میں من کی بات بہت من لگاکے سنتا ہوں

 

اچھے دن …ابتر معیشت… عوام بدحال
بی جے پی میں مخالف مودی آوازیں

رشیدالدین
اچھے دن کا نعرہ عام آدمی کیلئے ایک گالی بن چکا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں اسی نعرہ نے نریندر مودی کو اقتدار تک پہنچایا تھا ۔ نعرے ، جملے بازی اور عوام کو خواب دکھاکر گجرات سے دہلی کا سفر طئے کرنے والے نریندر مودی بھی شائد نعرے اور جملے بازی بھول چکے ہیں۔ تین برسوں میں عوام نے اچھے دن کا انتظار کیا لیکن مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔ مودی اور بی جے پی کے اقتدار میں ایسا نہیں ہے کہ اچھے دن نہیں آئے۔ بی جے پی سے قربت رکھنے والے صنعتی گھرانوں کیلئے اچھے دن آئے۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کیلئے اچھے دن آئے لیکن جن کیلئے یہ نعرہ لگایا گیا تھا، ان کے دن اور بُرے ہوگئے۔ ملک کی خوشحالی کا انحصار مستحکم معیشت پر ہوتا ہے۔ معیشت کمزور ہوجائے تو ہر شعبہ اس کے منفی اثرات کی زد میں آتا ہے ۔ ایک مشہور ترین شاعر نے کہا کہ دیش کا مطلب مٹی نہیں بلکہ دیش کا مطلب انسان ہے۔ ہر حکمراں دیش کا مطلب سمجھ جائیں تو کوئی خاندان غریب نہیں رہے گا۔ افسوس کہ آج کے حکمرانوں نے دیش کا مطلب نہیں سمجھا۔ ان کے نزدیک صنعتی و تجارتی گھرانے ہی سب کچھ ہیں۔ اچھے دن اور سب کا وکاس کے سپنے دکھانے والے مودی تین برسوں میں محض سپنوں کے سوداگر بن کر رہ گئے ۔ بگڑتی معاشی صورتحال نے ان کے نعروں کو بھلا دیا ۔

کالا دھن کی واپسی، ہر ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے ، ہر سال دو کروڑ روزگار اور اس طرح کے لاتعداد نعرے لگائے گئے لیکن تین برسوں میں حالات مزید ابتر ہوگئے ۔ یو پی اے دور میں مہنگائی کے خلاف مورچہ نکالنے والے مودی آج کے حالات اور مہنگائی پر یقیناً شرمندہ ہوں گے لیکن آمرانہ طرز حکمرانی نے اعتراف گناہ سے روک دیا۔ نوٹ بندی کی مار سے عوام ابھی ابھر نہیں پائے تھے کہ جی ایس ٹی کے نفاذ نے ترقی کی رفتار کو روک دیا۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر جی ایس ٹی کا اثر نہ پڑا ہو۔ جی ایس ٹی کے بوجھ سے زندہ انسان تو متاثر ہیں ساتھ ہی مردوں کو بھی نہیں بخشا گیا ہے کیونکہ کوئی سامان ایسا نہیں جو اضافی ٹیکس کے سبب مہنگا نہ ہوا ہو۔ نریندر مودی جو خود کو چائے والا ظاہر کرتے ہوئے عوامی ہمدردی لوٹتے رہے لیکن اقتدار میں آتے ہی ہر شہری کو غربت کے قریب کردیا۔ شائد وہ ہر شخص کو غریبی کا مزہ چکھانا چاہتے ہیں۔ کسی نے کیا اچھی بات کہی کہ ’’مودی نے دنیا کو سکھایا کہ جھوٹ بولیں تو ویژن بڑا ہونا چاہئے‘‘۔ یہ وہی مودی ہیں جنہوں نے جی ایس ٹی کی مخالفت کی تھی لیکن آج تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے ملک کی معیشت کو اتھل پتھل کردیا ہے اور اس سے ابھرنا مستقبل قریب میں ممکن نہیں۔ ایسی حکومت کس کام کی جو عوام کی خوشحالی کا ذریعہ نہ بن سکے۔ جب تک عام آدمی کے چہرے پر خوشی اور بحالی نہ ہو کسی بھی حکومت کو کامیاب نہیں کہا جاسکتا۔ عوام دشمن فیصلوں پر مودی بھکت بھلے ہی خاموش ہوں لیکن عوام کے درد کو محسوس کرنے والے ماہرین معاشیات نے روبہ زوال معیشت کا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے حکومت کو آئینہ دکھایا ہے۔ بی جے پی کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ سابق مرکزی وزیر فینانس یشونت سنہا نے مودی بھکتوں کو ابتر معاشی صورتحال پر چیلنج کردیا۔

