با وفا صرف دو چار ہیں
ورنہ مطلب کے سب یار ہیں
میڈیا کی مودی ترجمانی
ہندوستان میں میڈیا نے اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کی بجائے ایک نیا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے اور وہ طریقہ ہے وزیر اعظم نریندرمودی کی خوشنودی حاصل کرنے کا ۔ ہر مسئلہ پر وزیر اعظم کوبڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ان کی مدح سرائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جارہی ہے ۔ بعض مرتبہ وہ باتیں بھی کہی جا رہی ہیں وہ مودی نے کہی نہ ہوں۔ نریندر مودی کے تعلق سے عوام میں جو الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں اور جو امیج ان کا بن رہا ہے اس کوصاف کرنے میں خود مودی یا بی جے پی قائدین سے زیادہ میڈیا سرگرم نظر آتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا بھی ایک دوسرے پر سبقت لیجانا چاہتا ہے تاکہ وہ وزیر اعظم کو خوش رکھے ۔ ملک میں فی الحال دادری میں ہوئے اخلاق کے قتل کے واقعہ پر سیاست چل رہی ہے ۔ ہر چھوٹا بڑا لیڈر اس کی مخالفت میں یا پھر کوئی زہریلے عزائم رکھنے والے اس کی بالواسطہ مدافعت میں بیان بازیاں کر رہے ہیں۔ جہاں سیاسی قائدین کی اکثریت دادری پہونچ کر اخلاق کے افراد خاندان سے ملاقات کر رہی ہے وہیں کچھ فرقہ پرست قائدین حملہ آوروں کے ساتھ کھڑے ہونے کیلئے کوشاں ہیں۔ کوئی اس حملہ کے الزام میں گرفتار کئے گئے افراد کوبچانا چاہتا ہے تو بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ ہندووں میں بندوق اور ریوالور تقسیم کرناچاہتے ہیں۔ انہیں کسی کی جان چلی جانے کا کوئی افسوس نظر نہیں آتا اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ خود ملک کے وزیر اعظم بھی اس مسئلہ سے خود کو لاتعلق رکھے ہوئے ہیں۔ کل بہار میں انتخابی جلسوں سے خطاب کے دوران وزیراعظم نے دادری واقعہ کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا ہے لیکن میڈیا نے یہ کہنا شروع کردیا کہ وزیر اعظم نے دادری مسئلہ پر خاموشی توڑدی ہے ۔ مودی نے صرف عمومی انداز میں یہ بات کہی کہ ہندو اور مسلمان مل کر ملک میں غربت کے خاتمہ کیلئے جدوجہد کرسکتے ہیں۔ یہ بات دادری مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتی ۔ نہ مودی نے اخلاق کے قتل کی مذمت کی ہے اور نہ اس کی طرح کی جنونی حرکتوں کو روکنے پر زور دیا ہے ۔ نریندر مودی اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں اور انہیں ملک کے بیشتر مسئلوں پر خاموشی اختیار کرنے کی عادت ہوچکی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کی ترجمانی میڈیا نے از خود حاصل کرلی ہے ۔
اس بار دادری واقعہ پر سارے ملک کے انصاف پسنداور اصول پسند لوگ فکرمند ہیں ۔ میڈیا کے بھی ذمہ دار گوشوں نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے ۔ مذمت تو دوسروں نے بھی کی ہے لیکن وہ اس واقعہ کو الگ انداز سے پیش کرکے فرقہ پرستوں کے عزائم کی تکمیل میں اپنا رول بھی ادا کرنے میں مصروف ہیں۔کچھ لوگ فرقہ پرستوں کو زہر گھولنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ دادری واقعہ نے ساری دنیا میں ہندوستان کا نام متاثر کردیا ہے ۔ دنیا کے بڑے بڑے اخبارات میں دادری واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے نریندر مودی حکومت کی خاموشی پر سوال اٹھایا گیاہے ۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ نریندر مودی حکومت نے جب سے اقتدار حاصل کیا ہے اس وقت سے سارے ہندوستان میں اقلیتوں کا جینا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ دنیابھر کے اخبارات اور ٹی وی چینلس نے اس واقعہ کو فرقہ وارانہ طور پر حساس نوعیت کا واقعہ قرار دیتے ہوئے پیش کیا ہے اور اس میں وزیر اعظم کی خاموشی پرسوال اٹھایا ہے۔ تاہم ہندوستانی میڈیا اس پر مودی کی شبیہہ کو صاف کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ سماج کے تئیں اپنی ذمہ داری کونبھاتے ہوئے اہم سوال حکومت کے سامنے پیش کرنے اور جواب طلب کرنے کی بجائے وزیر اعظم کی ترجمانی کا فریضہ ادا کرنے میں مصروف ہے ۔ وزیر اعظم نے دادری واقعہ پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے ۔ سی پی آئی کا کہنا ہے کہ وہ ایسے خاموش ہیں جیسے ملک میںکچھ ہواہی نہیںہے ۔ ان کا حواری میڈیا بھی ان کی خاموشی توڑنے کی بے بنیاد خبریں پیش کرتے ہوئے ان کا ترجمان بن رہا ہے ۔
وزیر اعظم نے کل بہار میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے صرف سیاست کی ہے ۔ انہوںنے مخالف جماعتوں اور ان کے قائدین کو موقع پرستانہ تنقیدوں کانشانہ بنایا اور صرف این ڈی اے کے حق میں ووٹ حاصل کرنے کی اپیل کی ہے ۔ ایک عمومی جملہ انہوں نے کہا کہ ہندو اور مسلمان متحد ہوکر ملک سے غربت کا خاتمہ کرسکتے ہیں لیکن میڈیا ان کی بڑھ چڑھ کر صفائی پیش کرنی شروع کردی ۔ انہوں نے کہیں بھی دادری واقعہ کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی ملک میں منافرت پھیلا رہے جنونیوں پر لگام کسنے کی بات کہی ۔ جہاں ملک کے صدر جمہوریہ نے تک اس واقعہ پر تشویش ظاہر کی ہے وہیں وزیر اعظم کو بھی اس پر واضح الفاظ میں بیان دینا چاہئے تھا ۔ لیکن وہ خاموشی توڑنے کوتیار نہیں ہیںاور عوام کے ذہنوںمیں جو سوال پیدا ہو رہے ہیں اس کے جواب میڈیا دینے کیلئے کوشاں ہیں جو قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