نئی حکومت کے تیز رفتار اقدام

کے این واصف
شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے فرما نروائے مملکت ہونے کے بعد حسب توقع مملکت میں بہت سی نمایاں تبدیلیاں سامنے آئیں جن میں گورنروں ، وزراء اور اعلیٰ سرکاری منصوبوں میں ردوبدل ، کچھ عہدوں سے ہٹائے گئے تو کچھ نئے چہرے شامل کئے گئے۔ ان اعلیٰ سطحی تبدیلیوں کے علاوہ بادشاہت کی تبدیلی کے فائدے عام آدمی تک بھی پہنچے۔ جیسے شاہ مسلمان نے فرمان جاری کرتے ہوئے مملکت کے تمام سرکاری ملازمین کو دو ماہ کی تنخواہ بطور بونس دینے کا حکم جاری کیا ۔ اس طرح شاہ سلمان نے خواص سے عوام تک سب کو خوش اور مطمئن کرنے کی کوشش کی ۔ شاہ سلمان کی اس فراخدلی کے اقدام کو دیکھتے ہوئے مملکت کی سینکڑوں نجی کمپنیوں نے بھی اپنے ملازمین کو دو ماہ کی تنخواہ بطور بونس دینے کا اعلان کیا ۔ خانگی شعبہ کا یہ اقدام شاہ سلمان کی عوام میں مقبولیت اور محبت کا ثبوت ہے۔ خانگی شعبہ میں بونس کی ادائیگی کے سلسلے میں یہ کہا گیا کہ کچھ خانگی کمپنیاں صرف اپنے سعودی ملازمین کو یہ بونس دیں گی اور کچھ کمپنیاں سارے ملازمین کو بونس دیں گی ۔ اگر مملکت کی مزید کمپنیاں بھی اس کی تقلید کریں تو سعودی عرب میں خانگی شعبہ میں کام کرنے والے لاکھوں مقامی اور غیر ملکی باشندے مستفید ہوں گے ۔د وسری طرف وہ کمپنیاں جوا پنے ملازمین کو کئی کئی ماہ سے تنخواہ سے محروم رکھے ہوئے ہیں اور ان کے دیگر حقوق دبائے ہوئے ہیں۔ ان لاکھوں خانگی ملازمین کو راحت حاصل ہوگی۔ اگر کم از کم ان کے تنخواہوں کی ادائیگی ہوجائے اور ان کے دیگر حقوق ادا کردیئے جائیں۔

وزارت لیبر کی جانب سے نطاقات قانون کی عمل آوری کے بعد لیبر کا سارا نظام تقریباً ٹھیک ہوگیا اور مملکت میں کام کرنے والے یہ لاکھوں افراد لیبر قوانین کے مطابق قانونی حیثیت میں آگئے اور لاکھوں کی تعداد میں وہ لوگ مملکت سے چلے گئے جو اپنی حیثیت کو قانونی بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ محکمہ لیبر کی تمام تر سختیوں کے باوجود آج بھی سینکڑوں خارجی باشندے ایسے ہیںجن کے کفیل انہیں عاجز کئے ہوئے ہیں۔ کسی کے اقامے تجدید نہیں کئے جارہے ہیں تو کسی کو مہینوں سے نقل کفالے دیئے جانے میں بلا عذر تاخیر کی جارہی ہے ۔ کسی کو وقت ہونے کے باوود مہینوں برسوں سے چھٹی نہیں دی جارہی ہے ۔ محکمہ لیبر کی کوششوں سے دو سال قبل مملکت سے لاکھوں افراد قانون کے دائرے میں آگئے اور لاکھوں کی تعداد میں خارجی باشندے مملکت سے بے دخل بھی کردیئے گئے تھے جو اپنے قیام کو یہاں قانونی نہیں بناپائے ۔ اب چونکہ مملکت میں خارجی باشندوں کی اکثریت قانونی حیثیت میں ہے تو محکمہ لیبر کو ان قانونی مقمین کے حقوق کا تحفظ کرے کیونکہ مملکت کے لیبر قوانین کی پابندی کرتے ہوئے یہاں اپنے قیامکو قانونی بنالیا۔ لہذا محکمہ لیبر کو اب اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ مملکت میں کوئی کفیل اپنے ہر صبح آٹھ بجے اپنے دفتر آتے اور عوام کی شکایات سنتے، ان کی مشکلوں کو دور کرنے ان سے درخواستیں وصول کرتے ان پر احکام جاری کرتے، جب وہ گورنر ریاض ہوا کرتے تھے ۔ اب جبکہ وہ فرما نروائے مملکت ہوگئے ہیں تو پھر محکمہ لیبر کو ایسا مکانزم قائم کرنا چاہئے جس میں اجیر و آجر کے حقوق کا تحفظ ہو اور مملکت میں رہنے والے تمام خارجی باشندے اپنے حقوق حاصل کرتے ہوئے اطمینان و سکون کی زندگی بسر کرسکیں۔ ویسے شاہ سلمان نے اپنے پہلے کابینی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزراء اور عہدیداروں کو ہدایت دی کہ وہ عوام کے کام تیزی سے نمٹائیں تاکہ دین اسلام دارالعرب اور مؤثر ریاست کا کردار بحال رہ سکے۔ یہاں برسوں سے مقیم خارجی باشندے مملکلت کو اپنا دوسرا گھر تصور کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا اور بہترین حصہ یہاں گزارا اور حسب حیثیت مملکت کی تعمیر و ترقی میں اپنی توانیاں صرف کیں ہیں لہذا انہ یں بھی اس ملک کے باشندوں کو حاصل خوشیوں میں حصہ ملنا چاہئے۔

’’بہار کو جانو‘‘
ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست بہار کی حکومت 7 فروری 2015 ء کو ’’بہار کو جانو‘‘ پروگرام کا اہتمام کرے گی جس کا افتتاح بہار کے وزیر اعلیٰ ایتھن رام مانجھی کریں گے ۔ اس ایک روزہ کنونشن میں منعقد ہونے والے سمینار اور ورک شاپ سے ریاستی وزراء ، اعلیٰ عہدیداران، ماہرین اور دانشور حضرات خطاب کریں گے ۔ یہ بات ’’بہار فاؤنڈیشن‘‘ ریاض چاپٹر کے چیرمین عبید الرحمن نے بتائی جس میں شرکت کیلئے ح کومت بہار نے عبید الرحمن کو خصوصی طور پر مدعو کیا ہے ۔ بہار فاؤنڈیشن خود ایک سرکاری ادارہ ہے جو سن 2007 ء میں قائم کیا گیا ۔ عبید الرحمن کے مطابق بہار فاونڈیشن کا مقصد ریاست بہار کے باشندوں کو ایک کڑی میں باندھنا ، ان کی مدد ، رہنمائی کرنا ہے جو ملک سے باہر مختلف ممالک میں برسرکار ہیں۔ اس پلاٹ فارم کے ذریعہ غیر مقیم ہندوستانیوں اور PIO’s کو ریاست میں سرمایہ مشغول کرنے کی ترغیب ، رہنمائی اور اس س لسلے میں مطلوب معلومات فراہم کرنا اور سرکاری سطح پر ان کی مدد کرنا ہے ۔ بہار فاؤنڈیشن مرکزی وزارت برائے این آر آئیز امور سے ملحق ہے اور ریاست میں یہ ادارہ وزارت صنعت کے تحت کام کرتا ہے۔ ریاست کے چیف منسٹر اس کے سرپرست اعلیٰ اور چیرمین وجئے کمار چودھری ، وزیر برائے آبی وسائل ریاست بہار ہیں جبکہ فاؤنڈیشن کے CEO چنچل کمار آئی اے ایس اور Dy.CEO ستیا دیو کمار ہیں۔ فاؤنڈیشن کے چاپٹرز سعودی عرب کے علاوہ ہانگ کانگ ، آسٹریلیا ، جنوبی کوریا ، امریکہ ، کینیڈا ، بحرین ، قطر اور دبئی میں قائم ہیں۔ سعودی عرب چاپٹر کے چیرمین عبید الرحمن ، وائس چیرمین نیاز احمد ، اراکین میں شہزاد صمدانی ، منظر انجم ، ابو راشد اور مملکت کے دیگر منطقوں میں ڈاکٹر آصف داؤدی ، ڈاکٹر شکیل الرحمن ، خالد احمد انصاری شامل ہیں۔ ’’بہار کو جانو‘‘ ایک روزہ کنونشن میں دنیا میں قائم تمام چاپٹرز کے چیرمین شرکت کریں گے ۔ جنہیں ح کومت بہار نے خصوصی طور پر مدعو کیا ہے۔
