محبوب خان اصغر
پچھلے برس قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ( نئی دہلی ) اور اردو اکیڈیمی آندھرا و تلنگانہ نے مشترکہ طور پر ایک پروگرام ترتیب دیا تھا جس میں اردو کے بلند پایہ ظرافت نگار پدم شری ڈاکٹر مجتبیٰ حسین بہ نفس نفیس سامعین کے درمیان حاضر ہوئے تھے اور اپنے تخلیقی سفر سے متعلق بے حد اہم اور پُرمغز باتیں بتائی تھیں اور سامعین کے سوالات کے جوابات دیئے تھے۔ یہ اپنے طرز کا ایک انوکھا پروگرام تھا جس کا نام تھا ’’ تخلیق کار سے ملئے‘‘ اور امسال ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم و امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد سے موسوم مولانا آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ واقع باغ عامہ نامپلی کی جانب سے ایک خوبصورت شام کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں دلنشین اسلوب کے حامل مجتبیٰ حسین نے ایک بار پھر ’’ میں اور میری مزاح نگاری ‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا۔20اگسٹ بروز ہفتہ شام ساڑھے پانچ بجے یہ اجلاس منعقد ہوا تھا جس کی صدارت پروفیسر اشرف رفیع نے فرمائی جبکہ ممتاز دانشور و ماہر تعلیم پروفیسر ظل الرحمان ( علیگڈھ ) نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی تھی۔ ڈاکٹر سید مصطفیٰ کمال مدیر اردو ماہنامہ ’’ شگوفہ ‘‘ نے اجلاس کی کارروائی چلائی اور اپنی خیر مقدمی تقریر میں جناب ظل الرحمن کو متعارف کرواتے ہوئے کہا کہ اس مایہ ناز ہستی نے طبی کانفرنس کے سلسلے میں حیدرآباد میں قدم رنجا فرمایا ہے۔ اردو کے عشاق میں آپ کا شمار ہوتا ہے، ابن سینا اکیڈیمی کے بانی و صدر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ موصوف نے طب کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں اور یونانی طریقۂ علاج کے زبردست حامی ہیں۔ سائنسی اور طبی موضوعات پر آپ کی تقریباً پچاس تصانیف ہیں۔ شعر و شاعری سے شغف رکھتے ہیں۔ ان کی نجی لائبریری میں غالب ہی غالب ہیں۔ اجلاس کے روح رواں ڈاکٹر مجتبیٰ حسین سے متعلق ڈاکٹر مصطفی کمال نے بتایا کہ رواں سال مجتبیٰ حسین کے تخلیقی سفر کا 54 واں سال ہے۔ چار سال قبل اخبار روز نامہ ’سیاست‘ کے زیر اہتمام مجتبیٰ حسین کے تخلیقی سفر کی نصف صدی منائی گئی تھی۔ انہوں نے اپنی خیرمقدمی تقریر میں بتایا کہ مجتبیٰ اپنی زندگی کے ابتدائی زمانے میں اورینٹ ہوٹل سے لے کر پرانے شہر تک معروف ہوگئے تھے محلوں میں اُن کا مذاق اور لطیفہ گوئی کی وجہ سے ان کا حلقہ احباب وسیع تر ہوتا گیا۔ مجتبیٰ حسین کے بڑے بھائی محبوب حسین جگر صاحب نے ان کے اندر ایک فنکار کو دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے ’سیاست‘ کے لئے ’’شیشہ و تیشہ ‘‘ کالم لکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت تک مجتبیٰ حسین نے کوئی مضمون یا کالم نہیں لکھا تھا۔ اپنے بڑے بھائی کی خواہش پر انہوں نے باتوں کو تحریری انداز دیا۔ دو سال تک کالم لکھا، اس کے بعد ایک مضمون بعنوان ’’ غالب کے ہم طرف دار ہیں ‘‘ لکھا جو ماہنامہ ’ صباء ‘ میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے سلسلۂ خطاب جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ 1966 میں طنز و مزاح کی عالمی کانفرنس حیدرآباد میں منعقد ہوئی تھی اس کے اصل محرک مجتبیٰ حسین تھے ۔ اس عہد کے اعلیٰ سے اعلیٰ ظریفانہ ذوق کی حامل شخصیتوں کو محض اپنے روابط کی بنیاد پر ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ۔ اس اعتبار سے بھی یہ کانفرنس بڑی اہمیت کی حامل رہی کہ نوواردوں میں اعتماد جاگا اور طنز و مزاح کو وقار حاصل ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ مزاحیہ محافل میں سامعین نثری جملوں پر داد دیتے تھے اور مکرر سنا کرتے تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مجتبیٰ حسین نے دو درجن سے بھی زیادہ کتابیں رقم کی ہیں۔ مختلف جامعات کے ریسرچ اسکالرس نے مجتبیٰ حسین پر پی ایچ ڈی کی ہے اور ایم فل کے لئے مقالے تسوید کئے ہیں جو ادب میں اہم اضافہ ہیں۔ ڈاکٹر مجتبیٰ حسین نے اپنی گفتگو کا آغاز داغ کے اس شعرسے کیا ؎
ہوش و حواس تاب وتواں داغ جاچکے
اب ہم بھی جانے والے ہیںسامان تو گیا
انہوں نے اپنے مخصوص لب ولہجے میں کہا کہ آدمی کو کبھی کبھی مُڑ کر دیکھ لینا چاہیئے۔ وہاں کچھ نظر آئے یا نہ آئے اس اکسرسائز سے اس کی گردن ٹھیک رہتی ہے۔ اپنے تخلیقی سفر کی بابت انہوں نے بتایا کہ 12اگست 1962 کو وہ دفتر ’سیاست‘ پہنچے۔ محبوب حسین جگر صاحب اور عابد علی خاں صاحب بانی اردو روز نامہ ’سیاست‘ نے حکم صادر فرمایا کہ طنزیہ کالم ’شیشہ و تیشہ ‘ لکھیں۔ انہوں نے کام چلانے کے لئے حکم کی تعمیل کی اور یہی کام چلاؤ کام ان کی ادبی زندگی کا بنیادی کام بن گیا اور آگے چل کر یہی بنیادی کام ان کی شناخت بن گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ادبی زندگی کا آغاز کالم نگاری سے ہوا جو پندرہ برس تک جاری رہا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کالم نگاری کو ایک برس بھی نہ گذرا تھا کہ مولانا عبدالماجد دریابادی جیسے صاحب ِ طرز ادیب نے اپنے اخبار’ صدق جدید ‘ میں 1962 میں لکھا کہ روز نامہ ’سیاست‘ خاصا سنجیدہ، شریفانہ، پُرمغز اور معقول اخبار ہے اور اپنا ظریفانہ کالم خوب نبھائے ہوئے ہے ورنہ لوگ ظرافت اور توہین، دل آزاری اور پھکو پن کے درمیان فرق کو ہی نظر انداز کردیتے ہیں۔ اس حوصلے نے انہیں رپور تاژ‘ سفر نامے‘ محفلوں کی روداد اور خاکے لکھنے میں بڑی مدد کی۔ مجتبیٰ حسین نے کہا کہ ہمارا معاشرہ دن بہ دن تیز رفتار اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ زندگی کی خوش گواریوں‘ نزاکتوں اور لطافتوں کو فراموش کرتا جارہا ہے۔ آج سچے مہذب اور مخلص انسان کی بازیافت ضروری ہے اور مزاح نگار اس سمت میں کام کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہنسی ساری دنیا میں انسانوں کی مادری زبان ہے۔ انسان چاہے انگریزی بولے‘ تلگو بولے‘ فرانسیسی بولے‘ مگر ہنستا ایک ہی طرح ہے۔ کائنات میں انسان ہی ایک ایسا جانور ہے جسے قدرت نے ہنسی کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ دنیا کے مدوجزر اور نشیب و فراز کا گہراشعور رکھنے والے مجتبیٰ حسین نے کہا کہ دنیا کے مسائل کا حل دولت کی مساویانہ تقسیم میں نہیں بلکہ ہنسی کی مساویانہ تقسیم میں موجود ہے۔ جب تک انسان کو اس کے حصے کی ہنسی نہ مل جائے،دھرتی پر دائمی امن و سکون قائم نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے آج کے سیاسی تناظر میں نہایت بلیغ باتیں بتائیں اور کہا کہ امریکہ کبھی عراقیوں کی ہنسی پر قابض ہوجاتا ہے تو کبھی افغانیوں کی ہنسی کو ہڑپ کرلیتا ہے۔ حادثات کی جو موجِ خوں ہمارے سر سے گذر رہی ہے ایک سچا اور مخلص فنکار اس سے صرف نظر نہیں کرسکتا چناں چہ ہمارے عہد کے نامی گرامی مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے افراتفری اور بحرانی کیفیت کو اپنی گفتگو کا موضوع بناتے ہوئے کہا کہ آج زندگی میں انحطاط اور زوال کی وجہ سے معیارات کی بقاء کا سوال اُٹھ کھڑا ہے۔ زندگی کی بنیادی قدریں متزلزل ہوچلی ہیں۔ لکھنے والوں کے لئے یہ موضوعات بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ مجتبیٰ حسین نے اپنی تحریر اور زبانی تقریر سے اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں مزاح لکھتے ہوئے نصف صدی گذر گئی ہے اور زبانی خرچ کو برتتے ہوئے پچھتر برس بیت گئے ہیں۔ لیکن اس سفر میں انہوں نے اپنی ظرافت کو اپنی یا کسی اور کی کم ظرفی سے آلودہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ مزاح نگاروں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جارہاہے جو ہمارے سماج میں نچلی ذات اور دلتوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ طنز و مزاح کو دوسرے درجے کا ادب متصور کئے جانے پر انہوں نے کہا کہ طنز و مزاح سے معمور وشستہ ، شگفتہ اور برجستہ جملے لکھنا کسی سنجیدہ تحریر کے دو صفحے لکھنے سے بھی کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ سرِدست انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی مزاحی تحریر اپنے پڑھنے والے کے لئے فوراً شگفتگی اور خوشی کا تاثر پیدا نہ کرے تو پڑھنے والے خود مزاح نگار پر ہنسنے لگتے ہیں۔ مجتبیٰ حسین کی دانست میں جدید طنز و مزاح کا آغاز غالب کے خطوط سے ہوتا ہے۔ غالب سے لے کر مشتاق احمد یوسفی طنز و مزاح کے نقطہ عروج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی معاشرے کی ہنسی اس کی تہذیب کی ارتقاء کی علامت ہے اور رونے کے لئے اتناشعور درکار نہیں ہوتا جتنا کہ ہنسنے کے لئے درکار ہے۔
انہوں نے آج کے دور کو دورِ یوسفی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ مشتاق احمد یوسفی بہت بڑے مزاح نگار ہیں۔ ان کے ہاں جو اہتمام ملتا ہے وہ شاید ہی کسی اور کے ہاں مل سکے۔ایک جملہ متعدد دفعہ لکھتے ہیں۔ کاما‘ فُل اسٹاپ تک کا وہ خیال رکھتے ہیں۔ اچھوتے جملے اور بات سے بات نکالنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شوکت تھانوی کی 110کتابیں ہیں جب کہ پَطرس بخاری 110 صفحے ہی لکھ سکے لیکن جو مرتبہ ادب میں پَطرس کا ہے وہ کسی اور کا نہیں ہوسکتا۔ ابنِ انشاء نے بے تکان اور بے ساختہ لکھا اور وہ انشاء کے قائل ہیں۔ مہلک مرض میں مبتلا ہوجانے کے باوجود وہ آخری سانس تک لکھتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ حیدرآباد کو پسند کرتے ہیں اور دلّی والے انہیں پسند کرتے ہیں۔ دلّی کے لئے ان کا پابہ رکاب ہونے میں کرشن چندر کی کوششوں کو بڑا دخل ہے۔ اندر کمار گجرال کا قُرب بھی انہیں حاصل رہا۔
