نریندر مودی کو ’Mango Republic‘ میں وزارت عظمیٰ مبارک!

عرفان جابری
نریندر دامودر داس مودی، بھارتیہ جنتا پارٹی، اُس کی مادر تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور ملحقہ تنظیموں سے کئی ملکی مسائل اور واقعات پر ایک ہندوستانی ووٹر کی حیثیت سے میری ناراضگی اپنی جگہ لیکن 2019ء کے عام انتخابات میں جس طرح مودی اور صدر بی جے پی امیت شاہ نے اپنی پارٹی کو متواتر دوسری مرتبہ تاریخی عددی طاقت (300+) کے ساتھ مرکزی اقتدار تک پہنچا دیا‘ وہ اِس دنیا میں مذہب و ملت، رنگ و نسل سے قطع نظر انسان کی انتھک کاوش کی کامیابی کا پھل ہے ۔ کوئی چاہے تو سیکھ سکتا ہے کہ جیت ہوشیاری، بازیگری، سیاسی اداکاری کے ساتھ ساتھ لازمی طور پر دن اور رات ایک کردینے سے ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم، میں نے نریندر مودی کو ’Mango Republic‘ میں وزارت عظمیٰ کے حصول پر مبارکباد دی ہے! (دانستہ غیرمستعل اصطلاح کا استعمال) ۔ دراصل ابھی تک کہیں بھی ’مینگو ریپبلک‘ کی اصطلاح تو استعمال نہیں ہوئی ہوگی، البتہ Banana Republic مستعمل ہے، جو ایسی چھوٹی سی مملکت کیلئے کہتے ہیں جو بیرونی سرمایہ کے زیرکنٹرول واحد برآمد کی وجہ سے اس کی معیشت پر قائم غلبے کے نتیجے میں سیاسی طور پر غیرمستحکم ہوتی ہے۔ اسی سے مجھے ’مینگو ریپبلک‘ کی اصطلاح ذہن میں آئی جو واضح طور پر انتخابات کے دوران ایک ’غیرسیاسی‘ انٹرویو میں آم (Mango) کے بارے میں وزیراعظم کی ملک کے 130 کروڑ عوام کیلئے کافی مفید جانکاری فراہم کرنے کی طرف اشارہ ہے۔
جمعرات کو لوک سبھا الیکشن کے نتائج کے اعلان کے بعد جمعہ کو یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران میں سوچتا رہا کہ آخر کیا وجوہات ہوسکتی ہیں کہ مودی کے مقابل زیادہ باصلاحیت ، مقبول اور بہتر امیج کے حامل آنجہانی اے بی واجپائی 2004ء میں اپنی پہلی پوری میعاد کے بعد اقتدار پر واپس نہیں ہوسکے، حالانکہ پلوامہ اور بالاکوٹ کی ’باپ‘ کرگل جنگ تب بھی ہوئی تھی، یہ اور بات ہے کہ اسے چند برس گزر چکے تھے۔ لیکن جس طرح مودی نے 2014ء میں ڈھیروں وعدے کئے اور پورے کچھ نہ کئے، اسی طرح واجپائی اور بی جے پی نے بھی اپنے کوئی وعدے پورے نہیں کئے تھے (ویسے اُن کے وعدے انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے، جن میں ایودھیا میں متنازعہ مقام پر رام مندر کی تعمیر، یکساں سیول کوڈ کا نفاذ اور کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کی تنسیخ نمایاں تھے)۔ پھر کیا وجہ ہوئی کہ مودی نے 2014ء سے 2019ء تک بدترین کارکردگی (اس کے ماسواء کہ چند امراء اور اکثریتی برادری کے بعض گوشوں کے حق میں اچھا کیا) کے باوجود اعداد و شمار کے اعتبار سے ایسی شاندار فتح درج کرائی ہے؟ فوری طور پر جو خیال اُبھر آرہا ہے، وہ ہندوستان کی بظاہر دوست اور باطنی طور پر دشمن بیرونی طاقتوں نیز مغربی پڑوسی ملک کی مرکزی حکومت کو بالواسطہ مدد، کارپوریٹ گھرانوں کی اپنے مفادات حاصلہ کیلئے کروڑہا روپئے جھونک دینا، لگ بھگ تمام ملکی اداروں کا کٹھ پتلی بن جانا، میڈیا کے چند اداروں کے سواء تمام کا گھٹیا مادی مفادات کیلئے اپنا ضمیر بیچ دینا… اور ان سب کے ساتھ نریندر مودی اور امیت شاہ کی بے تکان محنت بڑی وجوہات ہیں۔