آر ایس ایس کی لیبر تنظیم بھارتیہ مزدور سنگھ اور بی جے پی کے اسٹار کیمپینر شتروگھن سنہا نے بھی یشونت سنہا کے موقف کی تائید کی۔ یشونت سنہا نے جب معیشت کو زوال پر لیجانے کیلئے ارون جیٹلی کو ذمہ دار قرار دیا تو بی جے پی تلملا اٹھی۔ ارون جیٹلی حکومت کے بچاؤ میں کود پڑے اور یشونت سنہا کے فرزند کو بھی والد کے خلاف میدان میں اتارا گیا۔ جیٹلی ہمیشہ کی طرح اعداد و شمار کے ذریعہ معیشت کو مستحکم ثابت کرنے لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمرتوڑ مہنگائی اور متوسط طبقات کی زندگی سے خوشحالی کی کمی ابتر معاشی صورتحال کا ثبوت ہے۔ معاشی صورتحال کے بارے میں جھوٹ کا سہارا لیکر کچھ لوگوں کو ضرور دھوکہ دیا جاسکتا ہے لیکن ملک کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔ ماہرین کے مطابق سابق میں کبھی بھی معیشت اس قدر ابتر نہیں ہوئی تھی۔ مودی نے معیشت کے استحکام کیلئے اچانک کئی ماہرین کی خدمات حاصل کرلی ہیں لیکن پہلے اس بات کا خلاصہ ہونا چاہئے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کا مشورہ کن ماہرین نے دیا تھا۔ کالے دھن کے نام پر نوٹ بندی کی گئی لیکن فائدہ کس کو ہوا ؟ کالا دھن تو واپس نہیں آیا لیکن بی جے پی سے قربت رکھنے والوں کو کالے دھن کو سفید کرنے کا موقع مل گیا۔ نوٹ بندی کو مذاق بنادیا گیا۔ اب تو 2000 کے نوٹ کی تنسیخ کی بات کی جارہی ہے۔ نوٹ بندی پر قائم کردہ کمیٹی کے صدرنشین چندرا بابونائیڈو نے حکومت کو یہ تجویز پیش کی ہے۔ پتہ نہیں کب اچانک مودی ٹی وی اسکرین پر اس اعلان کے لئے نمودار ہوجائیں۔ مودی نے 100 اور 500 کے نوٹوں کو چلن سے باہر کرنے کی طرح پارٹی کے دو سینئر قائدین کو سرگرم سیاست سے مارگ درشک منڈل بھیج دیا۔ نام تو مارگ درشک ہے لیکن وہ اس حق سے محروم ہے۔ اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو پارٹی میں انگشت ششم اور اسپینڈ فورس یعنی ازکار رفتہ بنادیا گیا ہے۔ وہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے فیصلوں سے بھلے ہی خوش نہ ہوں لیکن اظہار خیال کی جسارت نہیں کرسکتے۔ ویسے بھی 2019 ء کے لوک سبھا چناؤ میں پارٹی ٹکٹ مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اب تو حکومت کا حال یہ ہے کہ زندہ ہونے کے باوجود اٹل بہاری واجپائی کا نام ووٹر لسٹ سے نکال دیا گیا۔ حکومت کو نکتہ چینی کرنے والوں کے نام حذف کرنے کی بڑی عجلت ہے۔ واجپائی نے گجرات فسادات میں مودی کو راج دھرم نبھانے کی تاکید کی تھی۔ غلط پالیسیوں نے صنعتی شعبوں کی ترقی کو پٹری سے اتار دیا ہے۔ مودی نے تین برسوں میں آدھی دنیا کا سفر کیا لیکن بیرونی سرمایہ کاری کے حصول میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ۔ میک ان انڈیا کا نعرہ لگایا گیا لیکن یہ محض نعرہ ثابت ہوا۔ اگر تین برسوں میں ملک کے صنعت کاروں پر بھروسہ کیا جاتا تو ’’دیش کا کلیان‘‘ ہوتا۔

