میرے محبوب تجھے سلام

محمد مجیب احمد
امر جیت بھنڈر وہ قیامت خیز گھڑی کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ جب فضاء میں ہوئے  طیارہ کے حادثہ نے اس کی خوش و خرم زندگی کو سدا کیلئے رنج و الم میں بدل دیا تھا ۔ تب سے وہ اپنے خاوند کی جدائی کے غم کی پرچھائیوں میں اس کی سنہری یادوں کو سینہ سے لگائے جی رہی ہے ۔
ہیلو امرجیت ! کیسی ہو ؟ سب تو ٹھیک ہے نا ؟ جیجا جی کا کیا حال ہے ؟ ان دنوں کونسی فلائیٹ کی اڑان پر گئے ہیں ؟ اس کی خالہ زاد بہن امریتا کور نے پنجاب سے اسے دہلی اچانک فون کرتے ہوئے تشویش سے پوچھا۔
ایر انڈیا بوئنگ 747 ۔فلائیٹ نمبر 182 ، کنیشکا (KANISHKA) انڈیا ٹو کینیڈا کی اڑان پر … لے … کن … لیکن … ک … کک… کیوں ؟ امرجیت نے اس لمحہ حیرت سے جواب دیا۔

پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ بس ایسے ہیں تمہاری یاد آنے پر فون کرلیا تھا ۔ گھبراؤ مت صبر سے کام لو … میں پھر بات کروں گی ۔ امریتا کو طیارہ میں ہوئے بم دھماکہ  کی دلخراش اور ناگہانی سانحہ کی راست اطلاع دینے کا حوصلہ نہ ہوا۔ !
امرجیت کو پائلٹ کی بیوی ہونے کے ناطے علم تھا کہ ہوائی حادثات کب اور کیسے ہوتے ہیں ؟ اسے یقین تھا کہ اس کے شوہر اور نہ ہی طیارہ کو کچھ ہوا ہوگا کیونکہ کیپٹن ستویندر سنگھ بھنڈر ایک تجربہ کار کو پائلٹ (CO-PILOT) اور ماہر ہوا باز تھا جو طیارہ کی ساری جانچ پڑتال کے بعد میں اطمینان ہونے پر اڑان کیلئے تیار ہوتا تھا ۔ ویسے وہ متعدد بار انڈیا سے کینیڈا کی اڑانوں  پر جا بھی چکا تھا ۔ اس تصور سے وہ پرسکون اور مطمئن تھی ۔ مگر اس کی چھٹی حس اسے خطرہ کا احساس دلا رہی تھی کہ ہوائی حادثات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ وہ کسی بھی پل ہوسکتے ہیں اور جب اسے علحدگی پسند عناصر کی جانب سے ایر انڈیا کے جہازوں کو دھماکوں سے ا ڑا دینے کی بارہا دی گئی دھمکیوں  کا خیال آیا تو وہ لرزگئی ۔ پھر امرجیت نے دھڑکتے دل اور بے قابو سانسوں کے ساتھ اپنی بے چینی اور تجسس کے اطمینان کیلئے فوری ٹیلی ویژن دیکھنے لگی۔ آپ دوردرشن پر دیکھ رہے ہیں۔ اب تک کی خاص خبر ۔

