ظفر آغا
میر جعفر و میر صادق تاریخ کے محض دو کردار ہی نہیں ہیں بلکہ یہ دونوں کردار تاریخ کی ایک مستقل اور لامتناہی روش ہیں۔ میر جعفر، میر صادق آج تک اپنے دھوکہ کیلئے مشہور ہیں۔ ان میں ایک نے نواب سراج الدولہ کو دھوکہ دے کر بنگال میں انگریزوں کی حکومت قائم کروائی تھی اور دوسرے یعنی میر صادق نے ٹیپو سلطان کو دھوکہ دے کر دکن کو انگریزوں کا غلام بنادیا تھا۔ اپنے ذاتی مفاد کے لئے ملک و قوم کے مفاد کا سودا کرکے کسی بھی صورت میں اپنا ذاتی اقتدار برقرار رکھنے کا نام میر جعفر و میر صادق ہے، اور ایسے مکار و دھوکہ باز کردار ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔
دور حاضر میں اگر میر جعفر و میر صادق کا کوئی سچا نمونہ ہے تو وہ نتیش کمار ہیں۔ بہار کے اس مکار دھوکہ باز اور خود غرض وزیر اعلیٰ نے ابھی پچھلے ہفتہ لالو پرساد یادو کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر وہی کیا جو میر جعفر و میر صادق نے اپنے آقاؤں کے ساتھ کیا تھا۔ اس وقت بہار میں سیکولرازم کا پرچم سرنگوں ہے اور ہندوتوا کا پرچم سربلند ہے، اور ہندوتوا طاقتوں کو یہ فتح انتخابی جیت سے نہیں حاصل ہوئی ہے بلکہ ہندوستان کی دوسری سب سے اہم ریاست بہار پر بی جے پی کا قبضہ جمانے والا کردار نتیش کمار ہے۔ ذرا نتیش کمار کی مکاریاں ملاحظہ فرمائیں۔ مشکل سے دو ماہ قبل یہ جناب (نتیش ) دہلی تشریف لائے جہاں ملک کے نامور سیکولر لیڈروں کی موجودگی میں پی چدمبرم کی ایک کتاب کا رسم اجراء تھا۔ اس محفل میں نتیش کمار کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ جانتے ہیں وہاں نتیش کمار نے کیا کہا۔ نتیش کمار نے کہا : ’’ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس ملک کا سیاسی ایجنڈہ آخر وہ ( بی جے پی ) کیوں طئے کررہی ہے، یہ کام راہول جی کیوں نہیں کرتے ؟ میری رائے میں ملک کی سب سے بڑی ضرورت اس وقت ہے اپوزیشن کا اتحاد، اگر یہ ہوجائے تو بی جے پی کی ہوا نکل جائے گی۔‘‘
یہ وہی نتیش کمار کے الفاظ ہیں جو اس وقت بی جے پی کی حمایت سے بہار کے وزیر اعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔ دراصل مکاری اور دھوکہ نتیش کمار کی گٹھی میں شامل ہے اور ان کے کردار کا حصہ ہے۔ یہ وہی نتیش کمار ہیں جو وی پی سنگھ کے دور میں ملک کی سیاست میں اُبھرے۔ انہوں نے 1990 میں لالو پرساد یادو کو بہار کا وزیر اعلیٰ بنانے میں مدد کی کیونکہ لالو اور نتیش طالب علمی کے دور سے دوست اور سیاسی حلیف رہے ہیں۔ لالو ہمیشہ سے نتیش سے تیز رہے، اس لئے نتیش نے 1990 میں لالو کی مدد کی۔ لیکن نتیش کے اندر چھپا ہوا ایک غدار بہت زیادہ دنوں تک لالو کا سیاسی عروج برداشت نہیں کرسکا۔ چنانچہ جب بہار میں لالو کی مقبولیت عروج پر پہنچ گئی تو نتیش کمار نے پارلیمنٹ میں پہنچ کر دہلی کو اپنا مرکز بنالیا اور دور حاضر کے اس میر جعفر نے دہلی پہنچ کر لالو پرساد یادو کے خلاف فوراً سازش رچنی شروع کردی۔ جارج فرنانڈیز جیسے لالو سے سینئر لیڈر موجود تھے۔ وہ لالو کے کام کے انداز اور لالو کے غرور سے نالاں تھے۔ نتیش نے دہلی پہنچ کر پہلے ان لوگوں کے کان بھرنے شروع کئے اور اس طرح جارج فرنانڈیز اور شرد یادو جیسے لیڈروں کی مدد سے لالو کے خلاف جنتا دل میں 1995 میں دراڑ ڈال دی اور ایک نئی جماعت سمتا پارٹی بنائی۔ اس طرح نتیش کمار نے 1995 میں پہلی بار لالو پرساد کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ۔ پھر 1996 میں جنتا دل دور کے سیکولر نتیش نے آخر بی جے پی سے ہاتھ ملا کر بہار کا چناؤ لڑا۔ اب نتیش ہندوتوا کے پرچم کے سائے میں ترقی کرتے رہے۔