نریندر مودی نے جب سے اسرائیل کا دورہ کیا ہے، ان میں نمایاں تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ انہوں نے سیاسی جملے بازی اور وعدوںکے بجائے ترقی اور تعمیری سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کردی ہے۔ ان کی زبان پر معاشی ترقی اور مختلف ترقیاتی پراجکٹس کے سوا کچھ نہیں۔ ترقی کے بارے میں مودی کے نئے سپنوں سے خود اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی معیشت کی صحت ٹھیک نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ معیشت آئی سی یو میں ہے یا پھر جنرل وارڈ میں اس کا فیصلہ عوام کرسکتے ہیں۔ الفاظ کی جادوگری کے ذریعہ معیشت کو بہتر اور مستحکم ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دنیا میں اسرائیل وہ واحد ملک ہے جس نے اپنے دم پر ترقی کی اور دوسری طرف بنگلہ دیش ترقی پذیر ممالک میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نریندر مودی نے ان دونوں ممالک کے سربراہان سے کچھ سبق سیکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سیاسی مسائل پر اظہار خیال عملاً ترک کردیا۔ بنگلہ دیش نے انتہائی غربت کے باوجود میانمار کے لاکھوں پناہ گزینوں کیلئے امدادی کام انجام دیتے ہوئے خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا ہے۔ معیشت کو بہتر بنانے کیلئے ماہرین کی موجودگی کے باوجود ہندوستان کی نااہل اور نکمی سیاسی قیادت نے اسے زوال پذیر کردیا۔ اب تو مودی بی جے پی کے اجلاسوں میں بھی سیاست سے زیادہ ترقی کے ایجنڈہ پر بات کر رہے ہیں۔ سیاست ان کیلئے ثانوی درجہ میں پہنچ گئی ہے۔ اب جبکہ عام انتخابات کو دو سال باقی ہیں، مودی مزید ناراضگی سے بچنے کیلئے ترقی کے ایجنڈہ کو اختیار کر رہے ہیں اور جارحانہ فرقہ پرستی پر ان کی توجہ کم ہوچکی ہے۔ مودی کے من کی بات پروگرام کو تین سال مکمل ہوگئے اور گزشتہ پروگرام میں مودی نے حکومت کے کارناموں کو پیش کیا۔ پروگرام کا نام من کی بات ہے لیکن مودی نے کبھی بھی اس میں اپنے من کی بات نہیں کی بلکہ عہدیداروں کی لکھی تحریرکو پڑھ دیا۔ سلگتے مسائل پر کبھی بھی مودی کا من نہیں تڑپا۔ معاشی بدحالی اور گزشتہ دنوں کشمیر میں جوانوں کی ہلاکت پر مودی نے کچھ نہیں کہا۔ یہ دونوں جوان مسلمان تھے، جنہیں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ حب الوطنی کے دعوے کرنے والے وزیراعظم کے من کو جوانوں کی ہلاکت پر شائد کوئی صدمہ نہیں ہوا۔ دوسری طرف میانمار کے پناہ گزینوں کے بارے میں حکومت کی پالیسی کے خلاف بی جے پی کے اندر سے ایک اور آواز ورون گاندھی کی شکل میں اٹھی ہے ۔ ورون گاندھی جو خود کئی متنازعہ بیانات کے ذریعہ سرخیوں میں رہ چکے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے ، جب ان کا خاندانی خون تڑپ اٹھا اور انہوں نے سیکولرازم اور انسانیت کا حکومت کو درس دیا ہے ۔ ایسے وقت جبکہ مرکزی حکومت روہنگیائی مسلمانوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ ورون گاندھی نے ملک کی روایات اور پاسداری کی یاد دلائی ۔ بی جے پی میں رہنے کے باوجود موتی لال نہرو، پنڈت جواہر لال نہرو ، اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی اور سنجے گاندھی کے آبائی خون کو جوش آیا اور ان کی زبان سے آخرکار سیکولر بولی نکلی ہے۔ ان کے بیان کا حکومت کی پالیسی پر کس قدر اثر پڑے گا ، اس کے قطع نظر یہ بات طئے ہے کہ بی جے پی میں اس طرح کی کئی آوازیں ہیں لیکن انہیں اظہار خیال کی ہمت نہیں ہے۔ بی جے پی نے ورون گاندھی کے بیان کو ملک دشمنی سے تعبیر کیا ہے۔ ملک دشمنی کا لیبل لگانے والی بی جے پی کو چاہئے کہ وہ پہلے یہ واضح کرے کہ حب الوطنی اور ملک دشمنی کے معیارات اس کے نزدیک کیا ہیں۔راحت اندوری نے من کی بات پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
میں من کی بات بہت من لگاکے سنتا ہوں
یہ تو نہیں ہے تیرا اشتہار بولتا ہے