’’نذرانہ‘‘ ایک بے بہا شعری خزانہ

شیدا رومانی، کرناٹک
نذیر نادرؔ حیدرآباد کے ایک مشہور نمائندہ شاعر ہیں۔ استاذِ محترم حضرت رحمن جامی نے بڑی دانش مندی سے اپنے شاگرد نذیر الدین کیلئے نادر تخلص تجویز فرمایا ہے کیونکہ نذیر نادر میں ایک قسم کی ندرت لفظی پائی جاتی ہے وہ یہ کہ نام اور تخلص دونوں ہی حرف ’’ن‘‘ سے شروع ہوکر حرف ’’ر‘‘ پر ختم ہوتے ہیں۔ نذیر نادر کی یہ خوش نصیبی ہے کہ وہ رحمن کے بھی شاگرد ہیں اور جامیؔ کے بھی۔
نذیر نادرؔ کے شعری مجموعے ’’نذرانہ‘‘ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ ایک فطری شاعر ہیںاور ایک سچے مسلمان کی طرح نہ صرف دینی زندگی سے بحسن و خوبی نباہ کر رہے ہیں بلکہ دائرہ شریعت میں رہ کر دنیاوی زندگی سے بھی نبرد آزما ہیں۔ لہذا وہ بنیادی طور پر اسلامی طرز فکر کے شاعر ہونے کے باوجود عصر حاضر کے دنیاوی مسائل کو بھی پیرایہ شعر میں بیان کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔
’’نذرانہ‘‘ کی شعری تخلیقات دو حصوں میں منقسم ہیں۔ پہلا دینی اور دوسرا دنیاوی ۔ دینی حصے میں بعنوان ’’ثنائے کبریا‘‘ چار حمدیہ نظمیں ہیں، ایک ’’التجا‘‘ ہے۔ توصیف مصطفیؐ کے عنوان سے پندرہ نعتیں ہیں ایک نظم ہے’’ہر گستاخ رسولؐ متنبہ ہوجائے ورنہ‘‘ ایک ’’سلام‘‘ ہے اور تین مناقب ہیں۔ علاوہ ازیں دنیاوی حصے میں تین مرثیے، تین رباعیاں ، چھتیس غزلیں، بارہ پابند نظمیں ، گیارہ آزاد نظمیں، تین تری یولے ، پانچ دوہے ، چھے ماہیے ، چھے موضوعاتی قطعات، دس قطعات اور ’’طفلستان‘‘ کے تحت پانچ نظمیں شامل ہیں۔ اللہ قادر مطلق ہے وہ ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے لیکن اس کا بندہ اشرف ا لمخلوقات کے درجے پر فائز ہونے کے باوصف اللہ کی حمد کاملہ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اللہ رب العالمین کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ، اللہ کی بہتر سے بہتر حمد و ثنا تخلیق کرنا ہر شاعر کی اپنی اپنی اہلیت انشاء پروازی پر منحصر ہے ، اس  ضمن میں نذیر نادر کی تخلیقی کاوشیں قابل قدر بھی ہیں اور قابل مبارکباد بھی۔

نذیر نادر کے اس شعری مجموعے ’’نذرانہ‘‘ کی پہلی حمد ہے ’’اللہ اکبر‘‘ جس کے پہلے بند میں اللہ رب العزت کی کبریائی بیان کی گئی ہے۔ دوسرا بند اس کی رحمت خاص سے تعلق رکھتا ہے جس میں نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے۔ تیسرا بند اللہ کی شان ربو بیت کا مختصر اظہار یہ ہے ۔ چوتھا بند دعائیہ ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صداقت ، حضرت عمرؓ کی طرز عدالت، حضرت عثمانؓ کی سخاوت اور حضرت علیؓ کی شجاعت عطا کرنے کی گزارش ہے۔ پانچواں بند مسلمانوں کی زبوں حالی کا ترجمان ہے۔ آخری بند کا یہ شعر  ؎
دنیا رہے گی قدموں میں اپنے
پہلے خدا کا ہونا پڑے گا
’’نذرانہ‘‘ میں موجود نعتیہ شاعری کے بہت ہی خوبصورت اور اعلیٰ نمونے دامن دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ دار چند اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
’’قدم ہند میں اور نظر سوئے طیبہ ، میں ہوں روز اول سے عاشق نبیؐ کا
جدائی کا ہر پل یہ لمبی مسافت ، قیامت ہے مولیٰ قیامت سے پہلے ‘‘
مرحبا ! مجھ پر ہمیشہ رحمت غفار ہے
ہر نفس عشق نبیؐ سے دل مرا سرشار ہے
پھونک کر ہر چراغ کو ہم نے
شمع عشق نبیؐ جلالی ہے
تعصب رکھنے والے ہر جگہ سر پر مسلط ہیں
مگر عشق نبیؐ سے ہے مرے چہرے پہ تابانی
جو اُن کے بحر عشق میں غرقاب ہوگیا
دونوں جہاں میں بالیقیں وہ کامیاب ہے
آپؐ کے عشق کا سارے اصحابؓ نے
جام مل کر پیا مصطفیؐ مصطفیؐ
اُنؐ پہ ہم جان و دل سب نچھاور کریں
عشق کا اقتضا مصطفیؐ مصطفیؐ