’’آج صبح ٹورنٹو (کینیڈا) سے بمبئی کے لئے پرواز کر رہے ایر انڈیا کے طیارہ ’’کنیشکا‘‘ آئرلینڈ کے قریب حادثہ کے باعث تباہ ہو کر بحیرۂ اوقیانوس (Atlantic Ocean) میں گر پڑا جس کے نتیجہ میں اس میں سوار تمام 313 مسافرین اور عملہ کے 22 ارکان کی ہلاکت کا اندیشہ ہے ۔ باوثوق ذرائع کے بموجب طیارہ میں پرواز کے دوران رکھے گئے بم کے نتیجہ میں دھماکہ ہوا ۔ حادثہ سے چند لمحات قبل طیارہ کے تجربہ کار کمانڈر کیپٹن ایچ ایس نریندرا نے آئرلینڈ کی طیرانگاہ کو مطلع کیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور انہیں فیولنگ کیلئے لندن کی طیرانگاہ ہیتھرو پر اترنے کی اجازت دیدی گئی ہے ۔ حادثہ کے وقت طیارہ 31 ہزار فٹ بلندی پر تھا ۔ تباہ شدہ طیارہ کے ’’کو پائلٹ‘‘ ستویندر سنگھ بھنڈر اور ڈی وی دماسیا تھے ۔ بھارت سرکار نے اس بدترین فضائی حادثہ کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سبوتاج کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس نے گہرے صدمہ کے ساتھ مہلوکین کے ارکان خاندان سے دلی اظہار تعزیت کیا ہے ‘‘۔حادثہ کی صدمہ خیز خبر کی تفصیلات سے واقف ہوتے ہی امرجیت پر ہذیانی کیفیت طاری ہوگئی ۔ وہ اپنا سر پکڑ کر چیخ اٹھی نہیں … ست …! تم ہمیں چھوڑ کر نہیں جاسکتے ۔ اب ہمارا کیا ہوگا ؟ ہائے …ست … میں کیسے برداشت کروں ؟ مجھے یقین نہیں آرہا ہے ۔ یہ کیا ہوگیا ؟
ماں کی آہ و زاری پر کمسن بچے نیند سے بیدار ہوکر حیرانی سے اسے سوالیہ انداز میں دیکھنے لگے ۔
میرے بچو ! تمہارے ڈیڈی کا پلین کراش (Plane Crash) ہوگیا ہے ۔ وہ ہمیں چھوڑکر چلے گئے ہیں ۔ امرجیت سسکنے لگیں۔
وہ کیسے ممئی ؟ ڈیڈی تو جلد آنے کا وعدہ کر گئے تھے ۔ کیا وہ ہم سے ناراض ہوکر چلے گئے ہیں۔ ہم نے تو ان سے پرامس (Promise) کیا تھا کہ خوب پڑھیں گے اور شرارت نہیں کریں گے اور نہ ہی آپ کو ستائیں گے تو پھر یہ سب کیسے ہوا ؟ چھوٹا لڑکا بھولے پن سے کہنے لگا۔
بیٹا ! ڈیڈی کے پلین میں بم بلاسٹ ہوا ہے اور سب ہی لوگ مر گئے ہیں ۔ امرجیت آہیں بھرتی ہوئی اسے سمجھانے لگیں۔ اوہ … بم بلاسٹ … کیا آتنک وادی (Terrorists) پلین میں بھی بم بلاسٹ کرتے ہیں … ممی … ! کیا انہیں انسانوں کو مارتے ہوئے رحم نہیں آتا ؟ کیا ان کا گھر اور بچے نہیں ہوتے جو ایسا کرتے ہیں ۔ وہ دوبارہ معصویت سے بولا۔
"I hate terrorists- They shoud be punished and shoot” بڑا لڑکا روتے ہوئے غم و غصہ سے چلانے لگا۔
امرجیت کو معلوم نہیں تھا کہ یہ ستویندر کی آخری فلائیٹ ہوگی ۔ ایک ہفتہ قبل جب وہ کینیڈا کے لئے روانہ ہورہا تھا تو نجانے کیوں اسے گھبراہٹ سی ہورہی تھی ۔ اس نے پرنم آنکھوں اور بوجھل دل سے اپنی حالت کا اظہار ستویندر سے کیا تو وہ ناراض ہوگیا تھا ۔
ڈارلنگ ! تم خواہ مخواہ پریشان ہورہی ہو ۔ مجھے کچھ نہیںہوگا ۔ کیا میں پہلی دفعہ اڑان پر جارہا ہوں۔ یہ تو میری پسندیدہ روٹ Route ہے ۔ پھر تم فکر مند کیوں ہو ؟ تم اپنا اور بچوں کا خیال رکھو ۔ ان کی تعلیم اور تربیت پر خصوصی توجہ دو تاکہ وہ اعلیٰ مقام حاصل کرسکیں۔ تم اس طرح مصروف رہوگی تو واہمات کا شکار نہیں ہوگی۔ میں تم سے دور کہاں ہوں ؟ میں تو تمہارے دل کی دھڑکنوں  اور سانوں میں بسا ہوا ہوں۔ فضا سے تمہیں دیکھتا رہوں گا اور خوابوں میں باتیں کروں گا ۔ اب تو خوش ہوجاؤ ۔ وہ امرجیت کی دلجوئی کے بعد بچوں سے مخاطب ہوا۔

پیارے بیٹو ! تم ممی کی باتوں پر عمل کرنا … اپنی شرارتوں اور ضد سے انہیں تنگ نہیں کرنا خوب  پڑھائی میں دھیان رکھتے ہوئے امتیازی کامیابی حاصل کرنا ۔ بولو … مانوگے نا میری بات … ستویندر نے ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے انہیں اپنے سینہ سے چمٹالیا ۔ او…کے … ڈیڈی … ہم ضرور ایسا ہی کریں گے ۔ پرامس (Promise) دونوں بیٹے بیک آواز ہوکر بولے۔
اچھا … اب مجھے اجا زت دو … جا نے کا وقت ہو چلا ہے ۔ میں جلد ہی واپس لوٹ آؤں گا ۔ بائے ۔ بائے ۔ ستویندر محبت پاش وداعی نظروں سے بیوی اور بچوں کو دیکھتے ہوئے رخصت ہوگیا !
خوبصورت امرجیت اور سندر ، ستویندر کے پیار کی کہانی مختلف تھی ۔ شادی سے پہلے دونوں میں رشتہ داری کے باعث ایک دوسرے سے بخوبی واقف تھے ۔ جب کبھی کسی تقریب میں ملاقات ہوتی تو ان کی زبان گنگ اور آنکھیں بولتی تھیں اور دل کی دھڑکنوں سے جذبات کو سمجھ لیتے تھے ۔ جب ستویندر کے گھر والے اس کا پیام لے کر آئے تو امرجیت کے والدین نے اسے منظور کرنے میں تامل کیا تھا ، پھر لڑکے میں یہ خوبی دیکھ کر آمادہ ہوگئے تھے کہ وہ نیک سیرت کے علاوہ ہوائی فوج میں ملازمت تھا ۔ یوں ان کی خاموش محبت رشتہ ازدواج میں تبدیل ہوگئی تھی۔ وہ ایک دوجے کو پانی کی خوشی میں جھوم اٹھے تھے۔ انہیں امید نہیں تھی کہ اتنی آسانی اور جلدی سے ایک ہوجائیں گے ۔ اپنی قسمت پروہ عش عش کرنے لگے تھے۔

