نتن یاہو کے دورہ مسقط کے مضمرات

عبدالرحمن الراشد
سلطنت عمان کے اس اعلان کے بعد کہ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو ملک کے دورہ پر ہیں، عرب عوام اور میڈیا نے جس سرد ردعمل کا اظہار کیا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ علاقہ میں کس قسم کی تبدیلی آگئی ہے ۔ اسرائیلی سرگرمیاں اب سیاسی میٹنگس کے علاوہ دوسرے شعبوں جیسے معاشیات اور کھیلوں میں بھی فروغ پا رہی ہیں، تمام عرب ممالک نے اسرائیلی تعلقات کی فروغ کا مطلب یہ تو نہیں کہ اسرائیل سے تعلقات رکھنا عرب ممالک کیلئے جو شجر ممنوع تصور کئے جاتے تھے اب کوئی معنی نہیں رکھتے ؟
میری تو رائے یہی ہے کہ فلسطین اسرائیل تنازعہ سے غیر عملی طور سے پیش آنے سے نہ صرف فلسطین کے کاز کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اسرائیل جارحیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل سے عرب ممالک کے قطع تعلقات اور نارمل تعلقات کی عدم بحالی دراصل عرب ممالک کی سیاسی پالیسی کا ایک روایتی حصہ رہا ہے لیکن عرب ممالک کے ہاں اب کوئی بھی ایسی مشترکہ پالیسی یا کاوش نہیں ہے کہ جس سے اس تنازعہ پر اثر انداز ہوسکے۔ سلطنت عمان قابل تعریف ہے کہ وہ اپنے معاملات کا شفاف اور کھلے طور پر اظہار کرتا رہتا ہے اور دوسری اہم چیز عمان علاقائی تنازعات کا حصہ نہیں ہے لیکن ان عرب ممالک کی میڈیا نے اس جانب اپنی بھرپور توجہ نہیں کی کہ نہ صرف نتن یاہو بلکہ ان کے دورہ میں ان کے کئی وزراء بھی وفد میں شامل تھے۔
اس ملاقات کے درپردہ کیا فیصلے طئے کئے، وہ ابھی پردہ راز میں ہیں لیکن چونکہ مصر، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے ۔ لہذا عمان نے اس رول کو مسترد کردیا یا پھر عمان کہیں ایران ۔ اسرا ئیل تنازعہ میں ثالثی کا اہم کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ سلطنت عمان دونوں ممالک کیلئے پسندیدہ اور دیانتدار بروکر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایران فی الوقت اپنے دونوں محاذوں پر سخت ہزیمت کا سامنا کر رہا ہے ۔ ایک شام دوسرے امریکی پابندیاں اور عنقریب مزید اقتصادی پابندیاں بشمول تیل ڈالرس معاملت کی بھی باری ہے ۔ علاقہ میں اسر ائیل کا داخلہ دراصل دو وجوہات کی بناء پر بڑھ گیا ہے۔ ایک شام کی خانہ جنگی اور اس خانہ جنگی اور دوسرے علاقائی تنازعات میں ایران کی مداخلت دوسری وجہ ہے ۔ ایران کی شیعہ ملیشیا اب ان علاقوں میں تعین ہوچکی ہیں جہاں اسرائیلی سیکوریٹی بیلٹ ہوا کرتا تھا ۔ شام میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو لگام لگانے میں اسرائیل کا اہم حصہ رہا ہے۔ چونکہ اسرائیل نے وہ فرض نبھایا ہے جس میں عرب ممالک ناکام رہے ہیں۔
چنانچہ علاقہ میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے میں اسرائیل کے رول کے باعث عرب ممالک کے اس سے تعلقات میں سرد مہری کا دور اختتام پذیر ہوگیا اور اسرائیل سے تعلقات جوکبھی شجر ممنوع سمجھے جاتے تھے ، اب باقی نہیں ہے ۔ شام کی خانہ جنگی کے باعث اسرائیل کی حیثیت ایک ملوث پارٹی کی بن گئی ، اس کے علاوہ ترکی، روس اور ایران اس جنگ میں ملوث ہوجانے کے باعث اسرا ئیل کو بھی اس میں کود پڑنے کا موقع حاصل ہوگیا کیونکہ ایران کی توسیعی پسندانہ عمل کو روکنے میں امریکہ اور ترکی دونوں بھی ناکام ہوگئے تھے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل اس افراتفری ملیشیا کا فائدہ اٹھاکر اپنی مملکت کی تعمیر کر رہا ہے۔ ایسے عرب ممالک جو محض مسئلہ فلسطین کے سبب اسرائیل کو رد کرچکے تھے ، وہ بھی شام میں اسرائیلی ایرفورس کی مداخلت اور ایرانی قوتوں کی سرکوبی کے باعث اسرائیل کا استقبال کرنے پرمجبور ہیں۔ اسرائیل علاقہ کے قلب میں اپنی فوجی کیمپس کو قائم کیا ہے اور بڑی حد تک ایرانی جارحیت جو روس کی مدد سے جڑی تھی ، اس کو قابو کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ کیا ایران ثالث عناصر کے ذریعہ اسرائیل تک اپنی بات رکھ دی ہے یا پھر اسرائیل ، تہران پر یہ واضح کردینا چاہتا ہے کہ امریکی فیصلہ سازی جس میں ایران پر اقتصادی پابندیاں لگاکر اس کو زیر بار کرنا ہے ، میں اسرائیل کا بھی عمل دخل ہے ؟
علاقہ میں رونما ہونے والی یہ چند تبدیلیاں ہیں اور مسقط میں اسرائیلی قائدین کی موجودگی سے اس پر کچھ بھی اثر پڑنے والا نہیں ہے ۔ درحقیقت یہ شام ، یمن اور دوسرے عرب علاقوں میں شروع ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کا نقیب ہے۔