نامورتخلیق کار نسیمہ تراب الحسن

انیس عائشہ
نسیمہ تراب الحسن شہر کے ایک تہذیب یافتہ اعلی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ خاندان کا ہر فرد اعلی تعلیم یافتہ اور تخلیق کار اہل قلم ہے ۔ تراب الحسن صاحب کے ہاں بھی سب اسی ٹکر کے یعنی غالباً آفتاب حسین صاحب کے نام کی رعایت سے جملہ متعلقین ’’ایں خاندان ہمہ آفتاب است‘‘ کے مترادف ہوگیا ۔ اہل قلم حضرات کی فہرست میں چند ہی ملیں گے جن کے خطوط سے مشاہیر کا رتبہ پایا ۔ ان کے ایک بھائی علی باقر نے جہاں افسانے لکھ کر شہرت پائی وہیں خطوط لکھ کر بھی اپنے احساسات و جذبات کو ہم تک پہنچایا ۔ آسودگی اور خوش حالی نے نسیمہ میں خود اعتمادی پیدا کردی ۔ انکساری اور بلند خیالی بچپن سے دیکھی تو اسی رنگ میں رنگ گئیں ۔ ہر طرف علمی ماحول تھا ، لہذا قلم اٹھانے میں دیر نہیں لگی ۔ کم لوگ ہوتے ہیں جو نثر اور نظم دونوں لکھ لیتے ہیں ۔ یہ دونوں اصناف میں سادہ اور عام فہم زبان میں لکھتی ہیں ۔ نثر میں روزمرہ کے واقعات دلچسپ انداز میں بیان بھی کرتی ہیں اور غیر محسوس طریقے پر کچھ سکھا جاتی ہیں ۔ ان کے مضامین اخبارات و رسائل میں چھپتے ہیں ۔ نسیمہ نے اپنے نام کی رعایت سے حیات بخش تازگی اور کرنوں جیسی تیز رفتاری سے لکھنا شروع کیا۔ تفریح طبع اور کچھ وقت گذاری کے خیال سے ملازمت بھی کی لیکن جلد ہی سبکدوش ہوگئیں کیونکہ وراثت کے جوہر چمک دکھانے کو بیتاب تھے (حالانکہ اسکول کے زمانے سے ہی لکھنا شروع کردیا تھا) لہذا اپنے خانگی فرائض کی سلیقے سے انجام دہی کے ساتھ ساتھ قلم کو آگے بڑھاتی رہیں ۔ نثر پر زیادہ دسترس ہے ۔ انشایئے ، خاکے اور مضامین لکھتی ہیں ۔ پھر بھی مکمل تنقید سے گریز کرتی ہیں ۔ ہمیشہ مثبت پہلو پیش نظر رہتا ہے ،کیونکہ میر انیسؔ کو بہت پسند کرتی ہیں اس وجہ سے شاید ہمیشہ یہ بات دامن گیر رہتی ہے ۔
خیال خاطر احباب چاہئے ہردم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
ان کی زبان عام فہم اور آسان ہوتی ہے ۔ لہذا ہم جیسے لوگ بھی جلدی سمجھ جاتے ہیں ۔گہرا مشاہدہ ہے سارے مضمون کے بعض ایسے پہلو بیان کرتی ہیں جو عام طور سے ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں ۔ دراصل الفاظ بذات خود توبے جان ہوتے ہیں لیکن جب ان کا تعلق مخصوص تصورات اور تعلقات سے ہو تو معنی بھی پیدا ہوتے ہیں اور زندگی بھی ۔ میر تقی میر نے کہا تھا ۔

سرسری ہم جہان سے گذرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
