نبی کریم ؐ کی سیرت دنیا و آخرت میں کامیابی کا واحد ذریعہ

ایم جی اے کے تعارف اسلام کلاس سے پروفیسر طیبہ سلطانہ کا خطاب
حیدرآباد 7 مئی (فیاکس) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت سے واقف ہونا ہر مسلمان مرد و عورت، لڑکا و لڑکی پر لازم ہے۔ آپ ﷺ کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات پر چلنے سے ہی دنیا اور آخرت میں بھلائی و کامرانی ممکن ہے۔ انسانوں کو سمجھانے اور نیکی کا راستہ دکھانے کے لئے ہر خطہ، ہر ملک اور ہر آبادی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؑ بھیجے تاکہ وہ انھیں جنت کی خوش خبری سنائیں اور عذابِ دوزخ سے ڈرائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے جتنے بھی نبیؐ کسی بھی ملک، کسی بھی دور اور کسی بھی قوم میں آئے ان سب کا دین ایک ہی تھا۔ ان سب کا مشن صرف اللہ کی بندگی، نیکی کی تلقین، بدی سے پرہیز اور قانون الٰہی کی مخلصانہ اطاعت کی طرف لوگوں کو دعوت دینا تھا۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر طیبہ سلطانہ نے مسلم گرلز اسوسی ایشن کی جانب سے شانتی نگر میں جاری تعارف اسلام کلاس میں طالبات کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے آخری نبی ﷺ کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ نبی آخرالزماں ﷺ کی پیدائش کے وقت ملک عرب میں جہالت کا دور دورہ تھا۔ بے شمار خداؤں کی پرستش کی جاتی تھی، بے حیائی و بیہودگی اپنے عروج پر تھی، شراب، زنا، جواب اور سود کا ہر طرف بازار گرم تھا، لڑکیوں کی پیدائش کو باعث عار سمجھا جاتا تھا۔ عورتوں کی کوئی وقعت و عزت نہ تھی، خانہ کعبہ کا طواف برہنہ کیا جاتا تھا، یتیموں اور ناداروں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔ غرض کہ ہر قسم کی بُرائی و بے حیائی عام تھی۔ اسی دور میں اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو بطور رحمۃ اللعالمین بناکر دنیا میں بھیجا۔ آپ ﷺ بچپن ہی سے بہت نیک اور رحمدل تھے۔ امین اور صادق کے لقب سے پکارے جاتے تھے، مظلوموں اور یتیموں کے دُکھ درد پر تڑپ اُٹھتے تھے اور ان کی ہرممکنہ مدد کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھتے تھے۔ حلف الفضول کے نام سے معاہدہ آپ ﷺ کے بچپن ہی کے زمانے کا واقعہ ہے جس میں آپ ﷺ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کے مقاصد میں ملک کی بدامنی کو دور کرنا، مسافروں کی حفاظت کرنا، غریبوں کی امداد کرنا، عاجزوں پر ظلم نہ ہونے دینا اور فسق و فجور کو مٹانا تھا۔ اس طرح تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود کو نصب کرنے میں بھی آپ ﷺ نے بڑی ہی دانشمندی سے ایک بڑی لڑائی ٹالنے میں مددگار بنے۔ آپ ﷺ کو ہمیشہ حق و روشنی کی تلاش تھی، آپ ﷺ کے مزاج اور فطرت میں رحم، ہمدردی، غمگساری و دلسوزی تھی اسی لئے مصیبت میں لوگوں کی مدد کرتے، دردمندوں سے محبت کرتے، بے کسوں اور مظلوموں کی خبر گیری کرتے، مہمانوں کی خاطر مدارت کرتے اور ہمیشہ سچ بولتے اور سچ کا ساتھ دیتے تھے۔ اس کے علاوہ دونوں شہروں کے مختلف مقامات کے سنٹرس میں محترمہ بشریٰ ندیم، محترمہ جمیلہ بیگم، محترمہ فرحانہ بیگم، محترمہ ماریہ شریف، محترمہ سمیہ بیگم، محترمہ روحی خاں، محترمہ شمیم فاطمہ، محترمہ کبریٰ بانو، محترمہ عطیہ ناز، محترمہ عابدہ بیگم، محترمہ زارا خاں، محترمہ طلعت فاطمہ، محترمہ تسنیم فاطمہ، محترمہ ماریہ احمدی، محترمہ سحر فاطمہ، محترمہ عفرا فاطمہ، محترمہ عمارہ صوفیہ، ڈاکٹر ذکیہ سلطانہ و دیگر کارکنات نے مخاطب کیا۔