نظام آباد میں رائے دہندوں کے فیصلے پر تجسس

نظام آباد:31؍ مارچ(سیاست ڈسٹرکٹ نیوز )بلدی انتخابات کی سرگرمیاں کو 30؍ مارچ کے روز اختتام عمل میں آیا۔رائے دہی کے بعد اب نتائج کیلئے امیدوار بے چین نظر آرہے ہیں گذشتہ9سال کے بعد منعقدشدہ انتخابات میں کوئی خاص سرگرمیاں نظر نہیں آئی لیکن رائے دہندوں کو ہمیشہ سے بھی زیادہ روپئے تقسیم کیا۔ الیکشن کمیشن کی پابندیوں کی وجہ سے اس انتخابات میں دیواروں کو نعرہ یا پوسٹرس اور بیانرس محلہ جات میں نظر نہیں آئے لیکن امیدوار انتخابی مہم چلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ پرچہ نامزدگی کا آغاز 10؍ مارچ سے شروع ہوا اور 18؍ مارچ کودستبرداری اور قطعی فہرست جاری کی گئی اور 18؍ مارچ سے 28؍ مارچ تک انتخابی مہم جاری رہی امیدوار اپنی کامیابی کیلئے ہر روز صبح سے لیکر شام تک گھر گھر پہنچ کر رائے دہندوں سے ملاقات کرتے ہوئے اپنی کامیابی کیلئے اپیل کرتے رہے اس مرتبہ امیدوار اپنی کامیابی کیلئے نئے نئے حربے استعمال کرتے ہوئے رائے دہندوں کو راغب کرنے کی کوشش کی چند وارڈوں میں روپئے تقسیم کئے گئے تو چند وارڈوں میں گوشت اور سونے چاندی کی اشیاء کے علاوہ کپڑے بھی تقسیم کئے گئے اور شراب تو پانی کی طرح بہایا گیا۔ آخری روز امیدوار گھر گھر پہنچ کر 200 روپئے سے لیکر 1000 روپئے تک تقسیم کیااور رائے دہندگان نے بھی امیدواروں کی جانب سے دی جانے والی اشیاء کی وصولی میں دلچسپ نظر آرہے تھے کیونکہ 5سال میں ایک مرتبہ ہی موقع حاصل ہوتا ہے اسے ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور بڑھ چڑھ کر فائدہ حاصل کیا۔ نہ صرف ایک ہی امیدوار بلکہ ہر پارٹی کے امیدوار سے وصول کرتے ہوئے دیکھا گیا ۔ ضلع نظام آباد کے تین بلدیہ جات اور میونسپل کارپوریشن میں یہی منظر دیکھنے کو ملا اور رائے دہندے اپنا فیصلے کے بارے میں کسی کو بھی واقف نہیں کروایا جس کی وجہ سے رائے دہندگان کا رحجان معلوم نہیں ہورہا تھا رائے دہی کے بعد رائے دہندوں سے دریافت کرنے پرہر امیدوار الگ الگ طریقہ سے باور کرتے ہوئے دیکھا گیا کسی کو بھی واضح طورپر ووٹ دیا گیا کہے کر نہیں بتایا جس کی وجہ سے اس انتخابات میں کس ڈویژن سے کس امیدوار کی کامیابی ہوگی یہ بتانا مشکل ہے لیکن اس کے باوجود مجموعی طورپر شہر نظام آباد کانگریس کو اکثریت حاصل ہونے کے امکانات ہیں جبکہ ٹی آرایس ، بی جے پی اور دیگر کو بھی زیادہ سے زیادہ ڈویژنوں میں کامیابی کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ شہر نظام آباد میں تلنگانہ کے قیام کا کانگریس فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن ٹی آرایس اس میں پیچھے رہی جبکہ دیگر اس مرتبہ اقلیتی علاقہ میں زیادہ سے زیادہ ڈویژنوں کامیابی حاصل کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور کانگریس نے بھی اقلیتی علاقہ میں انتخابی مہم چلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا لیکن اس کے باوجود اقلیتی علاقہ میں سیٹنگ کارپوریٹرس کو ٹکٹ دئیے جانے کی وجہ سے مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہہ سے دیگر کو فائدہ ہونے کے امکانات ظاہر ہورہے ہیں۔ رائے دہندوں نے خاموشی سے اپنا فیصلہ دیا ہے اور ان تمام چیزوں کا نتیجہ 2؍ اپریل کے روز سامنے آجائیگا۔