میر کی شاعری

ڈاکٹر امیر علی
میر کا شمار اردو کے عظیم المرتبت شاعروں میں ہوتا ہے ۔ انھوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی ہے  ۔وہ دلی روایت کے بے مثل امین اور زبان و بیان کے عظیم نمائندے ، مخصوص رنگ و آہنگ کے منفرد ترجمان ہیں ۔ میر نے اپنے شاعرانہ مزاج کی بنا پر ایک ایسے طرز ادا کو جنم دیا جو زبان کے اعتبار سے صاف ، سادہ ، سلیس اور دلنشین تھا اور موضوع کے لحاظ سے بھی جذبات لطیف کا آئینہ دار ہے ۔ میر نے اپنے دل پر گزری ہوئی واردات کو سیدھی سادی اور عام بول چال کی زبان میں اس طرح ادا کیا ہے کہ ان کے اشعار پڑھتے ہی سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں ۔ یہ واردات وہ تھیں جو ہر دل پر گزر جاتی ہیں ۔ میر کو ’’شہنشاہ غزل‘‘ ’’یاسیت کے امام‘‘ اور خدائے سخن‘‘ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یاسیت کے زیر اثر میر نے اپنے اشعار میں ایسی فضا پیدا کردی ہے جس کا اردو شاعری میں جواب نہیں ۔

میر ازل سے ہی عشق کا جذبہ اپنے دل میں لیکر پیدا ہوئے تھے اور وہ سانس بھی لیتے تھے تو ان کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ عشق کی چھری ان کے قلب و جگر میں پیوست ہورہی ہے ۔ ان کے یہاں عشق کی بے انتہا ہے ۔ میر کے عشق میں سادگی ، تسلیم و رضا اور ادب و احترام ملتا ہے ۔ وہ کبھی بے ادب ہوتے ہیں اور نہ گستاخ ۔ والہانہ جذبات ، لطافت زبان و نزاکت الفاظ و بیان اور سوز و گداز میر کا مخصوص رنگ ہے ۔ میر کی طبیعت میں قدرت نے جو گداز رکھا تھا اور ان کی زندگی جس درد و الم سے بھری ہوئی تھی اس نے ان کی شاعری کو بھی سوز و گداز کا ایک پرکیف مرقع بنادیا ہے ۔ میر نے عشق سے بھری واردات ، ہجر و وصال اور دردو اثر کی کیفیت کو اپنے کلام میں پوری طرے سمودیا ہے ۔ وہ صنف غزل کو اس کے صحیح مزاج اور حسن ولطافت کے ساتھ اس طرح پیش کیا ہے کہ پوری اردو شاعری میں اس کا جواب نہیں  ۔چنانچہ میر فرماتے ہیں ۔
چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
میر تقی میر بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں ۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن تھی اور اس کے علاوہ میر نے دوسری اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ میر کی زندگی غموں کی المناک داستان ہے ۔ میر نے اپنی شاعری میں مایوسی اور ناامیدی کے الفاظ اس طرح برتا ہے کہ زندگی کی تلخ حقیقت سامنے آجاتی ہے جس نے ان کی شاعری وک اتنا مقبول اور ہردلعزیز بنادیا ہے کہ آج بھی کئی صدیوں گزرنے کے باوجود روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کے بہت یاد رہو
میر تقی میر کی زندگی مایوسیوں اور ناکامیوں کی ایک المناک داستان ہے ۔ غم حیات ، غم جاناں اور غم دوران نے ان کے دل کو ایک آتش کدہ بنادیا تھا ۔ اس لئے ان کی شاعری کا بڑا عنصر غم و الم ہے ۔ مگر انھوں نے زمانے کے غموں میں بھی مسکرانے کا ہنر دیا ہے ۔ میر کے کلام میں جذبات کی اصلیت اور خیالات کی صداقت کی وجہ سے بڑی تاثیر پیدا ہوگئی ہے اور انھوں نے اسی آگ میں تپ کر اسے گلزار بنادیا ہے ۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
میر کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے عام بول چال کی زبان کو ایسے سلیقہ سے استعمال کیا ہے کہ وہ شاعری کی زبان بن گئی ۔ مطلب یہ کہ وہ آسان اور عام فہم زبان تو استعمال کرتے ہیں مگر تمام شعری وسائل اور صحت زبان کا خاص خیال رکھتے ہیں ۔ ان کی نادر تشبیہات اور استعارے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں ۔ ہلکی ہلکی موسیقی اور نرم لہجے نے بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ کردیا ہے ۔ میر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔
مریض عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
بلبل کا شور سن کے نہ مجھ سے رہا گیا
میں بے دماغ باغ سے اٹھ کر چلا گیا
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہوسکے
پچھتاؤگے سنو ، یہ بستی اجاڑ کر
شراب عشق میسر ہوئی جسے یک شب
پھر اس کو روزِ قیامت تلک خمار رہا
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
میر نے 37 مثنویاں ، 6 ضخیم اردو دواوین کے علاوہ اپنی خود نوشت ’’ذکر میر‘‘ فارسی زبان میں اپنی یادگار چھوڑی ہیں ۔ ان کی فارسی نثر میں تین کتابیں ’’نکات الشعراء‘‘ ’’ذکر میر‘‘ اور ’’فیض میر‘‘ بہت مشہور ہیں ۔