نشہ کیلئے طبی ادویات کا غلط استعمال۔ زد میں

حیدرآباد۔/17 جنوری(سیاست نیوز) اگر کسی کے پیر پر گندگی لگ جائے تو پیر نہیں کاٹا جاتا بلکہ گندگی کو صاف کیا جاتا ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ڈرگس کنٹرول کے ارباب پیر کاٹنے کے اصولوں پر کاربند رہنا چاہتے ہیں۔ نشیلی ادویات کے عادی لوگ نت نئے طریقوں سے اپنی ہوس پوری کرنے کے طریقے ڈھونڈھ نکالتے ہیں اور ایسی ایسی اشیاء کا استعمال کرنے لگتے ہیں کہ عام آدمی حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ نشہ کے عادی لوگ نے نشیلی آور چیزوں کے آسانی سے نہ ملنے پر اپنی تسکین کے لئے ایسی اشیاء استعمال کرنے لگتے ہیں جن کا مصرف کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ جیسے کوئی پٹرول اور انک ریموور سے نشہ حاصل کرتا ہے تو کوئی کھانسی کے سیرپس کی زیادہ مقدار پی کر نشہ کرلیتا ہے۔ اب ان لوگوں نے ایسے انجکشنس کو بھی نشہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا

جن کا خالص طبی استعمال ہوتا ہے اور ڈاکٹرس یا تو شدید ضرورت کے تحت ہی ایسی ادویہ تجویز کرتے ہیں یا پھر اینستھیٹسٹس کی نگرانی میں ہی مریضوں کو دئیے جاتے ہیں۔ ڈرگس کنٹرول اڈمنسٹریشن کے حکام نے سرجریز کے موقع پر مریضوں کو بے ہوش کرنے اور جسم کو سن کرنے دئیے جانے والے انجکشنس کے علاوہ مریض کو شدید درد کے لئے تجویز کی جانے والی ادویات جیسے فنٹائل ، فورٹوین ، فینرگن اور کیٹامائن وغیرہ کے غلط استعمالات پر روک لگانے کے اقدامات کے طور پر ہسپتالوں کو ہی ان انجکشنس کی سربراہی پر تحدیدات عائد کردی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر سرجیکل اسٹورس؍میڈیکل شاپس پر جہاں یہ ادویات دستیاب ہوتی ہیں، وہ ضبط کرلی گئی ہیں جس کی وجہ سے اب یہ انجکشنس صرف تیارکنندگان کمپنیوں کے مسلمہ ڈسٹری بیوٹرس کے پاس ہی دستیاب ہیں۔ ان ڈسٹری بیوٹرس سے نشہ آور انجکشنس کے حصول کیلئے یہ لزوم عائد کیا گیا کہ ہر ہسپتال اور ڈسپنسری جہاں ان انجکشنس کا استعمال ہوتا ہے انہیں ڈرگس کنٹرولر سے ایک لائسنس حاصل کرنا ہوگا اور انجکشنس کے استعمال کی تفصیلات ایک ریکارڈ میں درج کرنا ہوگا جس میں یہ بھی ضروری ہوگا کہ جس مریض کو یہ انجکشن دیا گیا ہے اس کا پتہ وغیرہ بھی درج کیا جائے۔ علاوہ ازیں اب مذکورہ بالا انجکشنس سرجیکل اسٹورس؍میڈیکلس پر دستیاب نہیں ہوں گے بلکہ ان انجکشنس کو ان کے مینوفیکچررس کے ڈسٹری بیوٹرس سے ہی راست حاصل کرنا ہوگا۔ مذکورہ بالا انجکشنس کو نارکوٹیک ڈرگس کے زمرہ میں شامل کردیا گیا ہے۔ یہ انجکشنس ہر اس چھوٹے بڑے ہسپتال میں استعمال ہوتے ہیں جہاں سرجریز کئے جاتے ہیں یا پھر ایسے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے جو شدید سر درد یا کسی جسمانی تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں ۔ لائسنس کے حصول کے لئے چھوٹے ہسپتالوں کو نہ صرف سالانہ اساس پر فیس ادا کرنا ہوگا بلکہ انہیں ان انجکشنس کے استمعالات کا ریکارڈ بھی رکھنا ہوگا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ان انجکشنس کو جن کا استعمال خالصتاً طبی لحاظ سے کیا جاتا ہے کوئی نشہ کے لئے استعمال کرتا ہے تو ڈرگس کنٹرولر کو چاہئے کہ ان پر روک تھام لگائے اور غیر مجاز افراد کو یہ انجکشنس فروخت کرنے والے میڈیکل شاپس؍سرجیکل اسٹورس کے خلاف کارروائی کرے۔ نت نئی تحدیدات کی وجہ سے چھوٹے ہسپتالوں کے انتظامیہ کو غیر ضروری مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چھوٹے ہسپتال کے انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس سے رشوت خوری کو بڑھاوا ملے گا چونکہ اس لزوم کے بعد ڈرگس انسپکٹرس آئے دن چھوٹے ہسپتالوں کو پہنچتے ہوئے کسی نہ کسی بہانے رشوت طلب کریں گے۔ لائسنس منسوخ کرنے کی دھمکی نہ دیں سہی مگر چائے پانی کا خرچہ تو ضرور لیتے جائیں گے۔ علاوہ ازیں ہر سال لائسنس کی تجدید میں بھی دشواریوں کا سامنا ہوگا۔ اس کا ایک منفی اثر یہ بھی ہوگا کہ ڈرگ انسپکٹرس پر بوجھ بڑھ جائے گا اور وہ نشیلی ادویات کے غلط استعمال پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے ہسپتالوں کے چکر کاٹتے رہیں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس مسئلہ میں مداخلت کرتے ہوئے اس لزوم کو برخاست کرے چونکہ اس نئے لزوم کی زد میں شہر کے تقریباً 500 چھوٹے ہسپتال آتے ہیں۔