نصرتی کی شاہکار مثنوی گلشنِ عشق کی ادبی اہمیت

محمد سرور علی افسر
عادل شاہی دورحکومت کا نامور اور ذی مرتبہ شاعر نصرتی بقول شفیق (چمنستانِشعراء) کرناٹک کا باشندہ تھا۔ اس کے باپ کو اعلیٰ سوسائٹی میں قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ عادل شاہی سلطنت کے بہی خواہوں اور جاں نثاروں میں اس کا شمار کیا جاتا تھا۔ علی عادل شاہ کے دورحکومت میں شاہی مصاحبوں میں اس کا شمار کیا جاتا تھا۔ اپنی صلاحیت، قابلیت اور شاعرانہ عظمت کی وجہ سے ’’ملک الشعراء‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ اس کی تین تصنیفوں گلشن عشق، علی نامہ اور تاریخ سکندری، میں جو شہرت گلشن عشق کو حاصل ہوئی وہ دوسری تصنیفوں کو حاصل نہ ہوسکی۔ مشہور تذکرہ نگار ’’گارسان دتاسی‘‘ اور سرچارلس لائل اسے برہمن بتلاتے ہیں لیکن مولوی عبدالحق نے اپنی تالیف ’’نصرتی‘‘ میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے۔

آخر کار اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وہ نسلاً مسلمان ہی تھا۔ بیجاپور اس کا وطن تھا۔ شیخ نصرت نام اور نصرتی تخلص تھا۔ گلشن عشق نصرتی کی وہ واحد عشقیہ مثنوی ہے جو اردو، فارسی کی عام داستانوں کی طرح مافوق الفطرت عناصر، دیو، پری، سحر، طلسمات وغیرہ سے بھری پڑی ہے ،لیکن اپنے شعری محاسن اور فنی نزاکتوں کے سبب اپنی مثال نہیں رکھتی۔ اس میں باغ کا منظر، صبح کا سماں، چاندنی کی کیفیت، کشتی کی روانی، سردی کا حال، تمازت آفتاب وغیرہ کی کیفیت جس طرح واضح کی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی لئے یہ مثنوی منظرنگاری کا بہترین نمونہ کہلائے جانے کی مستحق ہے کیونکہ ماحول کی عکاسی، انسانی جذبات کی فطری ،ترجمانی، طلوع و غروب اور سبزہ چمن کے مناظر،تخیلی اٹھان اور تشبیہات کے تناسب نے مثنوی کو اور گلشن عشق نے نصرتی کے نام کو زندہ و پائندہ بنادیا ہے۔ خالد شمسی کے خیال میں ’’جزئیات نگاری میں شاید ہی اردو کا کوئی دوسرا شاعر نصرتی سے ٹکر لے سکے۔ نصرتی جب باغ کا منظر پیش کرتا ہے تو پرندوں کے نام اور ان کی وضع قطع کو بڑی تفصیل سے قلمبند کرناہے۔ یہی حال شادی بیاہ کی مجلسوں اور دیگر رسومات کے سلسلے میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس مثنوی میں کم و بیش چار ہزار اشعار ہیں۔

