میگھالیہ ۔پیسوں کی ضرورت نے غیر قانونی کان میں جانے پر مجبور کیا‘ ماں کو چھوٹے بیٹے کے زندہ لوٹنے کی امید

میگھالیہ کی کوئلہ کی کان میں پچھلے تین ہفتوں سے پندرہ مزدور پھنسے ہوئے ہیں۔ اتنے دن بعد اس میں کسی کے زندہ ہونے کی امید کم ہے۔انتظامیہ اور ہنگامی حالات میں کام کرنے والا عملہ بچاؤ اور راحت کاری میں لگا ہوا ہے لیکن کان میں پھنسے لوگوں میں سے ایک کی ماں کواپنے بیٹے کے زندہ ہونے کی امید کم ہوتی جارہی ہے۔

گوہاٹی۔ میگھالیہ کے مشرقی جانتیا ہلز ضلع کے غیر قانونی کانکنی میں تقریبا تین ہفتوں سے پندرہ مزدو ر پھنسے ہوئے ہیں۔ انہیں باہر نکالنے کے لئے مہم تو چل رہی ہے لیکن کوئی بھی کامیابی نظر نہیںآرہی ہے۔

حکومت نے اس کے پیچھے ایک بڑی وجہہ یہ بتائی ہے کہ کانکنی غیر قانونی ہونے کی وجہہ اس کا کوئی نقشہ نہیں ہے ۔

اندر پھنسے لوگوں میں سے ایک میگھالیہ کے مغربی ضلع کے گوری ہلز کے ماگو ر میری گاؤں کے رہنے والے عامر علی بھی ہیں۔

ان کی ماں اپنے بیٹے کے زندہ رہنے کی امید تک کھو چکی ہے۔ماں اومیلا بی بی بتاتی ہیں کہ عامر اپنے بھائیوں شرافت اور رضی علی کے ساتھ یکم ڈسمبر وک نکلا۔ انہیں نہیں لگتا ہے کہ وہ اب تک زندہ ہوگا۔وہ کہتی ہیں’ وہ سب اب تک مرچکے ہونگے ۔22دن ہوگئے ہیں۔

پانچ دن قبل ہم سے کہاگیاتھا ‘ حکومت نعش لائے گی ‘ میں اب بھی انتظار کررہی ہوں ۔ ہمیں نہیں پتہ کہ سرکاری ہماری مدد کرے گی یا نہیں‘۔ عامر نے اپنے دو بہنوں کی شادی اسی طرح سے کردی۔ ان کی ایک بہن ‘ ماں او ربھائی گھر پر ہیں ۔

وہ زمین خریدنے گھر بنانے کے بارے میں سونچ رہے تھے۔عامرنے بیس سال کی عمر سے غیر قانونی کانکنی کرنے کاکام شروع کردیاتھا۔

وہ اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنا گھر چلانے کے ان کانوں میں کام کیاکرتاتھا لیکن 13ڈسمبر کو جب وہ جینتی ہلز کی کان میں اترا اتنے سال کے تجربے اور دس سالوں کے کام کے تجربے سے بچاتے آرہی قسمت دونوں کام نہیں ائے۔ وہ اپنے دو بھائیوں کے بشمول دیگر لوگوں کے ساتھ کان میں پھنس گیاہے۔

عامر نے دس سال قبل اپنے ایک او ربھائی صابر حسین کو بھی اس کام کی پیشکش کی تھی ‘ لیکن انہوں نے منع کردیاتھا۔

انہوں نے بتایا کہ’ والد کے انتقال کے بعدعامر کے اوپر خاندان کو پالنے کی ذمہ داری تھی۔وہ نوکری ڈھونڈ رہا تھا اور ایک دن ہمارے گاؤں موے حسین نام کا ایک شخص آیا۔ اس نے سبھی نوجوانوں کو ایک دلفریب نوکری کے متعلق جانکاری دی لیکن کام کیا کرنا تھا یہ نہیں بتایا۔

اس کے ساتھ جانے والا عامر پہلا شخص تھا وہ تیس تا چالیس ہزار روپئے ماہانہ کمانے لگا‘۔واضح رہے کہ 23دنوں کے بچاؤ اور راحت کاری کی مسلسل جدوجہد اور آپس پاس کے کانوں سے پانی نکالنے کی کوشش کے باوجود کوئی خاص اثر نہیں دیکھائی دے رہا ہے۔

غوطہ لگانے والے دل کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ بحریہ اور این ڈی آر ایف کے غوطہ خور بچاؤ کاکام شروع کرنے کے لئے خاص طور پر پانی کی سطح میں160فٹ سے کمی لاکر 100فٹ کرنا چاہتے ہیں۔

بتایاجارہا ہے کہ کوئلہ کی یہ کان کافی پرانی او رغیرقانونی ہے ۔ اس طرح کے کان میگھالیہ میں عام بات ہے۔

کوئلہ کی یہ کان ضرور ت سے زیادہ گہری ہونی کی وجہہ سے خطرنا ک ہوتی ہے۔ اس میں سے کوئلہ نکالنے کے لئے بانس کی بنی سیڑھی سے اندرجانا پڑتا ہے جس کی وجہہ سے اکثر حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