پی چدمبرم
مسٹر نتن گڈکری غیرروایتی سیاستدان ہیں۔ خود اُن کے اعتراف کے مطابق وہ کھانوں کے شوقین ہیں، وہ وضع دار لباس پہنتے ہیں اور لگتا ہے کہ زندگی کا مزہ لیتے ہیں۔ انھیں سرکاری تقریبات میں تقریر کرنے میں لطف آتا ہے اور وہ ایسا بولتے ہیں جیسے انھیں دنیا میں کوئی پریشانی ہی نہیں ہے۔ ساتھ ہی وہ سویم سیوک ہیں۔ وہ آر ایس ایس کے پسندیدہ مانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے حلقہ انتخاب ناگپور (مہاراشٹرا) کو پروان چڑھاتے ہیں اور آر ایس ایس، اپنے پارٹی قائدین اور اپنے پارٹی ورکرز کو خوش رکھتے ہیں۔ مسٹر گڈکری اور مسٹر دیویندر فڈنویس کا تعلق ناگپور سے ہے اور انھیں یکساں خطہ اور قائدین و ورکرز کے یکساں سیاسی اساس سے ہی تائید و حمایت حاصل ہوتی ہے۔ مہاراشٹرا میں باتیں ہوتی ہیں کہ مسٹر گڈکری مہاراشٹرا کے چیف منسٹر بننا چاہتے تھے لیکن مسٹر نریندر مودی نے اُن کے منصوبہ پر پانی پھیردیا۔ مسٹر مودی نے اپنے وفادار مسٹر دیویندر فڈنویس کو منتخب کیا۔ یہ ہوشیاری کے ساتھ کیا گیا سیاسی فیصلہ سمجھا گیا کہ مسٹر گڈکری کے اگر کوئی اونچے عزائم ہوں تو سدباب ہوجائے۔ تاہم، بے باک مسٹر گڈکری نے سرگرمی سے کام شروع کردیا اور اپنے لئے ایک راستہ ہموار کرلیا ہے۔
گڈکری کے ’جواہر‘
مسٹر گڈکری اپنے قلمدانوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کیلئے معروف ہیں، جیسے ہائی ویز اور روڈ ٹرانسپورٹ، آبی وسائل، دریاؤں کا فروغ اور گنگا کی صفائی۔ وہ وزیر کی حیثیت سے کارکردگی کا ملا جلا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ شاہراہوں کی تعمیر میں اچھا پرفارمنس، گنگا کی صفائی میں مبالغہ آرائی، فروغ آبی وسائل میں توقع سے کم کارکردگی اور آبپاشی پروجکٹوں میں بُری طرح پیچھے رہنا۔ اپنے دفتر سے باہر وہ اپنے بیانات میں صاف گو اور بے باک ہیں۔ مارچ 2018ء میں میڈیا کے زیراہتمام کانکلیو میں انھوں نے کہا، ’’میڈیا نے ماضی میں ہمیں اچھے دن کے سوال پر گھیرا ہے۔ برائے مہربانی میری بات کا غلط مفہوم مت نکالیں۔ اس طرح کے کوئی اچھے نہیں ہیں … اچھے دن تو ایقان ہے، اگر آپ یقین کریں تو ایسے دن ہیں۔‘‘ دوبارہ اگست 2018ء میں جب ریزرویشن کیلئے ایجی ٹیشن میں شدت پیدا ہورہی تھی، انھوں نے کہا: ’’اگر ریزرویشن دے بھی دیا جائے تو جابس نہیں ہیں۔ بینکوں میں نوکریاں ٹکنالوجی کی وجہ سے گھٹ چکی ہیں۔ سرکاری بھرتی رکی ہوئی ہے۔‘‘ کئی لوگوں نے تاڑا کہ مسٹر گڈکری کا نشانہ احتجاجی نہیں (کہ ریزرویشن کا مطالبہ کررہے ہو) بلکہ مودی حکومت تھی (کہ وہ نوکریاں پیدا کرنے میں ناکام ہوئی)۔
حالیہ عرصے میں انھوں نے اپنی چالاکی سے دیئے گئے بیانات کے ذریعے ہلکے طوفان پیدا کئے ہیں۔ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے انتخابی نتائج نے مسٹر گڈکری کو زبردست موقع فراہم کیا۔ انھوں نے اپنے بیان میں بے باکی دکھائی۔ انھوں نے کہا، ’’کامیابی پر کئی لوگ دعوے داری پیش کرتے ہیں لیکن ناکامی پر سب دور ہوجاتے ہیں جیسا کہ جب کامیابی ملے تو اس کا کریڈٹ لینے کیلئے مسابقت ہوگی، ناکامی کی صورت میں ہر کوئی ایک دوسرے پر انگشت نمائی شروع کردے گا۔ قیادت کو شکست اور ناکامیوں کی ذمہ داری بھی لینے پر بھی آمادہ ہونا چاہئے۔ آرگنائزیشن کے تئیں قیادت کی وفاداری اس وقت تک ثابت نہیں ہوگی جب تک وہ شکست کی ذمہ داری قبول نہ کرے۔‘‘ یوم جمہوریہ 2019ء پر وہ مزید بے باک نظر آئے: ’’لوگ جیسا کہ سیاسی قائدین انھیں خواب دکھاتے ہیں۔ لیکن اگر وہ خواب کی تکمیل نہ ہو تو عوام ان لیڈروں کو شکست دیں گے۔‘‘