بہار فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہر سال ’’بہار دیوس‘‘ بھی منایا جاتاہے ۔ اس کے علاوہ بہار دیوس کا اہتمام دیگر ممالک میں قائم فاؤنڈیشن کے چاپٹرز بھی کرتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ ریاض چاپٹر کے زیر اہتمام سن 2012 ء اور 2013 ء میں شاندار پیمانہ پر بہار دیوس منایا گیا تھا ۔ ان پروگرامس میں بہار کی عالمی سطح پر معروف شخصیت آنند کمار (سوپر 30 ) نے 2012 ء اور ڈاکٹر منظور عالم سکریٹری جنرل ملی کونسل دہلی نے 2013 ء میں بحیثیت مہمانان خصوصی شرکت کی تھی۔ عبید الرحمن نے بتایا کہ ریاض چاپٹر جلد ’’بہار دیوس 2015 ‘‘ کا اہتمام کرے گا جس میں ریاست بہار کی کسی ا ہم سرکاری شخصیت کو مدعو کیا جائے گا ۔ انہوں نے بتایا چونکہ سعودی عرب میں ایک بڑی تعداد میں بہاری باشندے برسرکار ہیں اس لئے مملکت کے تمام منطقوں میں اس کے نمائندے مقرر کئے گئے ہیں جو وقتاً فوقتاً بہاری باشندوں کے مسائل کی نمائندگی کرتے ہیں اور انہیں سرکار اور سفارت خانہ ہند ریاض کے تعاون سے مطلوبہ امداد بہم پہنچاتے ہیں۔ خصوصاً گزشتہ برسوں میں سعودی عرب میں نطاقات قانون کے لاگو کئے جانے سے جو لوگ مختلف قسم کی پریشانیوں کا شکار ہوئے تھے، تب فاؤنڈیشن کے ریاض چاپٹر سرگرم عمل تھا اور بہاری باشندوں کی مدد اور رہنمائی کی۔ عبید الرحمن نے آخر میں ریاض چاپٹر کی کارکردگی میں بہار سرکار اور سفارت خانہ ہند ریاض کے بہترین تعاون اور رہنمائی کی ستائش کی اور چاپٹر اور اس کے اراکین کی جانب سے ہدیہ تشکر پیش کیا۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ ریاست کیرالا میں بھی سرکاری سطح پر اس قسم کے ادارے کے علاوہ ریاست میں این آر آئیز امور کی ایک وزارت بھی قائم ہے ۔ گلف میں کام کرنے والے ہندوستانیوں میں سب سے بڑی تعداد ریاست کیرالا کے باشندوں کی ہے، جس کے بعد دوسرا نمبر ریاست تلنگانہ کا ہے لیکن تلنگانہ میں صرف ایک این آر آئیز سیل (Cell) قائم ہے جو بہت فعال بھی نہیں۔ ریاست تلنگانہ کے باشندوں کی گلف میں ایک بہت بڑی تعداد برسرکار ہے اور سماجی تنظیمیں پچھلے کئی برس سے ریاستی حکومت پر زور دیتی رہی ہے کہ ریاست میں این آر آئیز امور کی نگرانی کیلئے ایک وزارت قائم کی جائے ۔ متحدہ آندھرا حکومت نے یہ کام نہیں کیا ۔ کم از کم تلنگانہ کی نئی ریاست حکومت کو اس جانب توجہ دے تاکہ این آر آئیز کے اس دیرینہ مطالبہ پورا ہو۔ نیز ہندوستان کی ان دیگر ریاستوں میں جہاں کے باشندوں کی بڑی تعداد غیر ملکوں میں کام کرتی ہے کو بھی اپنی ریاست میں این آر آئیز امور کی ا یک وزارت قائم کرنا چاہئے ۔ اس سے نہ صرف این آر آئیز کے مسائل تیزی سے حل ہوں گے بلکہ ریاست میں بیرونی سرمایہ کاری کو بھی فروغ ملے گا۔