انہوں نے بتایا کہ دلّی کا قیام ان کی زندگی میں اہمیت رکھتا ہے۔ وہیں انہوں نے زندگی کی وسعتوں اور رنگینیوں کو دیکھا۔ اجتماعیت سے روشناس ہوئے۔ سیاسی‘ سماجی‘ علمی‘ معاشی اور ادبی پہلوؤں سے آشنا ہوئے۔ پھلنے پھولنے اور اپنے فن کے اظہار کے مواقع بھی خوب ملے۔ مشاہیر سے ملاقاتیں رہیں۔ راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، آئی کے گجرال جیسی نابغہ روزگار ہستیوں نے ان کے فن اور زندگی کو جِلا بخشی۔
مجتبیٰ حسین نے بتایا کہ دنیا میں اب ایسی کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے۔ ارسطو اور افلاطون سے لے کر آج کے مشاہیر تک سب نے اپنے اپنے ڈھنگ سے ساری باتیں کہہ دی ہیں۔ اب بات کی اہمیت نہیں رہ گئی۔ اہمیت اس بات کی رہ گئی ہے کہ آپ کس ڈھنگ سے اپنی بات کہتے ہیں۔
مہمانِ خصوصی ظل الرحمان نے اپنی تقریر میں کہا کہ انہوں نے بمبئی، دلّی، پاکستان اور دوسری ریاستوں میں سینکڑوں سمیناروں اور جلسوں میں شرکت کی لیکن پڑھے لکھے لوگوں کا اتنا بڑا مجموعہ کہیں نظر نہیں آیا۔ یہ مزاح نگار مجتبیٰ حسین سے محبت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مشتاق احمد یوسفی اور احمد ندیم قاسمی بھی مجتبیٰ حسین کا نام بڑے ہی احترام سے لیتے ہیں۔ انہوں نے مجتبیٰ حسین سے اپنے روابط کا ذکر کیا اور کہا کہ تحریروں کے حوالے سے برسوں سے جانتے ہیں، بہ نفس نفیس آج ملے ہیں۔ انہوں نے حیدرآباد دکن کو طنز و مزاح کی راجدھانی کہا۔
پروفیسر اشرف رفیع نے اپنے صدارتی خطاب میں بیرونی سیاح کا ذکر کیا جو حیدرآباد کے تاریخی عمارتوں کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں تو مجتبیٰ حسین کی کشش انہیں ان کے گھر تک کھینچ لاتی ہے۔ انہوں نے یہ تجویز رکھی کہ مجتبیٰ حسین کے نجی حالات پر بھی ایک مقالہ لکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مجتبیٰ حسین کو علمی اور ادبی گھرانے کا پروردہ بتایا اور کہا کہ محبوب حسین جگر، ابراہیم جلیس جیسی اعلیٰ مرتبت شخصیتیں ان کے شعور کی نشوونما میں اہمیت رکھتی ہیں۔ یہیں سے ان کی شخصیت نکھری اور فن سنورنے لگا تھا۔ مجتبیٰ حسین نے زندگی کے ہر پہلو کو شدتِ احساس سے دیکھا ہے اور اپنی ساری صلاحیتوں کو اپنی ظرافت آمیز تحریروں میں سمو دیا ہے۔ ان کی تحریریں متنوع کیفیات‘ جذبات اور احساسات کی مظہر ہیں۔ زبان پر انہیں قدرت حاصل ہے۔ اردو زبان کا اتنا بڑا فنکار آج ہمارے درمیان ہے اس پر ہمیں فخر حاصل ہے۔ ڈاکٹر سید مصطفی کمال نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم بچوں کو اردو میڈیم نہیں دے سکتے تو اردو کو ایک مضمون کے طور پر ضرور پڑھائیں ورنہ ایک بڑے سرمایے سے وہ محروم ہوجائیں گے۔ سماجی مسائل سے آگہی کے لئے اردو زبان سے واقف ہونا ضروری ہے۔
مولانا آزاد اورینٹل ریسرچ سنٹر تنگ دامنی کا شکوہ کررہا تھا۔ اس اجلاس میں ادباء ‘شعراء‘ سیاسی اور سماجی حیثیت کی حامل شخصیتیں موجود تھیں۔ مختلف جامعات کے اساتذہ، طلباء اور ریسرچ اسکالرس کی ایک بڑی تعداد دیکھی گئی۔ یہ پُرکشش محفل ٹھیک نو بجے اختتام کو پہنچی۔