ناموں کے انکشاف سے زیادہ کارروائی کی اہمیت

کلدیپ نیر
بیرون ملک غیر قانونی بینک کھاتے رکھنے والے افراد کے بارے میں مباحث کے درمیان چند دن پہلے وہ نام جنھیں معافی دی گئی تھی فراموش کردئے گئے ۔ بظاہر ان افراد کا تعلق دو بڑی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے محسوس ہوتا ہے ورنہ اس قدر جلد چیخ و پکار بند نہ ہوئی ہوتی ۔ دوسری قابل نوٹ یہ بات ہے کہ اس بات کا رمق برابر بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ کس طرح کھاتہ دار اس قدر خطیر رقومات جمع کرسکے اور اسے روکنے کے لئے آخر کیا اقدامات کئے گئے تھے ۔

بیرون ملک رقومات جمع رکھنا جرم ہے اس لئے وہ تمام افراد قصوروار ہیں جنھوں نے بیرون ممالک میں رقومات چھپا رکھی ہیں ۔ حکومت کی طرف سے ایسے افراد کے نام ظاہر کرنے میں پس وپیش ناقابل فہم ہے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی قصوروار ہیں اور یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ناموں کے انکشاف سے ان کے امیج کو نقصان ہو ۔ دونوں جماعتوں کو بہت کچھ پوشیدہ رکھنا پڑرہا ہے ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لئے جو انتخابات کے دوران کروڑہا روپے خرچ کرچکے ہیں غیر قانونی رقومات جمع رکھنے کے لئے بیرون ممالک محفوظ ترین مقام ہیں اس راستہ سے وہ نہ صرف عوام کی توجہ سے بچی رہتی ہیں بلکہ بھاری ٹیکس سے محفوظ رہتی ہیں جو اپنے ملک میںجمع رکھنے کی صورت میں ادا کرنا لازمی ہوتا ہے ۔ بہرحال ہندوستان کے عوام جرمنی کے مشکور ہیں جس نے کالا دھن جمع رکھنے والوں کے نام عوام کے سامنے لائے ہیں ۔ ایک جرمن بینک نے ناموں کی فہرست حکومت ہند کے حوالے کی ہے ۔ ملک کی کوئی انٹلیجنس ایجنسی اس فہرست سے متعلق کوئی دعوی نہیں کرسکتی کہ اسے اس نے حاصل یا معلوم کیا ہے یہ ناقابل فہم ہے کہ آخر جرمنی نے نام کیوں ظاہر کئے ۔ کیا ایسا کرنے کے لئے نئی دہلی پر کسی قسم کا کوئی دباؤ تھا ۔ عوام کا اس بات پر چونک جانا فطری امر ہے کہ آٹھ سو افراد نے بیرون ملک رقومات جمع کررکھی ہیں اور بھی ایسے کئی نام ہوں گے جن کا انکشاف لازمی طور پر کیا جانا چاہئے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ بیرون ملک جمع کی گئی رقومات 6 لاکھ کروڑ روپے ہے ۔
میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب میں لندن میں ہندوستان کا ہائی کمشنر تھا اس وقت مالیاتی ضروریات کی تکمیل کے لئے نئی دہلی نے اپنے سفراء کو لکھا تھا کہ وہ بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں سے رقومات وصول کریں۔ میں نے ہندوستانی نژاد عوام سے اس کے لئے اپیل کی تھی لیکن میں اس وقت حیران رہ گیا جب جرمنی کے سفیر نے مجھ سے یہ کہا کہ ہندوستانیوں نے سوئٹزرلینڈ کے بینک میں اس قدر رقومات جمع کررکھی ہیں ، ان رقومات کے ذریعہ کئی پانچ سالہ منصوبے آسانی سے روبعمل لائے جاسکتے ہیں ۔

بہر صورت اب حکومت کے پاس بیرون ملک کھاتہ داروں کے نام موجود ہیں مبینہ طور پر یہ نام کئی ماہ پہلے وصول ہوگئے تھے جبکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زیر قیادت کانگریس کی حکومت قائم تھی ۔ سیاسی مصلحت کے تحت کسی کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ یہاں تک کہ وزیراعظم نریندر مودی جنھوں نے اقتدار کے ابتدائی ایک سو دن کارروائی کرنے کا وعدہ کیا تھا اقتدار پر آنے کے سات ماہ بعد کارروائی شروع کی ہے ۔ منموہن سنگھ حکومت نے تو نام دبا کر رکھ دئے تھے حالانکہ یہ نام حکومت کو وصول ہوگئے تھے ۔ بے چین کرنے والے سوالات کے جواب کبھی نہیں دئے جاتے ۔ ناموں کا انکشاف اسی زمرہ میں ہے۔ مودی حکومت دودھ کی دھلی ظاہر کرتی ہے ۔ اس نے کارپوریٹ سیکٹر کی چند کمپنیوں کے ناموں کو دوسروں پر ترجیح دی ۔ کارپوریٹ سیکٹر کی طرف سے 3 ناموں کا اعلان کیا گیا ۔ یہ غالباً وہ کمپنیاں ہیں جنھیں مودی حکومت اپنا ہمنوا نہیں بناسکی پھر کارپوریٹ سیکٹر پر زیادہ توجہ کرتے ہوئے سیاسی دنیا سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ حالانکہ انتخابات میں خرچ کی گئی خطیر رقومات کارپوریٹ سیکٹر کی طرف سے ہی فراہم کی گئی ہیں۔

نریندر مودی کو مفادات حاصلہ سے مقابلہ کرنا ہوگا جنھوں نے سیاست کو آلودہ کیا ہے ۔ اگر نریندر مودی اپنا وقار بحال کرنا چاہتے ہیں تو اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے ۔ انھیں تمام نام بتانے ہوں گے ۔ ایک ایسا ملک جہاں ایک تہائی آبادی کچھ کھائے پئے بغیر سوجاتی ہے ۔ عام آدمی کے حالات زندگی کے تعلق سے مکمل بے حسی ہے ۔ احتجاج کرنے کے لئے کوئی جہدکار سڑکوں پر نہیں آتے ہیں ۔ سماج بے تعلق ہوگیا ہے کیونکہ جو لوگ صدائے احتجاج بلند کرنے میں پیش پیش تھے اور رائے عامہ بناتے تھے وہ خود اس مسئلہ کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔ شاید ہی وہ کوئی حل پیش کرسکیں ۔