مجید صدیقی
اسرائیل کا وجود ایک یہودی ربی کے ناول میں بیان کئے گئے خواب کی تعبیر ہے جسے اس نے موجودہ مغربی کنارے فلسطین پر بسانے کی خواہش کی تھی ۔ گو کہ یہودی قبیلے اور افراد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے ہی مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں ملوث رہے ہیں اور وہ کبھی بھی راست یا دوبدو جنگ اور لڑائیوں کے منظر عام پر نہیں آیا کرتے تھے بلکہ ہمیشہ پس منظر میں رہ کر سازشیں کیا کرتے تھے اور جنگ و جدال کے سامان فراہم کیا کرتے تھے ۔ آزادی ہند کے بعد سے ہی ہندوستان نے ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کی ہر پلیٹ فارم پر تائید و حمایت کی ہے اور ہمیشہ اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی اور کینہ پروری کی روش چھوڑ کر فلسطینیوں کو ان کی مملکت واپس کردے ۔ اس سلسلہ میں اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں پر ہندوستان کی فلسطین کو تائید کے ثبوت مل جائیں گے ۔
اسرائیل نہ صرف ایک غاصب ملک ہے بلکہ اس نے اپنی موجودہ سرحدوں کو وسعت دیتے ہوئے مغربی کنارے (فلسطین) کے اطراف و اکناف اور مسلمانوں کے قبلۂ اول بیت المقدس کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے اور اپنی بستیاں بسارہا ہے ۔ وہاں مسلمانوں کو نمازیں ادا کرنے کی اسرائیل نے پابندی عائد کردی ہے اور نمازیں ادا کرنی ہوں تو اسرائیلی فوج سے اجازت لینی ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کے قبلۂ اول کو اس کے اطراف طاقتور اور بڑے بڑے عرب ممالک بھی اسرائیل کے پنجوں سے چھڑا نہ سکے یہ بات نہایت افسوسناک ہے ۔
ہندوستان نے ہر مشکل موقع پر مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیا ہے اور جب تک یاسر عرفات صدر الفتح جو فلسطین کی آزادی کی جد وجہد کرنے والی جماعت ہے ، انھوں نے ایک وقت ہندوستان کا دورہ بھی کیا تھا اور وہ ہمیشہ آنجہانی اندرا گاندھی سابق وزیراعظم ہندوستان کو اپنی بہن کہا کرتے تھے ۔ اسرائیل سے نفرت کا ایک ثبوت ہم نے اپنے ابتدائی زمانے میں یہ دیکھا تھا کہ جب کبھی کسی ہندوستانی شخص کو پاسپورٹ جاری کیا جاتا اس پر ایک اسٹامپ لگادیا جاتا تھا کہ ’’سوائے ساؤتھ افریقہ اور اسرائیل کے کہیں بھی سفر کرنے کی اجازت ہے‘‘ ۔ دوسرے جنوبی افریقہ اور اسرائیل کو انکی نسلی منافرت کی پالیسی کی بنا پر اولمپک کھیلوں اور دوسرے بین الاقوامی کھیلوں میں شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی تھی ۔ یہ تو رہا اسرائیل کا مختصر تعارف ۔
یہ ساری باتیں اس لئے کہنی پڑتی ہیں کہ اسرائیل اس قبیل کا ملک ہونے کے باوجود ہندوستان کی موجودہ بی جے پی سرکار جس کے سربراہ نریندر مودی ہیں کیوں اسرائیل سے قربت حاصل کررہی ہے پتہ نہیں ۔