غزل اردو کی معروف ترین صنفِ سخن ہے ۔ یہ نہ صرف اردو شاعری کی جان ہے بلکہ آج اردو کی پہچان بھی بن گئی ہے۔ شاعر ایک عام آدمی سے زیادہ حساس ہوا کرتا ہے ۔ وہ چاہے روایت پسند ہو یا جدت پسند اپنے دور کے سلگتے ہوئے حالات سے چشم پوشی اختیار کر ہی نہیں سکتا ۔ نذیر نادر کی غزلوں میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ عصری حسیت بھی شامل ہے۔ وہ اپنے جذبات ، احساسات، تجربات اور مشاہدات کو اشعار کا روپ دینے میں کافی مہارت رکھتے ہیں ۔ وہ تخلیق شعر کے دوران طہار زبان اور لطافت بیان کا خاص خیال رکھتے ہیں جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں۔ نذیر نادر بنیادی طور پر اس لامی طرز فکر کے شاعر ہیں۔ لہذا ان کی غزلوں میں بھی بکثرت مذہبی افکار کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے جو میرے بیان کی تصدیق کرتے ہیں  ؎
تجھ میں نادر ہو گر عشق حق دم بہ دم
تو ملیں گی تجھے خیر کی کنجیاں
سلیقہ سکھایا ہے میرے نبیؐ نے
دلوں پر حکومت کئے جارہا ہوں
کر نہیں سکتا سب کو خوش
ہوجائے راضی بس مرا رب
چوکھٹ پہ غیر کی کبھی سرمت جھکا تو اے بشر
پیش خدا جھکا کے سر شانِ حبیبیں بڑھائے جا
چھوڑدے ایسی بے خودی نادر
جس میں حق کی رضا نہیں ملتی
نذیر نادر قوم و ملت کی زبوں حالی دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں  ؎
ساری دنیا کی نادر ملے سلطنت
ہے تو آساں مگر متحد ہم نہیں
مذہب سے بڑھی غفلت، ملت کے تجاہل سے
نعروں سے نہ اُٹھ پائے نغمات سے کیا ہوگا
اخلاقیات کی شاند ہوکر روحانیت کی آن ہو
شامل ہو کاش آج بھی ’’عرفانیت‘‘ نصاب میں
کردار بہترین بنائیں گے آپ کب
جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھائیں گے آپ کب
گنہ کے راستے کھلے ، بلا جھجک قدم پڑھے
اسی لئے تو نسل نو بڑی ہی بے حواس ہے

پابند نظموں میں پہلی نظم سترنگی دھنک ‘‘ کے تمام اشعار ہندی آمیز ہیں ۔ یہ دو شعر ملاحظہ ہوں  ؎
بھول ہے اس کی جس نے سمجھا سارے نیتاؤں کو دیالو
ڈھونڈ کے جگ میں دیکھ اور مورکھ ! کوئی نہ ہوگا ان سے چالو
پیاسی جنتا دوڑی دوڑی خود آئے گی یہ مت کہنا
برکھارانی تیرا دھرم ہے رم جھم سب پہ برستے رہنا
نظم تجاہل عارفانہ کا پہلا شعر معنی خیز ہے  ؎
’’نفرت کرے گا ظاہرا‘‘، دل سے کرے گا پیار بھی
مجھ کو بچانے کیلئے ہوگا وہ جا نثار بھی
’’انقلاب آئے گا‘‘ ایک بہترین نظم ہے اس میں دین و دنیا دونوں رنگوں کا حسیں امتزاج پایا جاتا ہے۔
’’اردو زباں ‘‘ ایک عمدہ نظم ہے اس کے یہ اشعار متاثر کن ہیں ؎
لفظوں میں ہے  اک چاشنی ، معنوں میں ہے اک روشنی
فکر و نظر علم و ادب کی کہکشاں اردو زباں
مت بھولنا میرے وطن کے حکمرانوں تم کبھی
انمول ہے سرمایۂ ہندوستان اردو زباں
’’قیافہ شناس‘‘کا یہ شعر اس کی شخصیت کا غماز ہے  ؎
اس کو خراب لگتے ہیں روکھے مزاج لوگ
خوش ہوکے بھی جو رہتے ہیں ناراض کی طرح
’’طفلستان‘’ کے تحت بچوں کیلئے تخلیق کردہ نظمیں ہیں جن میں یہ نظم ’’آٹو انکل‘‘ ایک اہم اور انفرادی حیثیت رکھتی ہے ۔ بچوں کو مدرسہ لے جانے اور لانے والے آٹو ڈرائیور کی طرف کون توجہ دیتا ہے ۔ نذیر نادر نے یہ نظم لکھ کر ایک شریف اور ہمدردہ آٹو ڈرائیور کو خراج تحسین پیش کیا ہے اس کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے  ؎
گیت سنائے آٹو انکل
من کو بھائے آٹو انکل
بارش ، گرمی سردی شبنم
ہر دن آئے آٹو انکل
دیکھ لیں روتے بچوں کو تو
اُن کو ہنسائے آٹو انکل
ماں کی صورت وہ بچوں کے
ناز اُٹھائے آٹو انکل
نذیر نادر نظم اور غزل دونوں اصنافِ سخن پر دسترس رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری سیدھی سادی ، آسان اور عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ دینی افکار سے بھی مزین ہے ۔ صرف وہ اشعار جن میں عربی کی آمیزنش ہے عام قاری کیلئے ترسیل کی ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔ توقع ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی اصلاحی نظموں کے ذریعہ قوم و ملت میں دینی بیداری  پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے ۔ اللہ رب العزت نذیر نادر کی شعری کاوشوں کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ اُن کا شعری مجموعہ ’’نذرانہ ‘‘ شہرتِ دوام پائے۔ (آمین)