ندا فاضلی کی شاعری میں انسانی رشتوں کی نزاکتیں

صابر علی سیوانی
ملک کے ممتاز شاعر ندا فاضلی اب ہمارے بیچ نہیں رہے، لیکن ان کی شاعری اور نثری تحریریں ہمارے درمیان ہیں ، جن سے ہم استفادہ کرتے رہیں گے ۔ ندا فاضلی کا نام مقتدا حسن تھا ، لیکن ندا فاضلی کے نام سے انھیں شہرت حاصل ہوئی ۔ مدھیہ پردیش کے شہر گوالیار میں 12 اکتوبر 1938 ء کو ان کی پیدائش ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم گوالیار میں حاصل کرنے کے بعد وہ دہلی چلے گئے۔ دہلی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی تقسیم ہند کا روح فرسا واقعہ پیش آیا ۔ تقسیم ہند کے وقت ان کے والدین پاکستان منتقل ہوگئے لیکن انہوں نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا اور وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ ابتدائی دنوں میں ملازمت کی تلاش میں وہ ممبئی گئے ، جہاں ماہنامہ شاعر میں معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا ۔ انہی دنوں ’’دھرم یُگ‘‘ اور ’’بلٹز‘‘ کے لئے بھی وہ لکھتے رہے ۔ ندا فاضلی کی سوانح ’’دیواروں کے بیچ‘‘ سب سے پہلے ماہنامہ شاعر میں قسط وار شائع ہوئی ۔  ندا فاضلیایک مندر سے بھجن سن کر شاعری کی جانب راغب ہوئے ۔ انھوں نے میر تقی میر ، مرزا اسد اللہ خان غالب ، میراؔ اور کبیرؔ کو بڑی دلچسپی سے پڑھا ۔ جب انھوں نے شاعری شروع کی تو ان کے مخصوص لب ولہجے کو پسند کیا جانے لگا ۔ یہاں تک کہ فلم بنانے والوں کی نظر ان پر پڑی ۔ ساتھ ہی ہندی اور اردو ادب والوں نے بھی ان کی جانب توجہ مرکوز کی ۔ اب وہ مشاعروں میں بلائے جانے لگے ۔ کئی گلوکاروں اور غزل گانے والوں نے ان کی غزلیں ، نظمیں اور گیت گائے جس کی وجہ سے ان کی شہرت عوام و خواص تک پہنچی ۔ ان کی ایک غزل جس کا مطلع ہے ’’دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے ، مل جائے تو مٹی ہے ، کھوجائے تو سونا ہے‘‘ کافی مشہور ہوئی ۔ ان کی غزلیں جگجیت سنگھ اور گلوکارہ کویتا سبرامنیم نے گائیں ، خاص طور پر جگجیت سنگھ کی آواز میں فاضلی کی وہ غزل جو ’’سرفروش‘‘ فلم میں شامل ہے بہت مشہور ہوئی ۔ اس غزل کا ایک شعر ہے ’’ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے ، عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے‘‘ ان کے یہ نغمے آج بھی بہت پسند کئے جاتے ہیں ۔ ندا فاضلی کو 1998 میں ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ حاصل ہوا ۔ 2003 میں انھیں نغمہ نگاری کا اسکرین ایوارڈ ملا ۔ 2003 میں انھیں پدم شری جیسے باوقار اعزاز سے نوازا گیا ۔ ندا فاضلی نے اپنا پہلا مجموعہ کلام 1969 میں شائع کیا ۔ اس کے بعد متعدد شعری مجموعے منظر عام پر آئے ۔ سال 2012 میں لفظوں کے پَُل ، مور ناچ ، آنکھ اور خواب کے درمیاں ، کھویا ہوا سا کچھ ، شہر میرے ساتھ چل ، زندگی کی طرف ، چھ شعری مجموعوں کو یکجا کرکے ’’شہر میں گاؤں‘‘ کے عنوان سے معیار پبلی کیشن دہلی کے زیر اہتمام شائع کیا گیا۔ یہ مجموعہ 662 صفحات پر مشتمل ہے ۔ ان کے مضامین کا ایک مجموعہ ’’ملاقاتیں‘‘ عنوان سے 1960 میں منظر عام پر آیا ۔ انھوں نے 24 کتابیں تصنیف کیں ۔ انھیں مہاراشٹرا حکومت کی جانب سے میر تقی میر ایوارڈ بھی حاصل ہوا ۔ ندا فاضلی کا 8 فروری 2016 کو حرکتِ قلب بند ہوجانے کے باعث بمبئی میں انتقال ہوگیا ۔ انھیں بمبئی میں ہی سپرد خاک کیا گیا ۔