4 جولائی جمعہ کو اقوام متحدہ میں حقوق انسانی کمیشن رپورٹ پر رائے دہی کے موقع پر جس میں گذشتہ سال اسرائیل کی غزہ میں بربریت کی مذمت کی جارہی تھی ، ہندوستان کی غیر حاضری نے یہ واضح کردیا کہ ہندوستان اسرائیل کے موقف کی تائید کرتاہے ۔ اقوام متحدہ حقوق انسانی کمیشن میں گذشتہ سال کی غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی جانب سے کئے گئے جنگی جرائم کے ارتکاب کے خلاف یہ قرارداد منظور ہوئی تھی ۔ اس سے قبل ایک بین الاقوامی کمیشن اس سلسلہ میں ایک رپورٹ پیش کرچکا ہے ۔ اس کے بعد حقوق انسانی کمیشن میں قرارداد کی منظوری کا فیصلہ لیا گیا ۔ قرارداد کی تائید میں 41 ممالک ارکان ووٹ ڈالے اور جبکہ امریکہ وہ واحد ملک رہا جس نے اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا ۔ تاہم ہندوستان نے کینیا ، ایتھوپیا ، پیراگوئے ، اور مقدونیہ کے ساتھ مل کر اس قرارداد پر ووٹ دینے سے گریز کیا ۔ یہ عمل ہندوستان کی معلنہ اور دیرینہ پالیسی سے انحراف ہے ۔
ہندوستان ہمیشہ ہی سے خود کو فلسطینی کاز کا حامی قرار دیا کرتا ہے ۔ پنڈت نہرو کے دور سے ہی ہندوستان کی فلسطین سے تعلقات کی روایت رہی ہے اور ہر موقع پر ہندوستان نے فلسطینی کاز اور فلسطینی عوام کی تائید کی تھی ۔ اب تک جتنی بار بھی اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے قراردادیں اسرائیل کے خلاف پیش کی گئی تھیں ،ہندوستان نے اس کی تائید کی تھی ، لیکن اب پہلی بار ہندوستان نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دینے سے گریز کیا ہے ۔ اسے سمجھا جارہا ہے کہ یہ عمل فلسطینی کاز کی حمایت سے متعلق پالیسی سے انحراف ہے اورآئندہ موقعوں میں ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی کا اشارہ بھی ہے ۔ حکومت تو (ہندوستان) اب بھی یہی کہہ رہی ہے کہ وہ فلسطینی کاز کی حمایت سے انحراف نہیں کررہی ہے لیکن یہ حکومت کے قول و فعل کا تضاد ہے جو قرارداد کی منظوری کے وقت دیکھا گیا ہے ۔ایسا لگتاہے مودی حکومت کسی بھی قیمت پر اسرائیل سے دوستی بنائے رکھنا چاہتی ہے ۔ گذشتہ سال نریندر مودی اور وزیراعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے بعد ملاقات کی تھی اور تب سے دونوں وزیراعظموں کے درمیان تعلقات خوشگوار تصور کئے جارہے ہیں اور اسرائیل کی خدمت سے گریز کا اقدام اسی دوستی کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان 1992 میں ہی سفارتی تعلقات کا قیام عمل میں آیا تھا تاہم ہندوستان نے کبھی بھی فلسطینی کاز سے دوری اختیار نہیں کی تھی اور نہ اس نے اسرائیل کے خلاف کبھی ووٹ دینے سے گریز کیا تھا ۔
یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ وزیراعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو نے وزیراعظم نریندر مودی سے فون پر خواہش کی تھی کہ وہ اس قرارداد پر ووٹ نہ دیں بلکہ غیر حاضری اختیار کی جائے اور اس طرح ہندوستان نے اسرائیل کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے رائے دہی سے غیر حاضری اختیار کرلی ۔ حالانکہ اس وقت 41 ممالک نے اس قرارداد کی تائید کی تھی اور ہندوستان کو جو ایک اپنا منفرد مقام رکھتا ہے ، اسے قرارداد کی تائید میں رائے دہی کرنی چاہئے تھی ۔ اس طرح ہندوستان نے رائے دہی سے گریز کرتے ہوئے عملاً اسرائیل کے جنگی جرائم سے صرف نظر یا پہلو تہی کی ہے اور اس اقدام سے واضح طور پر دنیا کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ہندوستان جو کہ اہنسا کا پجاری ہے اور عدم تشدد پر چلنے والا ملک ہے اس کے باوجود اس نے فلسطینیوں پر ڈھائے گئے مظالم سے چشم پوشی کرلی ہے اور غزہ کے شہریوں پر جو غیر انسانی مظالم ڈھائے گئے ہیں ،جس میں 2200 شہری ہلاک ہوئے ہیں ، جن میں معصوم چھوٹے بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ تھی اور وہاں عمارتوں کو بمباری کرکے تہہ تیغ کردیا گیا تھا اور بہت سے غزہ کے شہری جو بچ گئے تھے جو آسمان کے نیچے بے سہارا اپنی زندگیاں گزار رہے تھے ۔ بچوں کو دفنانے کی سہولت نہ ہونے سے انھیں فریج میں رکھ دیا گیا تھا ۔ کیا ان کریہہ اور دل دہلادینے والے مناظر سے مودی حکومت بے خبر ہے ۔ اس جنگ میں اسرائیل کے صرف 6 شہری مارے گئے تھے ۔
ہندوستان نے ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیا ہے اور ہندوستان کی یہ روایت عہد قدیم سے ہی رہی ہے کہ اس نے تبت کے مظلوموں کو پناہ دی ، بنگلہ دیش کے پریشان حال لوگوں کی مدد کی ہے ، سری لنکا کی ایک بڑی ٹامل آبادی کو پناہ دی ہے اور پاکستان سے آئے شرنارتھیوں کو پناہ دی ہے جس میں اڈوانی جی بھی شامل ہیں ، لیکن اب ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھی جارہی ہے اور وہ مظلوم کی بجائے ظالم اسرائیل سے دوستی اور یگانگت کو ترجیح دے رہا ہے ۔ اس دوستی کے جذبہ اور اس اقدام کی ستائش کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے نریندر مودی کا شکریہ ادا کیا ہے اور اسرائیلی سفیر برائے ہند ڈینیل کارمن نے کہا کہ ہندوستان کے اس اقدام کیلئے ہم مشکور ہیں اور ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں اور یہ دونوں ممالک کے درمیان مثبت تعلقات کا ثبوت ہیں ۔ 2014 سے ہندوستان میں نریندر مودی کی قیادت میں آنے کے بعد سے اسرائیل سے ہندوستان کے تعلقات روز افزوں مضبوط ہوتے جارہے ہیں ۔ مودی جب چیف مسنٹر گجرات تھے تب انھوں نے اسرائیل کا دو مرتبہ دورہ کیا تھا اور مودی کے کیبنٹ وزراء اور وزیر خارجہ سشما سوراج اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ بھی دیوار گریہ کے قریب دیکھے گئے تھے تصاویر میں ۔کانگریسی وزیراعظم پی وی نرسمہاراؤ کو کانگریس کے بھیس میں بی جے پی کے وزیراعظم تھے ۔ ان کے دور سے پہلے ممبئی میں اسرائیل کا صرف قونصلیٹ تھا ۔ نرسمہاراؤ کے دور حکومت میں اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوچکے ہیں ۔ 2014 کے بعد سے مودی حکومت میں اسرائیل سے تعلقات مزید مستحکم ہورہے ہیں ۔ ہندوستان میں چند ماہ قبل ایئر شو میں اسرائیلی وزیر دفاع نے شرکت بھی کی تھی ۔
1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے جب بیت المقدس ، سینائی اور گولان کی پہاڑیوں کے بشمول اردن ، مصر اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا ، تب ہندوستان نے اسرائیل کی کھل کر مذمت کی تھی ۔ عنقریب وزیراعظم نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے ہیں جس کے لئے تیاریاں کی جارہی ہیں ، ہوسکتا ہے دونوں ممالک کے درمیان مزید سیاسی ، سماجی اور سائنسی ، دفاعی معاہدات طے پانے کی امید ہے ۔ ہندوستان اسرائیل سے ڈریپ اریگیشن سسٹم سے آبپاشی کے میدان میں مہارت حاصل کررہا ہے ۔ یوں بھی بہت سے پولیس آفیسرز اور فرقہ پرست سیاستداں اکثر اسرائیل جا کر وہا ں سے وارے نیارے ہو کر آتے ہیں ۔ ان سب تعلقات اور کوششوں کا صرف ایک مقصد نظر آتا ہے وہ ہے ’’مسلم دشمنی‘‘ جو کہ اسرائیل اور بی جے پی حکومت کا مشترکہ ایجنڈہ ہے ۔ ویسے بھی ہم خیال جماعتیں جو فسطائی ذہنیت اور ظلم و بربریت پر یقین رکھتی ہیں ان میں ہم آہنگی اور یکسانیت و قربت بہت جلد پیدا ہوجاتی ہے جو ایک فطری عمل ہے ۔