نتیش کی سیاست کا محور ذاتی مفاد اور خود اپنے لئے اقتدار حاصل کرنا ہے۔ اقتدار کا بھوکا یہ سیاستداں ہر اصول کا سودا کرتے ہوئے ضمیر بیچ کی کسی بھی طرح اقتدار سے چپکے رہنے کو تیار رہتا ہے۔ جب بابری مسجد شہید ہوئی تو اسی نتیش کمار نے پارلیمنٹ میں سیکولرازم کی حمایت میں مگر مچھ کے آنسو بہائے۔ لیکن جب اٹل بہاری واجپائی برسر اقتدار آئے تو یہی نتیش کمار واجپائی حکومت کے مشہور و معروف ریلوے وزیر بن گئے۔ جب 2002 میں مودی کی قیادت میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو یہی نتیش کمار سکون و اطمینان سے واجپائی حکومت میں وزارت کے عہدہ پر قائم رہے۔ اس وقت نتیش کو سیکولرازم یاد نہیں آیا۔
2013 میں جب تقریباً یہ طئے ہوگیا کہ 2014 کے لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کی جانب سے یہ طئے ہوگیا کہ ہندوتوا سپاہی نریندر مودی وزارت عظمیٰ کے عہدہ کے دعویدار ہوں گے تو بس نتیش کا خون کھول گیا کیونکہ نتیش کو تو بڑے سے بڑا عہدہ چاہیئے۔ بہار میں وزیر اعلیٰ رہنے کے باوجود ان کی نگاہیں وزیر اعظم کی کرسی پر تھیں۔ نتیش کو ایسا لگا کہ گجرات جیسی چھوٹی سی ریاست کے وزیر اعلیٰ مودی وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ سکتے ہیں تو میں بہار جیسی اہم ریاست کا وزیر اعلیٰ بن کر کیسے اس کرسی تک کیوں نہیں پہنچ سکتا ہوں۔اب نتیش نے پالا بدلا۔ 2013 سے بی جے پی کی حمایت سے 17 برس اقتدار کے مزے اٹھانے کے بعد یکایک نتیش کے پیٹ میں سیکولرازم کا درد اٹھنے لگا اور اب نتیش کو نریندر مودی اتنے برے لگنے لگے تھے کہ انہوں نے مودی کو پٹنہ آنے پر اپنے گھر کھانے پر مدعو کرنے سے بھی انکار کردیا تھا، نتیش کو لالو پرساد اچھے لگنے لگے کیونکہ لالو کی مدد کے بغیر وہ بہار کے وزیر اعلیٰ پھر نہیں بن سکتے تھے،اور یہی ہوا2016 کا بہار اسمبلی چناؤ انہوں نے لالو اور کانگریس کے ساتھ ملکر لڑا اور پھر وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ گئے لیکن نتیش کا دل تو دہلی میں تھا کیونکہ وہ وزیر اعظم بننا چاہتے تھے اور انہوں نے دہلی کے چکر لگانے شروع کئے۔ سیکولر لیڈروں کو یہ پیغام بھجوانا شروع کیا کہ وہ متحد اپوزیشن کے لیڈر بننے کو تیار ہیں۔ اطلاعات تو یہاں تک ہیں کہ انہوں نے خود اپنی اس خواہش کا اظہار سونیا گاندھی سے کیا لیکن انہوں نے کان دھرنے سے انکار کردیا۔ ادھر بہار میں لالو پرساد نے اپنے بیٹے تیجسوی یادو کو ریاست کا نائب وزیر اعلیٰ بنادیا تھا اور اس کے ذریعہ پھر لالو نے نتیش کے اقتدار پر نکیل ڈال رکھی تھی۔ چنانچہ اس خودغرض سیاستدان نے پھر مودی سے پینگیں بڑھانی شروع کردی۔ کبھی نوٹ بندی کی حمایت تو کبھی جی ایس ٹی کی تعریف، اب مودی میں نتیش کو ہر گن نظر آنے لگے اور آخر اس عیار دور حاضر کے میر جعفر نے صرف لالو پرساد یادو ہی نہیں بلکہ ملک کے پورے سیکولر خیمہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اپنا اقتدار بچالیا۔
اقتدار کے لالچی اس میر جعفر کی کرسی تو بچ گئی لیکن اب وزیر اعظم بننے کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ اب نتیش کے کاندھوں پر مودی کا خبط سوار ہے اور بطور وزیر اعلیٰ نتیش کوسکون سے جینے نہیں دے گا۔ دور جدید کے نتیش جیسے میر جعفر و میر صادق نے سیکولر خیمہ کی 2019 کے لوک سبھا چناؤ کی آس پر بھی پانی پھیر دیا۔