبل نیشکر کی منتقل کرنے کی صورت میں کسانوں کو بے حد نقصانات ہوں گے جس کی وجہ سے کسان فوری نیشکر کو خریدنے کیلئے فیکٹریوں کے آغازکا مطالبہ کررہے ہیں۔