دوسرے شعراء کی طرح ندا فاضلی کو بھی حالات اور وقت نے متاثر کیا ۔ چونکہ انھوں نے تقسیم ہند کے وقت والدین کو پاکستان ہجرت کرتے ہوئے دیکھا تھا اور خود ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا تو ظاہر سی بات ہے انھوں نے تنہا ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دے کر ایک بڑی قربانی دی تھی  ۔انھوں نے یہاں رہتے ہوئے مذہبی رواداری کو فروغ دینے کا کام اپنی شاعری کے ذریعہ کیا ۔ ندانے تنہائی کا کرب برداشت کیا اور اس کرب کو انھوں نے نہایت سیدھے سادے لفظوں میں بیان کرکے یہ تاثر دیا کہ ہم تنہا ضرور ہیں لیکن تنہائی کے دکھ درد کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہیں گے ۔ ندا کی شاعری میں تنہائی کا جو درد ملتا ہے وہ ان کی زندگی کا وہ حصہ ہے جو ابتداء سے موت تک ان کے ساتھ  رہا ۔ تنہائی انسان کو کس کس انداز سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے اس کا ادراک ندا کی شاعری سے ہوتا ہے ۔ شہروں میں رہتے ہوئے بھی انسان خود کو کس قدر تنہا محسوس کرتاہے ، یہ کرب بھی ہمیں ان کی شاعری میں نظر آتا ہے ۔ چاروں طرف انسانوں کا ہجوم ہونے کے باوجود انسان خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے ۔ یہ اس صدی کی سب سے تلخ حقیقت ہے ۔ تنہائی کی کربناکی کا اندازہ لگانے کے لئے ندا فاضلی کے اشعار کافی ہیں :۔
ہر طرف ہر جگہ بیشمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
یہ کائنات کا پھیلاؤ تو بہت کم ہے
جہاں سماسکے تنہائی وہ مکان بھی دے
بھیڑ سے کٹ کے نہ بیٹھا کرو تنہائی میں
بے خیالی میں کئی شہر اجڑ جاتے ہیں
ندا کا یہ بھی کہنا ہے کہ حقیقت پسند اور سچائی کا ساتھ دینے والا انسان لوگوں کے درمیان اپنی جگہ نہیں بناپاتا ہے ۔ سچ بولنے کی سزا اسے یہ ملتی ہے کہ وہ تنہا ہوجاتا ہے ، حالانکہ وہ آدمی اچھا ہوتاہے ، لیکن اس کی حق گوئی اور صاف صاف منہ پر بولنے والی فطرت اسے لوگوں سے دور کردیتی ہے ۔ وہ مصلحت پسند نہیں ہوتا ہے جس کے باعث وہ بھی شہر میں خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے ۔یہی وہ خیال ہے جو ندا نے درج ذیل شعر میں پیش کیا ہے ؎
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا
تنہائی انسان کو کہاں کہاں بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے اور اس عالم تنہائی میں انسان کن کن دکھوں کو جھیلتا ہے ، اس کیفیت کا اظہار بھی ہمیں ندا کی شاعری میں نظر آتی ہے ۔ شہر کا استعارہ بار بار ان کی شاعری کا حصہ بنتا نظر آتا ہے ۔ یہاں بھی شہر ، تنہائی ، آنسو ، انجانی راہیں اور محفل میں تنہا رہنے کا تصور جس خوبصورت انداز سے پیش کیا گیا ہے اس سے لگتا ہے کہ شاعر نے تجربات کی ایک دنیا تنہائی کے ضمن میں پیش کردی ہے ۔
تنہا تنہا دکھ جھیلیں گے ، محفل محفل گائیں گے
جب تک آنسو پاس رہیں گے ، تب تک گیت سنائیں گے
تنہا تنہا بھٹک رہا ہے انجانی سی راہوں میں
شاید اپنے ساتھ وہ اپنے شہر کو لانا بھول گیا
ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک
جس کو بھی پاس سے دیکھوگے اکیلا ہوگا
آج کے دور کا المیہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے ہم زبان کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکتا پھرتا ہے ۔ اپنے ہم مزاج کی فکر اس کو یہ سوچنے پر مجبورکردیتی ہے کہ آخر یہ دور ایسے لوگوں سے خالی کیوں ہوتاجارہا ہے کہ کوئی بھی کسی کے لئے فکرمند نہیں ہے ، سب اپنے آپ میں گم ہیں ۔ کوئی کسی کا درد سمجھنے والا نہیں ہے ۔ خاص طور پر تو شہروں میں یہی کیفیت پائی جاتی ہے کہ انسان اپنے کاموں ، اپنے مفاد اور اپنی غرض کے لئے کس قدر خود پسند ، خود غرض ، موقع پرست اور ابن الوقت بن چکا ہے کہ اسے اپنے علاوہ کسی کی بھی فکر دامن گیر نہیں ہوتی ہے ۔ اس دور کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے اور اسی المیے کو یہاں شاعر نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ؎

یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گُم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
آج کا دور مصلحت پسندی کا دور ہے ۔ جس نے اس ہنر کو اپنالیا وہ کامیاب رہا اور جس نے اصولوں کی پابندی کی ، حق گوئی کا مظاہرہ کیا اور بیباکی سے اپنی بات رکھنے کی کوشش کی وہ خسارے میں رہا ۔ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ بولنے سے سراسر نقصان ہی ہوتا ہے ۔ شاعر نے جو تجربے کئے اسے پیش کیا ہے ؎
جھوٹ کو جھوٹ کہا سچ کو ہی سچ بولا ہے
اس کو سمجھایئے وہ شخص بہت بھولا ہے
ندا فاضلی کے کئی اشعار ضرب المثل کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں ۔ یہ وہ اشعار ہیں جن میں تجربات کی ایک دنیا پوشیدہ ہے ۔ زندگی کی صداقتیں موجود ہیں اور انسانی رشتوں کی نزاکتیں مضمر ہیں ۔ انسانی رشتے کتنے نازک ہوتے ہیں اس کا اندازہ شاعر سے زیادہ اور کون لگاسکتا ہے ۔ شاعر چند لفظوں میں تجربات کی ایسی عکاسی کرتا ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں پر مرتسم ہوجاتے ہیں اور وہ تجربات ان کے اپنے ہی تجربات و احساسات معلوم ہونے لگتے ہیں  ۔انسان جلد بازی میں یا غصے کی حالت میں کچھ ایسے فیصلے کر بیٹھتا ہے جو درست نہیں ہوتے ہیں ۔ دشمنی میں بھی احتیاط کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے ندا کہتے ہیں کہ تم دشمنی ضرور کرو لیکن مکمل طور پر رشتہ ختم مت کرو ، کیونکہ کیا معلوم زندگی کے کس موڑ پر وہ دشمن ہی تمہارے کام آجائے ۔ ملاحظہ کیجئے ان کا یہ ضرب المثل شعر ؎
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجیے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہے
حالانکہ بشیر بدر نے فاصلے سے ملنے کی بات کہی ہے ؎
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملوگے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
احمد فراز نے بھی اپنے ایک شعر میں اس شخص کی بے رخی کا ذکر کیاہے جس نے جاتے جاتے سارے سلسلے ختم کردئے یہاں تک کہ آنے جانے کی بھی گنجائش نہیں رہی ۔
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
ندا فاضلی کا ایک اور ضرب المثل شعر ہے کہ جس میں انھوں نے فوری طور پر کسی کے بارے میں رائے قائم کرلئے جانے سے احتراز کرنے کی بات کہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں۔
میری غربت کو شرافت کا ابھی نام نہ دو
وقت بدلا تو تِری رائے بدل جائے گی
شہر میں گاؤں کا خواب سجانے والا شاعر شہر کی خود غرضی اور مفاد پرست زندگی سے نالاں نظر آتا ہے ۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ گاؤں کی سیدھی سادی زندگی نہایت پرسکون ہوتی ہے ۔ وہاں دنیا داری سے لوگوں کو رغبت کم اور انسانی رشتوں کا پاس و لحاظ زیادہ رہتا ہے ۔ شہر میں گھوم کر وہ وہاں کا ماحول دیکھتا ہے ، لیکن صرف چند دنوں تک ہی اسے شہر اچھا لگتاہے اس کے بعد اسے گاؤں میں اپنا گھر ہی عزیز معلوم ہوتا ہے ۔ شہر میں سب سے ملاقات کرنے کے بعد بھی وہ خود کو تنہا محسوس کرتاہے ۔ شہروں میں جس سے خلوص کی اسے توقع ہوتی ہے وہ وہاں نہیں ملتی  ۔یہاں آدمی اشتہار بن کر ملتاہے ۔ یہاں ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کی نمائش لگی ہوئی ہے ۔ صرف جسمانی چمک دمک اور دیدہ زیب لباسوں میں ملبوس سیاہ دل لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ شہروں کی ذہنیت ، رکھ رکھاؤ  ،ریا کاری ، عیاری ، دھوکہ دہی ، موقع پرستی اور خود غرضی سے شاعر کو نفرت ہوجاتی ہے اور پھر اسے اپنا وہ گاؤں یاد آتا ہے ۔ جہاں آج بھی خلوص ، محبت ، رواداری اور آپسی میل ملاپ ہے ۔ وہاں ہر شخص اپنے آپ میں گم نظر نہیں آتا ۔ وہاں تو لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں خود کو شامل کرلیتے ہیں ۔ لیکن شہروں کا یہ حال ہے کہ یہاں پڑوسی تک بھی میت کو کاندھا دینے کے لئے گھر سے نہیں نکلتا ہے ۔ اس سے بڑھ کر خود غرضی اور کیا ہوسکتی ہے ۔ منور رانا نے صحیح کہا ہے ؎

تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے
ہمارے گاؤں میں چھپّر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں
شہروں کے بارے میں ندا فاضلی کا جو تصور ہے اسے محسوس کرنے کے لئے درج ذیل اشعار ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ؎
کچھ لوگ یوں ہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
نئی نئی آنکھیں ہوں تو ہر منظر اچھا لگتا ہے
کچھ دن شہر میں گھومے ، لیکن اب گھر اچھا لگتا ہے
اک عشق نام کا جو پرندہ خلاء میں تھا
اترا جو شہر میں تو دکانوں میں بٹ گیا
نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے
اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہوگئی
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
یہ شہر ہے کہ نمائش لگی ہوئی ہے کوئی
جو آدمی بھی ملا بن کے اشتہار ملا
ہم نے بھی سو کر دیکھا ہے ، نئے پرانے شہروں میں
جیسا بھی ہے اپنے گھر کا بستر اچھا لگتا ہے
انسان اس دنیا میں ہزاروں خواہشیں رکھتا ہے ۔ سیکڑوں تمنائیں لئے ادھر ادھر بھاگا پھرتا ہے ، لیکن اس کی ہر خواہش پوری نہیں ہوتی ۔ کبھی اسے چاہ کر بھی وہ چیز نہیں ملتی ہے جس کی اسے پانے کی شدید خواہش ہوتی ہے اور کبھی بغیر چاہے اسے بہت کچھ مل جاتا ہے ۔ وہ حسرتوں اور تمناؤں میں ہی پوری زندگی گزار دیتا ہے ، لیکن اس کی حسرتیں پوری نہیں ہوپاتی ہیں ۔ اسی مفہوم کو ندا فاضلی نے اپنے ایک شعر میں پیش کیا ہے ۔ جس غزل کا یہ مطلع ہے وہ پوری غزل جگجیت سنگھ کی آواز میں شائقین غزل تک پہنچ چکی ہے ؎
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا
مکمل جہان پانے کی خواہش دل میں پالے ہوئے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ زندگی کچھ خواب اور چند امیدوں کا نام ہے ۔ بس انہی کھلونوں سے تم اپنے آپ کو بہلاسکو تو بہلاؤ ۔ اس کے علاوہ زندگی کچھ بھی نہیں ہے ۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ یہ دنیا ہے یہاں کوئی کسی کو راستہ نہیں دیتا اپنا راستہ خود نکالنا پڑتا ہے اور اس کے لئے جد و جہد کی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے ؎
یہی ہے زندگی کچھ خواب ، چند امیدیں
انہی کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
