مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر
ناقص و مجہول ڈپلومیسی
پاکستان کے تعلق سے نریندر مودی حکومت کی ڈپلومیسی اور پالیسی پر ہونے والی تنقیدوں کے درمیان نئی دہلی میں قومی سلامتی مشیران سطح کے مذاکرات ہونے یا نہ ہونے کا جھگڑا دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید گرما دے گا۔ پاکستان کے قومی سلامتی مشیر سرتاج عزیز سے کشمیری علیحدگی پسند قائدین کی بات چیت کو روکنے کی جتنی کوشش کی گئی اس کے خلاف ہندوستان کے اندر مختلف قائدین اور پارٹیوں نے اپنی اپنی پالیسیوں کے مطابق تحفظات ذہنی کا اظہار کیا ہے۔ بات چیت ملتوی ہوتی ہے تو نریندر مودی حکومت کو آئندہ ایک غیر ذمہ دار حکومت کے طور پر رسوا کیا جائے گا۔ حکومت ہند کشمیری علیحدگی پسندوں کو پاکستانی قومی سلامتی مشیر سرتاج عزیز سے ملاقات کی ہرگز اجازت نہ دینے کی ضد پر قائم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دونوں ملکوں کی حکومتیں اپنے مسائل کی یکسوئی کے لئے اپنی کوششوں کو یوں ہی ایک دسری کی ضد کی نذر کردیں گی۔ ایک حیا باختہ سیاسی سرکس اور مضحکہ خیز ڈپلومیسی کا اثر دونوں ملکوں کے تعلقات پر کتنا بُرا اثر ڈالے گا یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ ہندوستان نے بات چیت سے قبل ہی کشمیر پر اپنی پالیسی کو ظاہر کرتے ہوئے خود کو کنارے پر لاکھڑا کیا تو پاکستان کو اس کا فائدہ پہونچے گا۔ ہندوستان کے لئے یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اور مذاکرات کے جذبہ کو کشمیر مسئلہ کا یرغمال بنایا جارہا ہے۔ مودی حکومت نے نادانی اور ناسمجھی میں یہ ظاہر کردیا کہ ہندوستان اس طرح کی بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھتا جس کی وجہ سے پاکستان کو کشمیریوں میں اپنا وزن بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان کے نمائندوں سے کشمیری علیحدگی پسند قائدین کی ملاقات کو نظرانداز کرتے ہوئے قومی سلامتی مشیران کی بات چیت کو یقینی بناکر باہمی مسائل خاص کر دہشت گردی کے موضوع کو اہم ایجنڈہ بنایاجائے۔ ایک سال قبل بھی ہندوستان نے دونوں ملکوں کے معتمدین خارجہ کی بات چیت کو معطل کردیا تھا۔ اس سے پہلے بھی حریت قائدین کو پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے مدعو کرنے کا تنازعہ پیدا ہوگیا تھا۔ حکومت ہند کو لاشعوری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے بنیادی سوجھ بوجھ کے ساتھ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے احیاء کی پہل کرنی چاہئے اور اس بات چیت میں علیحدگی پسند قائدین و حریت کے مسئلہ پر بھی تبادلہ خیال کیا جاسکتا ہے۔ روس کے مقام اوفا میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نواز شریف اور نریندر مودی کو نئی دہلی میں بات چیت کے لئے اتفاق کرنے سے پہلے یہ طے کرنا تھا کہ پاکستان کو حریت قائدین یا علیحدگی پسندوں سے ملاقات کی ضد چھوڑنی ہوگی لیکن دونوں ملکوں کے سربراہوں نے نیک جذبہ کے ساتھ مذاکرات کے احیاء کی جانب قدم اٹھایا تو اس پر فراخدلی کا بھی مظاہرہ ہونا چاہئے۔ ادھر حکومت ہند کو علیحدگی پسند قائدین کی پاکستانی وفد سے ملاقات کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ادھر پاکستان کو ہندوستان کے جذبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات چیت سے قبل علیحدگی پسند قائدین کو مدعو نہ کرنے کا فیصلہ کرنا تھا۔ مگر دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی ضد کو پست ہتھکنڈے کے ساتھ کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ قومی سلامتی مشیران کی مذاکرات کے مسئلہ نے نہ صرف ہندوستان کی سنگھ پریوار نظریاتی حکومت کی ڈپلومیسی کو ناکام بنادیا ہے بلکہ پاکستان کو کشمیریوں کا رہنما بنانے میں مدد کی ہے۔ اس طرح پاکستان کو پھر ایک بار کشمیر مسئلہ پر اس لکیر کو عبور کرنے کا موقع دیا گیا جس کو ہندوستان ہرگز پسند نہیں کرتا۔ ہندوستان کے ساتھ بات چیت کے لئے پاکستان کے موقف کے تعلق سے بعض گروپس کو شبہ تھا کہ وہ عالمی دباؤ میں آکر بات چیت کے لئے تیار ہوتا ہے۔ اب پاکستان نے ان لوگوں کی سوچھ کو غلط ثابت کرنے کا موقع پالیا ہے کہ وہ بات چیت کے لئے کسی عالمی دباؤ میں نہیں ہے۔ یہ حکومت ہند کی پالیسی ہی ہے جو مذاکرات کو معطل یا ملتوی کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ مودی حکومت کی اس پالیسی کی وجہ سے سرحد پر پاکستان کی اشتعال انگیزی بھی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہورہی ہے۔ پاکستان ہمیشہ ایسے ہی مواقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ ہندوستان کی برسر اقتدار حکومتیں غلطیاں کرتی رہیں اور وہ بات چیت کی ناکامی کا الزام ان کے سر تھوپ دیا جائے۔ ہندوستان کی کئی سیاسی پھارٹیوں کے قائدین نے بھی بی جے پی کی خارجہ پالیسی پر سوال اٹھائے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کشمیری علیحدگی پسند قائدین کو نظر بند رکھنے کا فیصلہ کرکے مودی حکومت نے پاکستان کو کشمیریوں کا ہیرو بنانے میں مدد کی ہے۔ اس طرح لاشعوری میں کئے گئے سخت اقدامات کشمیریوں کو ہندوستان سے مزید دور کرنے کا باعث بنتے جائیں گے۔ مودی حکومت کی مکروہات میں لت پت خارجہ پالیسی پاکستان کے معاملہ میں اختیار کردہ ناقص ڈپلومیسی سے یہ تاثر قائم ہوگا کہ حالات کو بگاڑنے والی حرکتیں کی جارہی ہیں۔ غیر محتاط یا غیر شعوری طرز عمل سے ہی اعتبار گھٹ جاتا ہے۔ کشمیریوں کا اعتماد جیتنے کے لئے جن باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے اس پر دھیان نہیں دیا جاتا۔ ان غلطیوں کی وجہ سے ہی وادی کشمیر میں آئے دن مخالف ہند نعرے احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں اب مزید موافق پاکستان نعرے، پرچموں کو لہرانے کے واقعات روز کا معمول بن جائیں گے اور مزید براں مقامی کشمیری نوجوانوں کو اکسانے کا انتہا پسند تنظیموں کو موقع ملے گا۔ اچھی سیاسی پالیسی اور ڈپلومیسی وہی ہوتی ہے جس میں کوئی پیشگی شرائط نہ ہوں اور سرخ لکیریں نہ کھینچی جائیں۔ سنجیدہ اور بامعنی بات چیت کا آغاز ہی درست ڈپلومیسی کہلاتی ہے۔
پیاز کی قیمتیں
مرکز میں جب بی جے پی کی حکومت ہوتی ہے تو پیاز کی قیمتیں عوام کو اشک بہانے پر مجبور کردیتی ہیں۔ 1999 ء میں این ڈی اے کی حکومت میں بی جے پی کے سینئر لیڈر اٹل بہاری واجپائی جب ملک کے وزیراعظم تھے اسی پیاز نے ان کی حکومت کو رُلادیا تھا۔ عوام نے اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں پیاز کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کو ناپسند کیا تو ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ حکومت پارلیمنٹ میں ایک ووٹ سے محروم ہوکر خط اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوئی تھی۔ اب مرکز میں بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت ہے اور پیاز کی قیمتیں ایک بار پھر آسمان کو چھو رہی ہیں۔ واجپائی حکومت نے پیاز کی قیمتوں پر قابو پانے کے لئے منفرد طریقہ اختیار کیا تھا اب مودی حکومت بھی اس آئیڈیا کے احیاء کا منصوبہ بناتی ہے تو عوام کو راحت ملے گی۔ 1998 ء میں بھی دارالحکومت دہلی میں پیاز کی قیمت 70 روپئے تا 80 روپئے فی کیلو فروخت ہوئی تھی۔ آج اس دور کا احیاء ہوا ہے۔ لوگوں کو حیرت ہے کہ آخر بی جے پی حکومت میں ہی پیاز کی قیمتیں اتنی مہنگی کیوں ہوتی ہیں۔ اس مرتبہ حکومت نے پیاز کی پیداوار میں کمی ، ناکافی بارش اور خشک سالی کو اصل وجہ بتائی ہے جبکہ مارکٹ پر پیاز کی تجارت ان طاقتوں کے ہاتھوں میں ہے جو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