چیلنج کی تیاری
کسی کے بھی ذہن میں کچھ شبہ نہیں کہ اصل نشانہ مسٹر نریندر مودی پر تھا۔ اگر بی جے پی قطعی اکثریت نہ جیتے یا خود کو تشکیل حکومت سے قاصر پائے تو ایسا مانا جارہا ہے کہ مسٹر گڈکری پارٹی کی قیادت کیلئے مسٹر مودی کو چیلنج کریںگے۔ قبل ازیں، مسٹر گڈکری نے صدر بی جے پی مسٹر امیت شاہ کو بالواسطہ نشانہ بنایا تھا۔ 24 ڈسمبر 2018ء کو سالانہ آئی بی انڈومنٹ لیکچر دیتے ہوئے مسٹر گڈکری نے کہا، ’’اگر میں صدر پارٹی ہوں اور میرے ایم پیز اور ایم ایل ایز اچھا کام نہ کررہے ہوں تو کون ذمہ دار ہے؟ میں (ذمہ دار) ہوں۔‘‘ اسی ایونٹ میں انھوں نے وزیراعظم کو بھی چیلنج کیا: ’’رواداری ہندوستانی نظام کا سب سے بڑا ثاثہ ہے۔ آپ صرف اس لئے انتخابات نہیں جیت سکتے کہ آپ اچھی تقریر کرتے ہیں … آپ بھلے ہی قابل شخص ہوں لیکن عوام ہوسکتا ہے آپ کو ووٹ نہ ڈالیں۔ کوئی یہ سمجھے کہ اسے ہر چیز کی جانکاری ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے … لوگوں کو مصنوعی تشہیربازی سے گریز کرنا چاہئے۔‘‘ مسٹر گڈکری نے وہ سب کچھ کہہ دیا جو بی جے پی میں کوئی ناراض قائد کہہ سکتا ہے یا وہ سب جو اپوزیشن کا سیاستدان کہے گا۔ انھوں نے عملاً وزیراعظم کو خوابوں کا ناکام سوداگر قرار دیا اور شکست کی ذمہ داری قبول کرنے کا حوصلہ نہ ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا؛ انھوں نے وزیراعظم پر عدم روادار ہونے اور آرٹیفیشل مارکیٹنگ میں ملوث رہنے کا الزام عائد کیا ہے۔ واقعی ایک کابینی رفیق کی طرف سے یہ بہت سخت الفاظ ہیں!
قیادت تذبذب کی شکار
ان تمام بیانات کے باوجود بی جے پی قیادت نے سرعام ایک لفظ تک نہیں کہا ہے۔ آر ایس ایس نے بھی مسٹر گڈکری کی تنبیہہ نہیں کی ہے۔ ظاہر طور پر ہر کوئی اُلجھن میں مبتلا ہے اور کچھ واضح نہیں کہ اس صورتحال سے کس طرح نمٹا جانا چاہئے۔ مجھے شبہ ہے کہ کارروائی کرنے میں پس و پیش اس لئے ہے کہ پارٹی قیادت کو معلوم ہے ایسے مزید کئی قائدین ہیں، بالخصوص چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان اور اترپردیش کے ایم پیز جو لوک سبھا انتخابات کے نتیجے اور خود اپنے سیاسی مستقبل کے تعلق سے خائف ہیں۔ 2014ء میں بی جے پی اور یو پی میں اس کی حلیف پارٹی (اپنا دل) نے ان چار ریاستوں میں 145 نشستوں کے منجملہ 135 جیتے۔ محتاط اندازہ بھی لگائیں تو بی جے پی ان 135 نشستوں میں سے کم از کم 80 سیٹیں ہارنے والی ہے۔ یہی وہ نتیجہ ہے جس کی مسٹر گڈکری اور اُن کے حامی تمنا کریں گے۔ سرگوشیاں ہر دن بلند ہورہی ہیں اور یہی شاید مسٹر گڈکری اور اُن کے پُرجوش حامیوں کیلئے مسحور کن آواز کا کام کریں گے۔
مزید آوازیں اُٹھ رہی ہیں (تازہ ترین مسٹر رام ولاس پاسوان ہیں) اور پیش قیاسی کی جارہی ہے کہ انتخابات میں بی جے پی کی انفرادی عددی طاقت 2014ء کی اونچی قدر 282 سے گھٹ سکتی ہے۔ جیسے جیسے انحطاط ہوتا رہے، آپ یقین کرسکتے ہو کہ گڈکری کے ’جواہر‘ کا تعدد بڑھے گا!