ظاہر ہے کامیابی کیلئے کسی کو کریڈٹ دیا جائے یا کوئی وجوہات بیان کی جائیں تو اس کے مقابل ناکامی کے بھی کوئی ذمہ دار ہوں گے اور شکست کی بھی وجوہات ہوں گی۔ میں فی الحال بڑی اپوزیشن اور قدیم کانگریس پارٹی سے شروع کرتا ہوں۔ ڈسمبر 2017ء کے گجرات اسمبلی الیکشن کے بعد کانگریس کی صدارت سنبھالنے والے راہول گاندھی نے تقریباً ڈیڑھ سال میں ملی جلی کارکردگی پیش کی؛ اُن کے دور صدارت میں کانگریس تلنگانہ اسمبلی الیکشن بُری طرح ہار گئی لیکن راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی سے بہ یک وقت اقتدار چھین لیا۔ اس دوران راہول میں پہلے کے مقابل کافی پُراعتمادی دیکھنے میں آئی۔ میرے خیال میں لوک سبھا الیکشن میں راہول نے بہت اچھی مہم چلائی، حالانکہ خود انھیں اپنے روایتی گڑھ حلقہ امیٹھی میں شکست ہوگئی مگر وہ کیرالا میں حلقہ ویاناڈ سے جیت گئے۔ 2014ء کے مقابل کانگریس کی عددی طاقت (50+) میں کچھ تو بہتری تو آئی اور یو پی اے کی طاقت بھی کچھ بڑھی ہے۔ مختصر یہ کہ راہول کو وسیع تر تناظر میں اس شکست کیلئے ذمہ داری قبول کرکے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارٹی صدارت سے مستعفی ہوجانا چاہئے۔ عین ممکن ہے جب تک آپ قارئین کرام، یہ سطور پڑھیں، صدر کانگریس مستعفی ہوچکے ہوں گے۔ کانگریس اور یو پی اے قیادت کو راہول پر برقرار رہنے کیلئے دباؤ نہیں ڈالنا چاہئے۔ یو پی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی کو اب آنے والے دنوں میں کچھ اسی طرح کا روایت شکن سیاسی اقدام کرنا ہوگا جیسے انھوں نے 2004ء میں وزارت عظمیٰ کی دعوت کو شکریہ کے ساتھ رد/ مسترد کرتے ہوئے اقلیتی فرقہ کے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وزیراعظم بنایا تھا۔ اب کانگریس کی صدارت کے معاملے میں بھی کچھ Out of the Box سوچ و فکر کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پانچ سال سے ہندوستانی سیاست پر گجرات چھایا ہوا ہے۔ اپوزیشن کانگریس بھی گجرات سے ہی وار کرسکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں موجودہ راجیہ سبھا ایم پی احمد پٹیل کو کانگریس کی صدارت سونپنا ملک میں سیاسی ہلچل مچانے والا اقدام ہوگا۔ علاوہ ازیں کانگریس کو اب الیکشن سے پہلے وزارت عظمیٰ امیدوار کا اعلان نہ کرنے کی روایت ختم کردینا چاہئے۔چنانچہ آنے والے پانچ سال تک راہول کو آزادی سے سیاسی پختگی حاصل کرنے دیا جائے (شادی کیلئے بھی یہ شاید موزوں وقت ہے) اور پھر 2024 ء میں ’اگر‘ لوک سبھا چناؤ ہوتے ہیں تو راہول گاندھی کو کھلے عام وزارت عظمیٰ کا کانگریسی اور یو پی اے امیدوار بناکر پیش کیا جائے، چاہے اس کے بعد یو پی اے کے شرکاء کی تعداد گھٹے یا بڑھے! پرینکا گاندھی کو امیٹھی حلقہ سے سمرتی ایرانی کے خلاف انتخابی میدان میں اُتارا جاسکتا ہے۔ اُس سے قبل 2022ء میں اترپردیش اسمبلی میں پرینکا گاندھی کی سخت آزمائش ہونے والی ہے۔ وہیں پتہ چل جائے گا کہ وہ سیاسی میدان میں دور تک چل سکتی ہیں یا نہیں۔
وزیراعظم مودی سے منکشف ہونے والے حیران کن دعوے مجھے 27 سال پیچھے لے گئے جب میں سائنس گرائجویٹ بنا تھا اور ان تمام برسوں میں بڑھتے تجربے کے باوجود مجھے کبھی اندازہ ہی نہیں ہوا کہ Climate Change کچھ نہیں ہوتا، گندی نالی کی گیس سے چائے بنائی جاسکتی ہے،Radar technology کیا ہوتی ہے، انسان 24 میں سے صرف 3 تا 4 گھنٹے سوتے ہوئے 130 کروڑ نفوس کا ملک چلا سکتا ہے۔ اس بات پر تحریر ختم کرتا ہوں کہ مودی جی نے پانچ سال میں مجھے یا مجھ جیسے کروڑوں ہندوستانیوں کو بھلے ہی کچھ فائدہ نہ پہنچایا … مگر آم کھانا سکھا دیا ہے! بہت شکریہ! وزیراعظم مودی جی!!!
irfanjabri.siasatdaily@gmail.com