نورِ حق شمع الہی کو بجھاسکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹاسکتا ہے کون
نریندر مودی حکومت پر معاملہ میں روایتی اور تاریخی پہلوؤں کو نظر انداز کرتی دکھائی دے رہی ہے ۔ چاہے وہ فلسطین کی تائید کا معاملہ ہو یا پھر بیرونی ممالک میں ہندستانی شبیہ کو متاثر کرنے کا ۔ اس طرح کے اقدام سے ہمارے عرب ممالک کے بھی ناراض ہونے کے امکانات ہیں جن سے ہمارے تجارتی ، ثقافتی اور اچھے سیاسی تعلقات ہیں چھ دہائیوں سے ۔ مودی نے آج تک کسی عرب ملک کا دورہ نہیں کیا ہے حالانکہ عرب ممالک میں ہمارے ملک کے لاکھوں نوجوان جو اپنی کارکردگی اور بہتر نمائندگی سے ملک کا نام رشن کر ہی رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ لوگ مادر وطن کو کروڑہا ڈالر اپنی محنت کی کمائی سے ہندوستانی معیشت کی مدد بھی کررہے ہیں ۔ ہندوستانی معیشت آج جو مستحکم ہے اور مالی طور پر خوشحال ہے وہ ایک بڑی حد تک بیرون تارکین وطن کی رہین منت ہے ۔ اس طرح ایک طرف ہندوستان میں روزگار کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہورہا ہے دوسری طرف ان ہنرمندوں اور قابل افراد کی جانب سے ملک کو کروڑوں روپیہ زر مبادلہ حاصل ہورہا ہے جو کہ معیشت کے لئے ایک مثبت پہلو ہے نیز ہندوستان کی تیل کی بیشتر ضروریات بھی انہی ممالک یعنی مغربی ایشیائی ممالک کی جانب سے پوری کی جاتی ہے ۔
ہندوستانی حکومت کو یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ ہمارا ملک ناوابستہ تحریک کا جو اسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کے خلاف والی تحریک کا فعال اور بانی رکن رہا ہے ، اسرائیل سے قربت اور فلسطینی کاز سے دوری سے عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس سے نہ صرف مسلم ممالک بلکہ بہت سے یوروپی ممالک سے بھی ہندوستان کے تعلقات پر اثر پڑسکتا ہے ۔ مسلمانوں کے علاوہ ہمارے ملک کا ایک ذی شعور اور صحیح طرز فکر رکھنے والا اور بائیں بازو کا ایک بڑا طبقہ بھی اسرائیل کو غاصب سمجھتا ہے ۔ اس بات کو حکومت ہند کو سمجھنا چاہئے ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اسرائیل سے تعلقات منقطع کرکے لاچارو بے بس فلسطینیوں کے حق میں اپنی آواز اٹھائیں ۔ یہی انصاف کا تقاضہ ہے اور یہی انسانیت کی جیت اور معراج ہے ۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ پہلے اپنے ملک کے اندر کے سلگتے مسائل کو بہتر حکمت عملی اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے حل کریں جیسے ویاپم اسکام ، للت مودی اسکام ، سمرتی ایرانی ڈگری اسکام ، مہاراشٹرا کا پنکجا منڈے اور ونود تاؤڑے کے اسکامس جو ملک کے حساس مسائل ہیں پھر خالی وقتوں میں ودیش یاترا کریں ۔ یہاں مسائل کے انبار چھوڑ کر بیرونی ملک کے دورے کچھ مناسب بات نہیں ۔
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو