مودی کے اسرائیل میں سیر سپاٹے
مسلم نفسیات پر حملہ کی کوشش
رشیدالدین
جب دو ہم خیال اور ہم مشرب شخصیتوں کی ملاقات ہو تو ان کا جذبات سے بے قابو ہونا یقینی ہے۔ کچھ اسی طرح کا منظر یروشلم میں دو وزرائے اعظم کی ملاقات کے موقع پر دیکھا گیا۔ دو بچھڑے ہوئے بھائیوں کی طرح نریندر مودی اور بنجامن نتن یاہو ایک دوسرے سے بار بار بغلگیر ہوتے ہوئے وابستگی اور ذہنی ہم آہنگی کا اظہار کر رہے تھے ۔ گزشتہ تین برسوں میں مودی نے 40 سے زائد ممالک کا دورہ کیا لیکن دورۂ اسرائیل کا جس طرح انہوں نے لطف اٹھایا ، شائد ہی کسی اور ملک میں انہیں اس قدر اپنائیت کا احساس ہوا ہو۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مودی۔نتن یاہو بے قصور افراد کی ہلاکتوں اور خونی کھیل کے ماہر ہیں اور جب اس طرح کے ہم مشرب ، ہم پیالہ اور ہم نوالہ افراد کی ملاقات ہوتی ہے تو اس کے نتائج بھی سنگین ہوسکتے ہیں۔ 70 سال میں پہلی مرتبہ کسی ہندوستانی وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا اور یہ دورہ اپنے آپ میں ہندوستان کے موجودہ حالات کے پس منظر میں کئی اشارے دیتا ہے۔ تین روزہ دورہ میں دونوں ممالک کے درمیان کن شعبہ جات میں معاہدات ہوئے اور تعلقات کے استحکام سے ہندوستان کو کیا فائدہ ہوگا، اس کے قطع نظر ہم اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ جو کام 70 برسوں میں کسی وزیراعظم نے نہیں کیا ، نریندر مودی نے دورہ اسرائیل کی ہمت کس طرح کی۔ یہ دورہ کیا دیگر ممالک کی طرح خالصتاً سفارتی نوعیت کا تھا یا مودی کے دورہ کے پس پردہ ملک کی سیاست کیلئے کوئی نئی منصوبہ بندی ہے؟ مودی اور نتن یاہو کئی اعتبار سے ایک دوسرے کے فطری حلیف ہیں۔ دونوں کے دامن پر معصوم و بے گناہوں کے خون کے دھبے ہیں۔ ادھر گجرات تو وہاں فلسطین میں دونوں کی ناک نیچے بے گناہوں خون بہایا گیا۔ شائد اسرائیل کو بھی ایسے تجربہ کار شخص کی آمد کا انتظار تھا۔ مودی کے دور چیف منسٹری میں گجرات میں 3500 سے زائد بے گناہوں کی ہلاکت کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ وزیراعظم کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد بھی ملک میں مختلف عنوانات کے تحت خونی کھیل جاری ہے۔ دردناک بات تو یہ ہے کہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں زعفرانی دہشت گرد مسلمانوں اور دلتوں کے خون کے پیاسے بن چکے ہیں اور مودی خاموش تماشائی ہے ۔ جب کبھی مودی نے ہلاکتوں پر اظہار افسوس کیا ، اس سے واقعات میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا۔ ہر مذہب میں جاندار سے ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے لیکن انسان کے تقدس کی اہمیت زیادہ ہے۔ یہاں مودی راج میں تو جانور کے نام پر انسانوں کو سرعام جانوروں کی طرح مار مار کر ہلاک کیا جارہا ہے ۔ نتن یاہو بھی معصوم فلسطینیوں پر مظالم کے چمپین مانے جاتے ہیں ۔ دورہ کے آغاز سے قبل ہی دونوں طرف کا حال شادی کے گھروں کی طرح تھا جہاں نئے رشتے کی خوشی منائی جاتی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ نتن یاہو نے یہ جملہ ادا کیا کہ ہند۔اسرائیل دوستی آسمان پر بنی ہے۔ رشتے تو آسمان پر طئے ہوتے ہیں، یہ جملہ ازدواجی رشتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے لیکن نتن یاہو نے اسے ہندوستان سے دوستی سے مربوط کردیا۔ مودی اسرائیل میں تمام کام بے خوف اور بے فکری کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ بے روک ٹوک ، بلا جھجھک پروٹوکول کی پرواہ کئے بغیر بغلگیر ہونا مودی کی باڈی لینگویج بتارہی تھی جیسے وہ اپنوں کے درمیان آچکے ہیں ۔ الغرض مودی نے تین دن تفریح کی طرح گزارے اور ہر لمحہ کا بھرپور لطف اٹھایا۔
