نجمہ ہپۃ اللہ کابیان

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا  خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
نجمہ ہپۃ اللہ کابیان
مرکزی وزیراقلیتی امور نجمہ ہپۃ اللہ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی مدح سرائی کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔ انہیں ایک طویل عرصہ کی کاوشوں کے بعد مرکزی کابینہ میں شامل کیاگیا ہے اور وہ کابینہ میں اپنی برقراری کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکنہ جدوجہد کر رہی ہیں۔ وقفہ وقفہ سے ان کے ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں جو شائد آر ایس ایس اور بی جے پی کے دوسرے قائدین بھی دینے سے ہچکچاہٹ محسوس کریں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے ہر اقدام کی مدافعت اور اس کا جواز پیش کرنا نجمہ ہپۃ اللہ نے اپنا فرض بنالیا ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ کچھ وزرا کابینہ میں اپنی برقراری کو یقینی بنانے کیلئے وزیر اعظم کی مدح سرائی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اب یہی طریقہ نجمہ ہپۃ اللہ نے اختیار کیا ہے ۔ چیف منسٹر گجرات رہتے ہوئے ٹوپی پہننے سے گریز سے لے کر وزیر اعظم رہتے ہوئے دعوت افطار میں شرکت سے گریز تک کے تمام غیر روایتی اقدامات کی نجمہ ہپۃ اللہ مدافعت کرتے ہوئے ان کا جواز پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی کوشش سے وزیر اعظم توخوش ہوجائیں لیکن ملک کے عوام اور خاص طور پر مسلمان کسی جواز کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوسکتے ۔ مودی کی مدح سرائی میں سب سے آگے نکلنے کی کوشش میں نجمہ ہپۃ اللہ نے یہ تک کہدیا ہے کہ مودی حکومت اقلیتوں کو ٹوپی کی بجائے روٹی فراہم کر رہی ہے ۔ یہ ادعا نجمہ ہپۃ اللہ کی دانست میںتودرست ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو دو وقت کی روٹی کیلئے بھی بے تکان جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے ۔ مسلمانوں کو صرف روٹی کے حصول کی جدوجہد میں مصروف کردیا گیا ہے ۔ انہیں نہ سرکاری اسکیمات کے فوائد پہونچ رہے ہیںاور نہ قومی ترقی میںانہیںحصہ دار بنایاجا رہا ہے۔ مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار کے میدان میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے اور ہر وقت ان میں قابلیت کی کمی کا رونا رویاجاتاہے ۔ تقررات کے معاملہ میںمسلمانوں سے مسلسل نا انصافی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے ۔ یہاں تک مرکزی حکومت کی تعلیمی اسکالر شپ کی اجرائی میں بھی رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔
جس وقت سے مرکز میںنریند رمودی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے اس وقت تک مسلمانوں کا اس ملک میں عرصہ حیات تنگ کیاجارہاہے ۔ نجمہ ہپۃ اللہ یہ بیان تو دیتی ہیں کہ اکثریتی برادری کے جذبات کاخیال رکھتے ہوئے گائے کا گوشت کھانے سے گریز کیا جانا چاہئے لیکن وہ گھر واپسی کے نام پر مسلمانوںکا مذہبی تشخص ختم کرنے کی سازشوں پر خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔ انہیںنریندر مودی کے ٹوپی پہننے سے گریز کا جواز پیش کرنے میںکوئی عار محسوس نہیں ہوتا لیکن وہ لو جہاد کے نام پر چلائی جانے والی نفرت انگیز مہم پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ یہ توکہنے میںسب سے آگے رہناچاہتی ہیں کہ دولت مندوں کی افطارکی پارٹیاں صرف تصویر کشی کا موقع ہوتی ہیں اور ان میں غریبوں کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ جس دعوت افطار کاوہ حوالہ دے رہی ہیں وہ کسی عام آدمی کی جانب سے نہیں بلکہ ملک کے صدر کی جانب سے دی گئی تھی اور نریندر مودی نے اپنی متعصب ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلسل دوسری مرتبہ اس میںشرکت سے گریز کیا تھا ۔ نجمہ ہپۃاللہ مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کے مشورے دینے والوںکا کوئی جواب دیناپسندنہیںکرتیں۔وہ یہ دعوی تو کرتی ہیں کہ مسلمانوںکو حکومت ٹوپی کی بجائے روٹی فراہم کر رہی ہے ۔ انہیںیہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ مسلمان نہ کسی کی ٹوپی کا محتاج ہے اور نہ کسی کی روٹی کا۔مسلمان کی ٹو پی بھی اس کی اپنی ہے اور روٹی بھی اس کی محنت کی کمائی کی ہے ۔ مسلمانوں پر کسی نے احسان کرنا تو دور کی بات ہے ان کا حق بھی دینا گوارہ نہیںکیا ہے۔
مرکزی وزارت پر برقرار رہنے کیلئے کوشش کرنے کا ویسے تو سبھی کو حق حاصل ہے لیکن وزیراعظم کی مدح سرائی کی ایک حد ہونی چاہئے اور اس میں کچھ نہ کچھ سچائی اور دیانتداری ہونی چاہئے ۔مرکزی وزیر نے یہ ادعا بھی کیا کہ حکومت نے اقلیتوں سے جملہ سات وعدے کئے تھے جن میںچھ کا تعلق وزارت اقلیتی امور سے تھااور ان وعدوںکو پورا کردیاگیا ہے۔انہوں نے یہ واضح نہیں کیاکہ وہ کونسے وعدے ہیںجنہیں پورا کردیاگیا؟۔ نئی منزل اسکیم بھی صرف بہار میںاسمبلی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے شروع کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت روٹی کے نام پر مسلمان کو ٹوپی سے محروم کرنا چاہتی ہے اور اس کے عزائم دینی مدارس کے تعلق سے اس کے رویہ سے واضح ہوجاتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ مسلمان اپنی روٹی سے تودستبردار ہوسکتا ہے لیکن ٹوپی سے دستبردار کرنے کی حکومت کی کوشش کبھی کامیاب نہیںہوسکتی۔