نسیمہ اتنے غور سے دیکھتی ہیں کہ جہانِ دیگر دیکھ لیتی ہیں ۔ کبھی کبھی ہلکا سا طنز بھی کرتی ہیں ۔ بقول مشتاق احمد یوسفی طنز کا تیر تو کسی تلوار اور کسی حسینہ کی نظر سے بھی تیز ہوتا ہے ۔ لہذا لگ ہی جاتا ہے ۔ یہ کافی ہے ان کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ ان کے مضامین میں جو مزاح کی چاشنی ہے وہ قاری کو آگے بڑھاتی رہتی ہے ، چنانچہ مضمون تو مضمون ، پوری کتاب ہی پڑھ لی جاتی ہے ۔چھوٹے چھوٹے واقعات کو ترتیب سے لکھنے کا ڈھنگ جانتی ہیں ۔ نظم کی جانب توجہ کم ہے لیکن حمد ، نعت ، منقبت ، نظم اور غزل سب ہی کچھ لکھا ہے ویسے بھی نعت لکھنا بڑی احتیاط کا کام ہے لیکن چونکہ فطرتاً محتاط ہیں اس لئے ہمت کرڈالی چنانچہ ان کے حمد کا ایک شعر ہے ۔
اجالا ہو سحر کا نظر آئے شفق مجھ کو
ہے فرحت بخش ہر منظر خدا کا نام لیتی ہوں
نعت لکھتی ہیں
یاد نبی سے دل میرا روشن صدا رہے
رحمت جو ہو نبی کی تو گلشن ہرا رہے
ہر دم نبی کا نام ہے تیری زبان پر
یارب انہیں کے فیض سے دامن بھرا رہے
غزلوں میں احتیاط سے کام نہیں چل سکتا یہ تو واردات قلبی ہیں اور اظہار کے لئے بے تاب ۔ اس میں اشارے کنائے ہوسکتے ہیں مگر بیان ہو ہی جاتا ہے ۔
’’یاد‘‘ سے کسی انسان کو چھٹکارا نہیں یہ تو وہ چور ہے جو لاشعور میں چور کی طرح چھپارہتا ہے کہ کب موقع ملے اور دل و دماغ پرقبضہ کرلے ۔ ادیب اور شاعر اس کو بہت عزیز رکھتے ہیں اس لئے کہ یہ سامع کے ذہن پر بہت جلد اثر پذیر ہوجاتا ہے ۔ نسیمہ پریشان نہیں رہتی ہیں ہمیشہ مثبت پہلو پر سوچتی ہیں اس لئے اس سے الجھن کا شکار نہیں ہوتیں ۔
یوں عہد گزشتہ کو لئے آتی ہیں یادیں
بچھڑے ہوئے لوگوں کو بلا لاتی ہیں یادیں
احساس کے صحرا میں اتر آتی ہے جب دھوپ
تب ابرِ کرم بنتی ہیں چھاجاتی ہیں یادیں
بہار و خزاں ، پھول اور کانٹے شاعروں کا پسندیدہ موضوع ہے ۔ میر تقی میر نے کہا تھا۔

تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے جوش جنوں
شاید آجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
آسان پسند ہیں ۔ صحرا میں نہیں جانا چاہتیں ، باغ میں ہیں ، لیکن جانتی ہیں کہ یہاں بھی پھول کے ساتھ کانٹے تو ہیں
کیا اہل چمن مجھ سے گریزاں ہیں نسیمہ
تھاما نہیں کانٹوں نے بھی آنچل کئی دن سے
مشکل سے بھول پائے تھے ان کے خیال کو
بے چین دل کو کردیا آکر بہار نے
تخلیق کار کی سوچ ہی نرالی ہے ۔بہار جس سے عام ذہن مطمئن ہوتا ہے ، یہ لوگ اس سے بے چین ہوتے ہیں ۔ نسیمہ کا طریقہ غیر معمولی حالات میں حوصلہ رکھنا ہے زمانہ کے ساتھ ساتھ ثابت قدمی سے چلنا ہے ۔ کہتی ہیں
کیا ضرور کہ گرجائیں ایک ٹھوکر سے
جو لڑکھڑائیں قدم پھر سنبھل بھی سکتے ہیں
عروج و زوال اور زندگی سے سمجھوتہ کرنے کی تلقین کرتی ہیں ۔ پُرامید رہتی ہیں ، مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں
مایوس زندگی سے خدارا کبھی نہ ہو
احساس کا ہے کھیل عروج و زوال بھی