ظاہر ہے کہ ایک ذہنیت کے حامل یا ایک ہی فن کے ماہرین ایک جگہ جمع ہوجائیں تو بے تکلفی کا ماحول بن جاتا ہے ۔ مودی نے اکثر و بیشتر ایک سے زائد ممالک کا دورہ کیا ، صرف ایک ملک کے دورہ کی مثالیں کم ہیں۔ اسرائیل سے وہ جی 20 کانفرنس میں شرکت کیلئے روانہ ہوئے ۔ فلسطینی کاز سے ہندوستان کے دیرینہ تعلقات کی پرواہ کئے بغیر مودی نے صیہونی مملکت کا دورہ کیا ۔ انہیں فلسطین کاز اور آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے نہتے فلسطینیوں سے ہمدردی ہوتی تو وہ فلسطین کا بھی دورہ کرتے ۔ وہ صیہونی حکمرانوں کو ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ مودی نے یروشلم کی ہوٹل سے نتن یاہو کے ساتھ مسجد اقصیٰ کا دور سے نظارہ کیا۔ شائد نتن یاہو نے ہوٹل کی کھڑکی سے مسجد اقصیٰ کو بتاتے ہوئے کہا ہوگا کہ یہ ہمارا اگلا نشانہ ہے اور اس پر کنٹرول باقی ہے۔ مودی اگر چاہتے تو سرحد پار فلسطینیوں کی آہیں انہیں سنائی دے سکتی تھی لیکن مودی کو تو صرف اسرائیل کی فکر تھی۔ دورہ کے موقع پر اسلامی ممالک کا کوئی خوف یا اثر مودی پر نہیں دیکھا گیا۔ اس صورتحال کے لئے مسلم حکمراں اور ممالک ذمہ دار ہیں۔ تمام عرب اور مسلم ممالک ان دنوں اسرائیل پر مہربان ہیں اور تقریباً تمام نے اس کے ساتھ تعلقات قائم کرلئے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آزاد مملکت فلسطین اہم ایجنڈہ ہے، مسلم حکمرانوں کا ایجنڈہ تبدیل ہوچکا ہے۔ اب تو عرب ممالک فلسطینیوں کی امداد اسرائیل اور امریکہ کے خوف سے بند کرچکے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں آزادی کا مطالبہ کرنے والے دہشت گرد ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل جس کسی پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کردیں ، کسی مسلم ملک کی کیا مجال کہ اس کی سرپرستی یا مدد کریں۔ تمام مسلم ممالک عملاً اسرائیل کے آگے سرینڈر ہوچکے ہیں۔ اگر ان کا خوف ہوتا تو جو کام 70 سال میں نہیں ہوا ، اس بار بھی نہ ہوتا۔ یا پھر مودی کم از کم فلسطین کا بھی دورہ کرتے ۔ مسلم ممالک کو فلسطینی کاز سے ہٹاکر برادرکشی میں مصروف کردیا گیا ہے ۔ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوچکے ہیں۔کئی ممالک نے اپنے ہی ہاتھوں خون مسلم بہایا جارہا ہے۔ حیرت تو ایران کے موجودہ حکمرانوں پر ہے ، جنہوں نے ہر سال فلسطینی کاز کی تائید میں جمعۃ الوداع کو یوم القدوس منانے کی روایت کو اچانک ترک کردیا۔ انقلاب اسلامی کے رہنما آیت اللہ خمینی نے فلسطینی کاز کی حمایت میں ہر سال یوم القدس منانے کا اعلان کیا تھا۔ سارے ایران اور دنیا بھر میں اس کے سفارتخانوں میں اس کا اہتمام کیاجاتا رہا لیکن آیت اللہ خمینی کے روشن کردہ چراغ کو ایران کے موجودہ حکمرانوں نے بجھادیا ہے۔ ایران ہمیشہ اسرائیل کی مخالفت میں پیش پیش رہا لیکن آخر کیا وجہ ہوگئی کہ علامتی تائید بھی ترک کردی گئی۔ جب ایران کی بے رخی کا یہ عالم ہے تو غیروں سے کیا شکوہ کیا جاسکتا ہے۔ قبلہ اول کے بارے میں یہ بے حسی کسی زندہ قوم کی علامت نہیں ہے۔