گلشن عشق کے مطالعے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بعد کے زمانے کی مثنویوں کا چربہ اسی زمانے کی مثنویوں سے لیا گیا تھا۔ اس مثنوی کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ راجا کو کوئی نرینہ اولادنہ تھی جس کی بناء پر وہ غمزدہ اور افسردہ رہا کرتا تھا۔ اتفاق سے ایک دن راجا کی ملاقات ایک درویش سے ہوجاتی ہے۔ وہ راجا کو ایک پھل دے کر کہتا ہے کہ اسے اولاد سے سرفراز کیا جائے گا مگر 14 سال تک اس کی حفاظت کرنی ہوگی۔ اس عمر کو پہنچنے کے بعد کنور منوہر بالاخانے پر سو رہا ہوتا ہے تو پریاں اسے اڑا کر لے جاتی ہیں۔ اس مثنوی میں خصوصیت کے ساتھ کنور منوہر اور مدمالتی کے عشقیہ قصے کو نظم کیا گیا ہے۔ کنورمنوہر اور مدمالتی ایک دوسرے پر عاشق ہوجاتے ہیں، لیکن دونوں کوسوں دور رہنے کے سبب ایک دوسرے سے بالکل ناآشنا رہتے ہیں۔ کنور منوہر اس کے فراق میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے کی وجہ سے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ آخرکار دونوں کی ملاقات ہوجاتی ہے۔ کنورمنوہر اپنی محبوبہ مدمالتی کو لے کر اپنے وطن کا رخ کرتا ہے۔ گلشن عشق کا سال تصنیف خود نصرتی کے مصرع کی روشنی میں 1068ھ مطابق 1657ء ہے۔ نصرتی نے گلشن عشق میں باغ کا منظر ایسی دلکشی سے پیش کیا ہے کہ وہ تمام واقعات اور منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ یہ دراصل نصرتی کی بلند پروازی ہے جس کی بدولت وہ تخیل کی مدد سے ایسا سماں باندھتا ہے جو قابل تحسین ہے۔ چند شعر باغ کی تعریف و توصیف میں ملاحظہ فرمائیے۔

ڈوبالی رونیلاب مغرب میں رخش
نکل آئی نس ہٹو فیض بخش
دیئے جلوہ خوش نسیتی کے حضور
کیسا پردہ پردہ نشیناں تھے دور
گگن پر نہ ٹھار تارا دسے
کٹورے بھریاب روپاراد سے
سہاتے تھے یوں پھول پھل ڈال پر
پیالے ہیں چینی کے جوں دود بھر
چاندنی رات کی منظرکشی کس انداز میں پیش کیا ہے ملاحظہ کیجئے۔
فلک اور زمین پر اتھے نور میں
چھپا تھا جبامشک کا فور میں
مگر کھم پہ چادر مرصع کی سٹ
زمین پر بچھائے تھے اجلانکٹ
مندرجہ ذیل اشعار میں نصرتی نے کس نازک مزاجی سے کام لیا ہے ملاحظہ فرمائیے
چندر پاک چھاتی تے دھویا غبار
سورج کا ہوا آئینہ تابدار
پون اپ وطن میں دھریا تھا قرار
نہ کوئی پات ہلتا اتھا اس منجھار
کھڑا تھا سب اس دھات حوضاں میں نیر
مگر دود کا کررہے تھے پنیر

مندرجہ بالا اشعار سے نصرتی کی نازک مزاجی، بلند پروازی اور تخیل کا پتہ چلتا ہے یعنی ہوا کے نہ چلنے کی وجہ سے پانی کی کیا حالت ہوتی ہے۔ حوضوں میں میں پانی اس طرح ساکت رہتا ہے اور منجمد ہوکر دودھ کا پنیر بن جاتا ہے۔ ’’گلشن عشق‘‘ اپنے ادبی اسلوب کے اعتبار سے اردو، میں کافی بلند مقام رکھتی ہے کیونکہ اس میںجس نازک خیالی اور بلند پروازی کے ساتھ واقعات اور کیفیات کو قلمبند کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ’’گلشن عشق‘‘ میں انسانی جذبات اور خیالات کی جس عمدگی سے ترجمانی کی گئی ہے اس کی کہیں اور نظیر نہیں ملتی۔ اس کے کلام کی رنگینی اور تشبیہہ اور استعارات کی ندرت واقعی قابل داد ہے۔
بقول پروفیسر سید محمد نصرتی بڑا قادر الکلام شاعر تھا۔ مثنوی اور قصیدے میں نہ صرف اس کے معاصرین بلکہ متاخرین سے بھی اس کا مقابلہ کیا جائے تو وہ کسی سے پیچھے نہیں معلوم ہوتا۔ مثنوی ’’گلشن عشق‘‘ میں قصہ نگاری کے تمام اوصاف مکمل طور پر پائے جاتے ہیں۔