انھیں دنیا کی بے ثباتی کی حقیقت کا یقین ہے ۔ عملی زندگی بھی اس کا ثبوت ہے ۔ تراب صاحب نے ہمیشہ اس سے لاپروائی برتی ۔ بہت کچھ دیکھا بہت کچھ سیکھا اور عملی طور پر اس کے پیچ و خم اور اس کی دعوت سے دور رہے ۔ وسیم بریلوی کا ایک شعر تراب صاحب کی نذڑ ہے ۔
یونہی آئی نہیں یہ میرے پیچھے
یہ دنیا میں نے ٹھکرائی بہت ہے
مضمون نسیمہ کے لئے ہے ، لیکن تراب صاحب کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ نسیمہ نے کہا ہے
تمہارے نام سے سب لوگ مجھ کو جان جاتے ہیں
میں وہ کھوئی ہوئی اک چیز ہو ںجس کا پتہ تم ہو
تو نسیمہ کہتی ہیں
یہ اجلی چاندنی ہم کو سحر کا دھوکا ہے
یہ دل فریبیٔ دنیا نظر کا دھوکا ہے
میرؔ سمجھا گئے تھے
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
خالص شاعرانہ انداز میں سوچتی ہیں ۔ محفل سے اٹھائی گئی ہیں لیکن فریب خیال سے الجھی ہیں ۔ خوش فہمی ہے
اٹھایا بزم سے اپنی تو رسوائی نہیں کوئی
نکالا دل سے گر ہوتا تو بے گانے بنے ہوتے

اس قدر خیال کہ ہر ماہ شادی کی تاریخ (وہ دن جب نسیمہ دوسرے خاندان سے وابستہ ہوئی تھیں اور بظاہر دور ہوگئی تھیں) ہر اس دن علی باقر کا دل بڑی زور سے دھڑکتا رہا ہوگا اور کوئی ’’بڑے پیار سے‘‘ ان کے ’’دل کے رخسار‘‘ پر ہاتھ رکھتا رہا ہوگا ۔ تب وہ چونک کر قلم اٹھاتے ہوں گے ۔ بڑے انتظار کے بعد بھی جب بھائی کا خط نہیں ملا تو نسیمہ نے ’’بھائی کے نام کھلا خط‘‘ میں ایک کوشش ناکام کرڈالی اور اپنی خواہش کا اظہار کر ہی دیا ۔ عین اسی طرح جیسے فیض احمد فیضؔ نے ’’نوحہ‘‘ میں اپنے بھائی کے ساتھ گذری ہوئی عمر کے بارے میں لکھا تھا کہ اس کتاب میں جو تم لے گئے ہو
اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہد شباب
اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب
آکے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ کو لوٹا دو مری عمر گذشتہ کی کتاب
نسیمہ کو علی باقر کچھ نہ کچھ قیمتی تصویریں ، بچپن اور عہد شباب کے عکس خطوط کی شکل میں دے تو گئے ہیں ، لیکن یہ ان کے غم کے دمکتے ہوئے پھول کی برابری نہیں کرسکتے ۔ یاد کی کسک ’’نسیمہ‘‘ کی اپنی زندگی تک باقی رہے گی ۔ نسیمہ کو گھر ، خاندان ، دوست احباب کی فکر اور ذمہ داری بہت ہے ، لیکن یہ سب ان کی ادبی تخلیقات میں مانع نہیں ہیں ، کیونکہ ’’رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور‘‘ بیشتر وقت تو ’’ملازمین کی تابعداری‘‘ میں لگ جاتا ہے ’’خواتین اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ اور ’’روداد ایک دن کی‘‘ میں ذاتی تجربوں کا بڑا دخل ہے ’’اردو زبان‘‘ پر سب کے حق کا اقرار کیا ہے نظم و نثر میں گراں قدر ادبی تحریروں کا ذکر کیا ہے ، جس کی وجہ سے یہ زبان ہر دل عزیز اور ان مول ہوگئی ہے ۔
’’متاع قلم‘‘ کے ہر مضمون میں کوئی نہ کوئی اصلاحی اور معلوماتی نکتہ اگر عیاں نہیں تو پوشیدہ ضرور ہے ۔