مودی نے اسرائیل میں سنگھ پریوار کے جذبات کا بھی مکمل خیال رکھا ہے ۔ انہوں نے بیت اللحم کا دورہ نہیں کیا جوکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اہمیت کا حامل ہے ۔ دراصل ہندوستان میں عیسائی مشنریز کی تبدیلیٔ مذہب مہم سے سنگھ پریوار ناراض ہے اور اگر مودی بیت اللحم کا دورہ کرتے تو ہندوستان میں عیسائی مشنریز کے حوصلے اور بھی بلند ہوجاتے ۔ لہذا انہوں نے سنگھ پریوار کی ناراضگی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس اہم مقام کے دورہ سے بھی گریز کیا۔ ماہرین کی رائے میں داخلی اور خارجی سطح پر مسلمانوں کے کمزور موقف کا نتیجہ ہے کہ ہندوستانی حکومت اسرائیل کی دوستی میں اندھی ہوچکی ہے۔ ملک میں مسلمانوں کو اس قدر مرعوب اور خوف زدہ کردیا گیا کہ وہ ظلم کے خلاف مزاحمت کے موقف میں نہیں ہے ۔ قیادتوں کا حال بھی عجب ہے ، یا تو وہ مصلحتوں کا شکار ہیں یا پھر اپنی ساکھ کھوچکے ہیں۔ ایسے میں مودی سے کون سوال کرے گا۔ جہاں تک آزاد مملکت فلسطین کی تائید کا سوال ہے ، مسلم ممالک سے زیادہ جذبہ ہندوستانی مسلمانوں میں ہے ۔ مودی کا یہ دورہ اور ان کی تمام تر سرگرمیاں منصوبہ بند دکھائی دیتی ہیں تاکہ مسلمانوں کے جذبہ کو کمزور کیا جائے ۔ اسرائیل میں قادیانی رہنما سے مودی کی گرم جوشی اور قربت کا اظہار محض اتفاق یا رسمی نہیں ہوسکتا، وہ فرقہ جوخارج اسلام ہے اور بھولے بھالے مسلمانوں کو بے دین کرنے کی مہم پر ہے ، مودی نے انہیں مدد کا یقین دلایا ہے۔ دراصل اسرائیل کے دورہ کے ذریعہ مسلم نفسیات پر حملہ کی کوشش کی گئی تاکہ ایک زندہ قوم کو ذہنی طور پر مرعوب کردیا جائے۔ عالم اسلام کے موجودہ انتشار اور فلسطینی کاز سے عرب اور مسلم دنیا کی حبے حسی کا ہندوستانی مسلمانوں کو شدت سے احساس ہے۔ مسلمانوں کے بدترین دشمن اور ناجائز مملکت اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے مودی نے یہ پیام دینے کی کوشش کی کہ انہیں مسلمانوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں سنگھ پریوار اور بی جے پی یہی پیام دے رہی ہے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کے بغیر ہی کامیابی حاصل کی گئی۔ بی جے پی مسلمانوں میں احساس کمتری کے ساتھ دوسرے درجہ کا شہری بنانا چاہتی ہے۔ سابق میں وزرائے خارجہ کی حیثیت سے ایس ایم کرشنا اور سشما سوراج جبکہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔ ایس ایم کرشنا جو اب بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ بی جے پی ذہنیت حامل قائدین نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ وزراء کے دورہ کے بعد ہندوستان میں احتجاج سے نمٹنے کیلئے خاردار رکاوٹوں کو متعارف کیا گیا ۔ کشمیر میں امن و ضبط سے نمٹنے کیلئے اسرائیل کی ٹکنک استعمال کی جارہی ہے ۔ بی جے پی کی ذہنیت اب مختلف ریاستوں تک پھیل چکی ہے۔ صدارتی عہدہ کیلئے بی جے پی امیدوار رامناتھ کووند جنہوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف زہر افشانی کی تھی، ان کے آگے تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر نے مسلم ارکان قانون ساز کونسل کو پیش کردیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مسلمان بھی ساتھ ہیں۔ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو کس طرح استعمال کرنا ہے اچھی طرح جان چکی ہیں۔ مودی۔نتن یاہو ملاقات پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے