نہ تم کو دشمنی ہم سے نہ ہم کو دشمنی تم سے
یہ کس نے تیغ نفرت کی ہمارے درمیاں رکھ دی
میڈیا کو غلام بنانے کی کوشش
الکٹرانک میڈیا ان دنوں سیاسی ، سرکاری ، قومی اور عوامی سطح پر متنازعہ بنتا جارہا ہے یا اس کو متنازعہ بنایا جارہاہے ۔ مرکز کی بی جے پی حکومت نے حالیہ یعقوب میمن کی پھانسی کی خبر اور اس پر تبصرے ٹیلی کاسٹ کرنے پر 3ٹی وی چیانلوں کو نوٹس جاری کیا اور اب حکومت تمام چیانلوں کیلئے ایک اڈوائیزری جاری کرنے پر غور کررہی ہے ۔ حکومت کی اڈوائیزری کے خلاف الکٹرانک میڈیا اور پیشہ صحافت کی اظہار خیال کی آزادی کو سلب کرنے کا اقدام قرار دیا جارہا ہے۔ میڈیا خاص کر ٹی وی چیانلوں کے تعلق سے ان دنوں عوام کے مختلف گوشوں میں متفرق رائے پائی جاتی ہے ۔ ٹی وی چیانلس ان دنوں خبروں کی رپورٹنگ نہیں کررہے ہیں بلکہ خبریں گھڑ رہے ہیں ۔ ایک 10 سکنڈ کی نیوز کو 30 منٹ کی بناکر پیش کرتے ہیں اور یہی نیوز دن بھر چلائی جاتی ہے ۔ اس سے عوام الناس کے خبروں کے حصول کی رفتار معیوب صورت اختیار کرجاتی ہے ۔ بہتر سے بہتر ٹی آر پی کیلئے الکٹرانک میڈیا کی آپسی جنگ یا مسابقت کے جذبہ سے بھی خبروں کی ترسیل اور پیشکش کو سنسنی خیز اور دل آزاد یا بعض اوقات توہین آمیز واقعات کا مرتکب سمجھا جاتا ہے ۔ بی جے پی حکومت نے ملک کے بڑے 3 ٹی وی چیانلوں کو جس خبر اور تبصرں کے خلاف نوٹس جاری کی ہے وہ یعقوب میمن اور ان کو پھانسی دیئے جانے کے تعلق سے صدرجمہوریہ کے رویہ ، سپریم کورٹ کے فیصلہ اور ہندوستانی جمہوری دستوری اصولوں کے تناظر میں تھے ۔ ان ٹی وی چیانلوں کی نشریات کو تحقیر عدالت کی تعریف میں متصور کرتے ہوئے صدرجمہوریہ اور عدلیہ کی خودمختاری اور اختیار تمیزی کا سوال اُٹھایا گیا ہے ۔ حکومت نے ان دنوں دستور ہند کے تحت بعض مطلب کے کام انجام دیتی ہے تو اسی دستور ہند کے تحت بعض غیرموافق اقدام بھی کرتی ہے ۔ اس کا رویہ اپنی پسند ناپسند کو عوام اور اس ملک کے جمہوری اداروں پر مسلط کرنا ہوتا ہے ۔ دستور ہند کے آرٹیکلس کے حوالے سے مختلف مرعات اور اظہارخیال کی آزادی دی گئی ہے ۔ تمام شہری اور خانگی اداروں کو دستور ہند کے دفعات کے دائرہ میں رہ کر اپنے اختیارات کے استعمال کی آزادی ہے مگر حکومت بعض اوقات دستور ہند کے آرٹیکلس سے ہٹ کر ماورائے دستور اتھارٹی بن جاتی ہے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ اخبارات کے لئے جو وصول و قوانین بنائے گئے ہیں ان سے ہٹ کر ٹی وی چیانلوں اور نشریات کے اداروں کے لئے بنائے گئے قواعد و قوانین تھوڑے سخت ہیں اس کی وجہ نشریات کے ذرائع ہندوستانی عوام کے وسائل ہوتے ہیں ۔ عوام کے وسائل کو ہی جس کو اسپکٹرم کہا جاتا ہے حکومت ہراج کے ذریعہ ٹی وی چیانلوں یا الکٹرانک میڈیا کو فراہم کرتی ہے ۔ اس عوامی ملکیت کو استعمال کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ وہ عوام تک خبررسانی کا فریضہ دیانتداری سے پورا کریں۔ معاشرہ میں امن و اماں کی برقراری کو یقینی بنانا اور دل آزاری یا گستاخانہ و تحقیر والے خبروں کی نشریات سے گریز کرنا ہوتا ہے مگر جہا ںتک اظہار خیال کی آزادی کا سوال ہے دیگر واقعات میں حکومت کوئی نوٹ نہیں لیتی صرف یعقوب میمن کی پھانسی اور صدرجمہوریہ و سپریم کورٹ کے رویہ پر سوال اُٹھایا جاتا ہے اور حکومت کی نیت پر ضرب لگائی جاتی ہے تو بی جے پی آر ایس ایس کے ذہین کے لوگ آگ بگولہ ہوجاتے ہیں ۔ ان دنوں ٹی وی چیانلوں کا رول بھی جماعت واری بنتا جارہا ہے جس سے مخالف حکومت چیانلوں اداروں پر عتاب نازل ہوتا ہے اس طرح کی کارروائیاں بلاشبہ میڈیا کی آزدی کو سلب کردینے کی کوشش کے مترادف ہوتی ہیں۔ مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے یعقوب میمن کے معاملہ میں ناراضگی کسی سے بھی ہو میڈیا پر غصہ نکالنا چاہا ہے ۔ ویسے تو یہ حکومت صحافت کی آزادی سے محبت کرنے کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہے لیکن اس کی ناراضگی اور عتاب کا شکار صحافت ہی ہوتی ہے ۔ جب بعض الکٹرانک چیانل تعصب پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ملک میں مذاہب کے درمیان تفریق پیدا کرنے والے تبصرے کرواتے ہیں تو حکومت ایکشن نہیں لیتی بلکہ حکومت اور اس کے ادارے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اس طرح سرکاری جانبداری سے جو خرابیاں پیدا ہورہی ہیں اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت ہی خرابیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے تو پھر عوامی اداروں کو آگے آنا پڑے گا ۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہر دستوری و جمہوری ادارہ و فرد اس کی ہاں میں ہاں ملائے تو سمجھو باقی سب غیرضروری ہے اور وہ اکیلی ہی کافی اور عقل کل رکھتی ہے ۔ ان دنوں نریندر مودی حکومت خود کو عقل کل تصور کررہی ہے تو صحافت یا میڈیا کو غلام بنانے کی بھی کوشش کررہی ہے ۔