راشد آزر…ایک برُدبار شاعر
راشد آذر ایک نہایت ذی حیثیت گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے والد جناب حسین علی خاں انگریزی کے مشہور پروفیسر تھے اور والدہ معصومہ بیگم ایک قابل خاتون جو وزارت کے عہدے پر فائز رہیں۔ والدین کی تربیت اور شفقت کے سایہ میں راشد پروان چڑھے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد پبلک اسکول میں پائی پھر نظام کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد ا یل ایل بی کر کے وکالت کے پیشے سے جڑ گئے مگر دو سال کے بعد وکالت کو خیر باد کہہ دیا اور بی ایڈ کیا اور حیدرآباد، پبلک اسکول میںدرس تدریس سے وابستہ ہوگئے ۔ راشد پڑھاتے تو انگلش تھے، لیکن انہیں اردو سے فطری لگاؤ تھا ۔ وہ اردو میں شاعری کرنے لگے ۔ اٹھارہ سال کی عمر میں راشد آزر کے نام سے مشہور ہوگئے۔ ان کے والد ان کی شاعری کے خلاف تھے مگر طبیعت میں بغاوت کا جذبہ تھاچنانچہ راشد اس راہ پر گامزن رہے۔
بقول راشد آزر…
دل پاگل ہے ، اب تک اس نے سنی ہے اب جو سنے گا
جو کرنا تھا وہی کیا ہے جو کرنا ہے وہی کرے گا
1940 ء کی دہائی میں ترقی پسند تحریک میں شریک ہوئے ۔ مخدوم ، شاہد صدیقی، سلیمان اریب جیسی مشہور شخصیتوں کے ساتھ شمار کئے جاتے۔ نہ صرف رکن بلکہ سکریٹری بھی رہے ۔ راشد ایک بلند پایہ شاعر ہیں مارکسی نظریہ کے حامی ہیں۔ وہ ایک بے باک نقاد بھی ہیں، جان نثار ، اختر، ساحر لدھیانوی ، علی سردار جعفری ، کیفی اعظمی، سلیمان اریب اور شاذ تمکنت پر ان کے مضامین قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے شعری اور ادبی جمالیات پر بھی کئی فکرانگیز مضامین لکھے ہیں۔ 1988 ء میں سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد نے بہ حیثیت پویٹ آف دی کیمپس ان کا انتخاب کیا جو پہلا انتخاب ہے ۔ راشد آزر ایک خود مختار شخصیت کے مالک اور اپنے اصولوں کے پابند ہیں وقت سے بے نیازی انہیں بالکل پسند نہیں۔ کوئی بھی محفل ہو بلانے پر پابندی وقت کے ساتھ جاتے ہیں مگر پروگرام میں تاخیر ہوتی تو واپس لوٹ جاتے ہیں، یہ ان کی نازک مزاجی نہیں بلکہ اپنے اصولوں پر ثابت قدمی کا اظہار ہے ۔ جس بات کو صحیح سمجھا ، چاہے اس کی مخالفت دنیا کرے راشد اپنی سوچ پر اٹل رہتے ہیں۔ ایک خوش حال گھرانے کا فرد ہونے کے باوجود جہاں دولت و عزت کی کمی نہیں تھی ، زندگی کے نشیب و فراز پر استقلال سے چلتے رہے۔ اپنی خودداری اور ان کو سنبھالے رکھا ۔ کبھی اپنے اعلیٰ عہدیدار رشتے داروں سے مدد نہ مانگی ، عجیب بات ہے راشد کی اس کج کلاہی کا خیال نہ کرتے ہوئے لوگ ان کا احترام کرتے ہیں، خلوص سے ملتے ہیں۔
راشد آذر نے غزلیں لکھیں، قطعات بھی لکھے لیکن بنیادی طور پر وہ نظم گو شاعر ہیں۔ ان کے گیارہ مجموعے شائع ہوچکے ہیں جو یہ ہیں ۔ (1) نقش آزر ۔1963 ء (2) صدائے تیشہ۔ 1971 ء (3) آبدیدہ۔1974 ء (4) خاک انا ۔ 1979 ء (5) جمع خرچ وفا۔1992 ء (6) منزل شوق۔1992 ء (یہ دو سو رباعیات جو اوزان میں ہیں) (7) زخموں کی زبان ۔ 1997 ء (8) اندوختہ۔ 1997 ء (9) قرض جاں ۔ 2003 ء (10) نقد یات۔ 2007 ء اور گیارھویں ’’میر کی غزل گوئی ایک جائزہ‘‘ پر مقالہ انجمن ترقی اردو ہند نے شائع کیا ۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی شاعر کے کلام کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اس کے سارے کلام کا جائزہ لینا ضروری ہے اگر ان کی اس کتاب کو پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے میر کے چھ دیوان میں پائے جانے والے کلام کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ، ساتھ ہی میر کے بارے میں بہت سے مفکرین کی تحریروں پر بھی نظر ڈالی ہے ۔ اس کا ثبوت ان کی کتاب میں محمد حسین آزاد کے خیالات ، فراق گورکھپوری کا میر کے غم و ناکامی کی تصویر جابجا دکھائی دیتی ہے ۔ انہوں نے مولوی عبدالباری سامی کا نہ صرف تذکرہ کیا ہے بلکہ ان کے مضمون سے میر کے متعلق جن 22 اجزاء کا ذکر ہے، تفصیل کے ساتھ بتایا ہے ۔ میر کی عالم گیر مقبولیت رشید احمد صدیقی کے تعارف سے لکھی ہے ۔ اسی طرح پروفیسر مغنی تبسم کے اور دوسرے مفکرین کی تحریروں کے بارے میں کہا ہے کہ نامور صاحب ذوق نے میر کے کلام کی چھان بین اپنے اپنے انداز سے کی ہے ۔ اس کے بعد بھی راشد نے میر کی کلیات کا پھر مطالعہ کیا اور نقادوں کو پڑھا تو انہیں محسوس ہوا کہ ان لوگوں نے میر کے کلام اور شخصیت کی جو تصویر بنائی ہے وہ میر کی اصلی شخصیت سے جدا اور بہت الگ ہے ۔ انہیں میر کے کئی رنگ ، کئی موڑ ، کئی رخ دکھائی دیئے پھر راشد نے چھ مضامین میں اس کی وضاحت کی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ میر غزل واردات قلبی کے اظہار کیلئے لکھتے تھے جس کا اندازہ ان کے اشعار میں جذبات کا واضح ہوجانا ہے ، میر کی غزلوں کے زیادہ تر اشعار میں زندگی کی نمایاں اور مرکزی احساس دکھ ، درد ، غم اور ناکامی کے تجربات و احساسات کا عکس جھلکتا ہے پھر میر کا حسن پرستی کا شکار ہوکر جنوں زدہ ہونے کا بھی تذکرہ ہے ۔ میر کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے راشد کہتے ہیں کہ میر نے حصول معاش کی خاطر مختلف نوعیت کے کام کئے ، وہ کبھی سفیر رہے ، کبھی محرر ، کبھی جنگی مہم میں شریک رہے ، کبھی مصالحت کروائی ، کبھی درویش ، کبھی مصاحب رہے ، کبھی محفلیں سجائیں، کبھی شہر اجڑے دیکھے مگر انہوں نے ہر منزل پر اپنے آپ کو مثبت قدروں سے منسلک رکھا ۔ ظاہر ہے ان سب کا اثر ان کے کلام میں پایا جاتا ہے ۔ ان باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے راشد نے اپنے مضامین میں میر کے اشعار پیش کئے ہیں ، غرض کہ یہ کتاب ’’میر کی غزل گوئی ایک جائزہ ‘’ راشد آزر کی لگن اور جانفشانی کا ثبوت ہی نہیں اہمیت کی حامل ہے۔
ہم کواندازہ ہے کہ سچا عشق اور شادی زندگی کی دو الگ باتیں ہیں لیکن معشوق رفیق حیات بن جائے تو مت پوچھئے کیا کچھ مل جاتا ہے ۔ راشد آزر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا مگر حسن و عشق کے شب و روز کو زمانے کی نظر لگ گئی ۔ فاطمہ کو پروردگار عالم نے حسن کے مکمل پیکر میں ڈھالا تھا ۔ ایسی توبہ شکن ہستی سامنے رہے تو ایسے ویسے بھی شاعری کرنے لگتے ہیں۔ راشد تو آزر تھے ہی لفظوں سے شعری بت تراشی کرتے رہے۔ فاطمہ نے اپنی محبت کی مہر ننھے حسین کے روپ میں راشد کی زندگی پر لگادی اور عالم بالا کی وسعتوں میںگم ہوگئی راشد کی دنیا تہہ و بالا ہوگئی ۔ بقول شاذ تمکنت کے اس کی شاعری زخم زخم ہوکر تاثیر و کیفیات کا نمونہ بن گئی‘‘۔ ان کے کلام کا مجموعہ ’’آب دیدہ‘‘ اور ’’صدائے تیشہ‘‘ راشد آزر کے غم زدہ دل و دماغ کے آئینہ دار ہیں جس کا ہر شعر پڑھ کر دل تڑپ اٹھتا ہے۔
شاذ تمکنت نے راشد آذر کی کتاب’’آب دیدہ‘‘ کے پیش لفظ میں لکھا ہے ’’آب دیدہ‘‘ غم کی شاعری کا کرب ناک دیوان ہے ۔ میں غم کو جو ہری توانائی سے تشبیہ دیتا ہوں جس سے تعمیر اور تخریب دونوں ممکن ہیں۔ غم کی قوت شاعر کو آپ ہلاک بھی کرسکتی ہے اور طاقت شفاء بھی عطا کرسکتی ہے ۔ غم قاتل بھی ہے اور مسیحا بھی ، زہر بھی ہے اور امرت بھی ۔ ان دونوں میں امتیاز کر کے ایک مثبت غم کا انتخاب فنکار کا فریضہ اولین ہے ، ورنہ غم متعدی مرض کی طرح دوسرے کے دلوں کو افسردہ کرتا جائے گا ۔ راشد نے اپنے غم کو وسعت بخشی ہے اور غم کو ایک قوت کا درجہ دے دیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ادیب کا قلم اور شاعر کا کلام دلی جذبات ، احساسات اور تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے ۔ مثال کے طورپر ہم راشد آزر کی غزلوں کے چند اشعار دیکھیں گے۔
انہیں یہ ضد کہ میں زخموں کا اشتہار بھی دوں
مجھے تو شرم سی آتی ہے آہ بھرتے ہوئے
کبھی نہ ختم ہوئی آرزوئے منزل عشق
ڈھلی جو دھوپ تو سائے کے پیچھے چل نکلا
میں جس کو جاں سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں
دفینہ وقت کا کھودا تو ایک پل نکلا
راشد آزر کی بردباری اور رکھ رکھاؤ کے باعث ان سے ملنے والوں اور دوست احباب کا حلقہ زیادہ وسیع نہیں۔ میرا ان کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مماثل ہے۔ بے شک وہ ایک بلند پایہ شاعر اور بے باک نقاد ہیں جس کا اعتراف اردو ادب کے دانشوروں نے کیا ہے۔