میرے پاس 13 تا 14 کریڈٹ کارڈز ہوا کرتے تھے

لیکن اب ایک بھی نہیں ہے

کاویری نندن
کلکتہ میں مقیم نیورو سرجن ڈاکٹر نسیم اختر کی مشکلات نے انہیں اپنی مالی حالت کو سدھارکر ایک ترتیب میں رکھنا سیکھادیا ہے۔ 2006-07 میں وہ کلکتہ میں نہ صرف اپنا فیملی بزنس تعمیرات کو سنبھالتے تھے بلکہ اپنی میڈیکل پریکٹس بھی جاری رکھے ہوئے تھے لیکن 2012ء میں ان کو ہارٹک ایٹک آیا اور ان کو صحت یاب ہونے کے لیے نو ماہ لگ گئے۔ نسیم اختر کو اپنی فیملی کی فکر درپیش تھی جس میں ان کی بیوی پروین اختر 42 سالہ، بڑی دختر سدرہ اٹھارہ سالہ اور چھوٹی دختر 12 سالہ روبین شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بہت ہی فضول خرچ واقع ہوئے تھے۔ جس وقت دوسری لڑکی ہوئی تو انہوںنے محسوس کیا کہ دوسری لڑکی کے لیے وہ بچت کرنے کے قابل نہیں ہیں چنانچہ انہوںنے کلکتہ کے مالی منصوبہ ساز اتم کمار سین سے مدد طلب کی۔ یسین کی جانب سے دیئے گئے منصوبے اور مقاصد نے پروین اور اختر کو اپنی مالی تنگدستی سے نکلنے کا راستہ فراہم کیا۔ ان کے لیے طویل منصوبہ بندی میں عوامل اہم تھے ایک تو ان کی لڑکیوں کی تعلیم اور دوسرے پیرانہ سالی میں گزربسر۔ لیکن ان طویل منصوبوں کو حاصل کرنے کے لیے کچھ مختصر مدتی اقدامات لینے ضروری تھے۔ سخت اقدامات / فیصلے: شروعات میں جوڑی نے اپنے اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف امور پر غور و خوص کرنا چاہتے تھے۔ پہلے انہوں نے ہر دو تا تین ماہ تفریح کے لیے جایا کرتے تھے اور کپڑے اور دوسری ضروریات پر بہت زیادہ خرچ کیا کرتے تھے اور مسٹر نسیم نے کہا کہ ان کے ہاں 13-14 کریڈٹ کارڈز ہوا کرتے تھے۔ لیکن میں تمام بقایاجات ادا کرکے ان کارڈز کو منسوخ کروادیا ہے اور اب ان کے پاس ایک بھی کریڈٹ کارڈ نہیں ہے اور اب صرف خریدی کے لیے رقم یا ڈیبٹ کارڈ کا استعمال کرتے ہیں اور ہر تین تا چار ماہ میں اپنے اخراجات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ اس کا مقصد قرض کو کم کرنا ہوتا ہے اور ایسے ذرائع تلاش کرنے ہوتے ہیں جس سے سرمایہ کاری کی گنجائش نکل آئے۔ پروین اور نسیم دونوں اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم اور پیرانہ سالی کے لیے کچھ نہ کچھ سرمایہ کاری ضروری ہے۔ مسٹر نسیم نے کہا کہ اب وہ اپنی آمدنی کا ہر ماہ تیس فیصد سرمایہ کاری میں لگادیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سرمایہ کاری میں اضافہ کے ساتھ ساتھ فیملی انشورنس میں بھی بشمول وسیع تر صحت بیمہ اسکیم جس میں کوئی معذوری یا تاحیات بیمہ اسکیم شامل ہے اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نسیم نے کچھ رقم ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے مختص کر رکھی ہے اور کچھ رقم اخراجات میں سے منہا کرکے میوچول فنڈ اسکیم میں لگا رکھی ہے۔ سرمایہ کاری کو دو حصوں میں لگا رکھا ہے ایک ایکویٹی دوسرا قرض فنڈز جو حسب ضرورت کے تابع میں اس قسم کی ضروریات ہیں۔ اپنے گھر کو چلانا (جس میں ذاتی گھر نہ کہ کرایہ کا) بھی اہم فن کی حیثیت رکھتا ہے۔ نسیم نے کہا کہ مسٹر سین نے انہیں مشورہ دیا کہ ہوم لون کی شکل میں 25 لاکھ روپئے قرض حاصل کروں تاکہ اس رقم کو میں سرمایہ کاری میں مشغول کروں لیکن وہ اس رقم کو تین سال کی مدت میں پہلے پہل ادا کردینا چاہتے ہیں چونکہ میری عادت رہی کہ میں خرچ بہت زیادہ کرتا تھا تو مجھے مشورہ دیا گیا کہ کوئی ہائوز فنڈ کے قیام کے بجائے ہوم لون کو پہلے ادا کردوں۔ پروین چاہتی تھیں کہ ہم لوگ ایک مکان خریدیں لیکن اس سے ہماری آمدنی بہت ہی قلیل ہوجائے گی کیوں کہ زیادہ رقم رئیل اسٹیٹ میں چلی جائے گی۔ پروین کی رائے تھی کہ دو مکان کے مالک بننے پر دونوں لڑکیوں کا مستقبل محفوظ ہوجائے گا۔
ڈاکٹر نسیم اختر کی فیملی تین سال میں ایک بار بیرون ملک سفر کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ان کا مختصر مدتی تعطیلاتی منصوبہ کو محدود کردیا گیا ہے جو پہلے ہر 2-3 ماہ میں ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ نسیم بجائے دو کاروں کے صرف ایک کار رکھنا چاہتے ہیں۔ جب ان دونوں کا مالیاتی منصوبہ کامیابی کی سمت رواں دواں ہے تو ان کو یقین ہوچکا ہے کہ وہ اب سفر پر جاسکتے ہیں۔ نسیم نے کہا کہ منصوبہ بندی ایک راڈار کی طرح ہے جو آپ کے سمتوں کو متعین کرتی ہے یعنی آپ کس سمت میں ہیں اور آپ کو کدھر جانا چاہئے حالانکہ پروین اس مالی منصوبہ بندی کی باریکیوں میں ملوث نہیں ہے اس کے باوجود وہ بہت ہی مطمئن ہے کہ تمام معاملات صحیح ہیں، رواں دواں ہیں۔ اپنے سرمایہ کاری میں اضافہ کے لیے یہ کلکتہ مقیم جوڑا اپنے نئے وینچر کے لیے بالکل تیار ہیں۔