انسان جب بلندیوں پر پہنچتا ہے وہ اپنی اصلیت بھول جاتا ہے ۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ کہاں سے اٹھا ہے اور کہاں آپہنچا ہے ۔ اسے اپنی اوقات اور اپنی زمینی حقیقت کا قطعی خیال نہیں رہتا ہے ۔ وہ اپنا ماضی بھول کر اپنی بلندیوں پر اترانے لگتا ہے ، لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ بلندیاں ہر وقت کسی کے حصے میں نہیں رہتی ہیں ۔ اس لئے زمین کی دھول بھی اپنی اڑان میں رکھنا چاہئے تاکہ اپنی اصلیت کے پردے سے باہر نہ جانا پڑے۔
چمکتے چاند ستاروں کا کیا بھروسہ ہے
زمیں کی دھول بھی اپنی اڑان میں رکھنا
جو ساتھ ہے وہی گھر کا نصیب ہے لیکن
جو کھوگیا ہے اسے بھی مکان میں رکھنا

ندا فاضلی کی شاعری عام فہم زبان والی شاعری ہے ۔ بول چال کی زبان اور سہل الممتنع کے صفت سے مرصع شاعری ہے ۔ ان کی شاعری میں کہیں بھی پیچیدگی یا الجھاؤ نظر نہیں آتا ہے ۔ ایک سبک رو ندی کی طرح بہاؤ والی شاعری ہے ۔ فاضلی نے جن مسائل و موضوعات کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ یہ مسائل اور معاملات دوسرے معاصر شعراء کے یہاں نظر نہیں آتے ، لیکن ان موضوعات کو جس خوبصورتی سے اور نہایت عام فہم زبان میں انھوں نے پیش کیا ہے ، وہ انھیں دوسروں سے ممتاز ضرور کرتا ہے ۔ انھوں نے عصر حاضر کی زندگی کی انہی حقائق کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے ، جسے ہر شخص اپنی زندگی میں محسوس کرسکتا ہے ۔شہروں کی زندگی میں اخلاق و خلوص کا فقدان ، تنہائی کا کرب ، دنیا کی حقیقت ، اپنوں کی بے اعتنائی ، سچ بولنے کی سزا ، مصلحت پسندی کے فوائد ، دشمنی میں حد سے گزر جانے کے نقصانات ، خواب اور امیدوں کے کھلونوں سے بہلنے کی بات وغیرہ تمام ایسے رموز و نکات ہیں جن سے انکار ممکن نہیں تاہم وہ جب اپنے تجربات سے گزرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دنیامیں رہنا ہے تو مصلحت پسندی سے کام لینا ہی پڑے گا اور زمانے کی روش کے مطابق ہی چلنا ہوگا ؎
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا
ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا
ندا فاضلی کی شاعری کے حوالے سے ان کے شعری مجموعہ ’’زندگی کی طرف‘‘میں بہترین تبصرہ ملتا ہے ۔ اسے یہاں نقل کرنا بے محل نہیں ہوگا ۔
’’ندا فاضلی ادب و معاشرہ کے زندہ رشتوں اور ان کی تہذیبی معنویت کے شاعر ہیں ۔ ان کے یہاں گھر بھی سالم ہے ، گھر کے رشتے بھی زندہ ہیں ۔ اور ان رشتوں سے منسلک تاریخی ادوار بھی روشن ہیں  ۔ ان کی شاعری ذات میں کائنات کی شرکت کا ترسیلی عمل ہے ۔ اس میں نہ ماضی قریب سے کورانہ انحراف ہے اور نہ اس کی بنیاد میں وہ نظریاتی اختلاف کار فرما ہے ، جو طویل عرصے تک ادب میں جدیدیت کا معیار مانا جاتا تھا ۔ اس میں الگ الگ شکلوں میں جو کردار مرکزی اہمیت رکھتا ہے ، وہ نچلے متوسط طبقے کا وہ فرد ہے جس کے لئے اپنی شرائط پر زندگی کرنا ایک مسلسل مہا بھارت کے مماثل‘‘ ۔ (شہر میں گاؤں صفحہ 564)
ندا فاضلی کے دوہے بھی کافی مشہور ہوئے ۔ ہندی میں بھی ان کی مقبولیت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے تمام شعری مجموعے ہندی میں آچکے ہیں ۔ فلمی نغموں اور مشاعروں کی وجہ سے انہیں خوب شہرت حاصل ہوئی ۔ ان کی نظمیں بھی پسند کی گئیں اور ان کے چند اشعار پر تنازع بھی کھڑا ہوا ۔ بہرحال اس تفصیل میں نہیں جا کر ہم ان کے اس شعر پر اپنی تحریر کو مکمل کرنا چاہتے ہیں ؎
کن راہوں سے سفر ہے آساں ، کون سا رستہ مشکل ہے
ہم بھی جب تھک کر بیٹھیں گے ، اوروں کو سمجھائیں گے
افسوس کہ دوسروں کو اپنی تھکن کا احساس دلانے کی خواہش رکھنے والا شاعر تھک کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بیٹھ گیا ۔
mdsabirali70@gmail.com