میں نے تجھے مانگا تجھے پایا ہے
تونے مجھے مانگا مجھے پایا ہے
شادی کے بعد ستویندر کا تبادلہ شیلانگ ہوگیا تھا ۔ وہاں جانے سے قبل دونوں نے محبت کی شاہکار عمارت ’’ تاج محل، پہنچ کر اپنے ا ٹوٹ پیار اور حقیقی چاہت کا اعادہ کرتے ہوئے ممتاز محل اور شاہجہاں کی طرح مہر و الفت بھری زندگی بسر کرنے کے عہد و پیماں کئے تھے جب ستویندر پیار سے امرجیت کو امبی (پکا ہوا آم) کہتا تو اس کے حسین گلابی عارضی خوشی سے تمتمانے لگتے تھے ۔ ایسا سجیلا ساجن ملنے پر وہ خود کو خوش بخت متصور کرتی تھی ۔ اس طرح ان کی زندگی پر مسرت گزرنے لگی تھی جب کبھی ملک کو جنگ کا سامنا کرنا پڑتا تو ستویندر اس میں شامل ہوجاتا تھا ۔ امرجیت اس کی بحفاظت واپسی اور ملک کی سلامتی کیلئے ہر لمحہ مضطرب رہا کرتی تھی !
ہوائی فوج سے رضا کارانہ سبکدوشی کے بعد ستویندر نے ایرانڈیا سے وابستگی اختیار کرلی تھی اور عرصہ دراز تک کامیابی کے ساتھ مختلف فلائٹس پر بخوبی خدمات انجام دینے کے بعد انڈیا ٹو کینیڈا کی مخصوص اڑان پر مامور ہوگیا تھا ۔ اس کی غیر متوقع موت سے بیوی اور بچوں کو سارے خواب ادھورے دکھائی دینے لگے تھے لیکن باہمت امرجیت نے کٹھن مراحل کا سامنا کرتے ہوئے خاوند کی وصیت پر عمل پیرا ہوگئی تھی ۔ اس کی معاشی امداد کے طور پر حکومت نے اسے ایر انڈیا ( چندی گڑھ) آفس میں ملازمت فراہم کی تھی ۔ زندگی کے پر پینچ راہوں پر نشیب و فراز حالات سے گزرتے دیکھ کر کئی بہی خواہوں نے امرجیت کے تنہا سفر میں اس کے شریک سفر ، بننے کا پیش کش کیا تو اس نے یہ کہہ کر یکسر مسترد کردیا کہ ’’آج بھی ستویندر جیسا محبوب شوہر میرا ’’ہم سفر‘‘ ہے ۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ خلاؤں سے دیکھ رہا ہے اور اپنا دست محبت میرے شانے پر رکھے قدم بہ قدم چلتے ہوئے میری رہنمائی و ہمت افزائی کر رہا ہے ۔ ست جیسا عاشق کامل میرے سپنوں کا راجہ اور دل کا راجکمار ہے اور میرے دل کی دھڑکنوں میں شامل ہوکر مجھ سے ہم کلام ہوتا رہتا ہے ۔ یہی پرکیف تصور جاناں مجھے اکیلے پن اور تنہائی کا احساس ہونے نہیں دیتا ۔ دنیا والے مجھ کو بے سہارا اور مجبور نہ سمجھیں۔ میں اپنے یتیم بچوں کی مہربان ماں کے علاوہ ایک بہادر اور شہید شوہر کی حوصلہ مند اور وفادار بیوی بھی ہوں جس کے ذ مہ اولاد کی بہتر تربیت اور عمدہ نگہداشت کر کے مرحوم کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔ صرف یہی میرا مقصد حیات ہے ‘‘!

طیارہ کو بم سے اڑا دینے پر امرجیت کو انتہائی افسوس اور نہایت دکھ ہوا تھا جس کی وجہ سے کئی معصوم انسان ہلاک اور ہزاروں بے قصور متعلقین متاثر ہوگئے تھے۔ ان میں ہر ذات اور مذہب کے پیرو شامل تھے۔ ’’یہ وحشیانہ اور ہلاکت انگیز کارنامہ انجام دے کر کچھ گمراہ علحدگی پسند عناصر جنہیں مخالف ملک و قوم طاقتوں کی پشت پناہی حاصل تھی یہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے کوئی بہادری دکھائی اور اپنی قوم کا نام بلند کیا ہے ۔ نہیں ، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ انہوں نے تخریب کے نام پراپنے آپ کو رسوا کر کے اپنی انفرادیت اور شناخت کو مشکوک بناتے ہوئے نفرت میں بدل دیا ہے ۔ وہ خود کو مجاہد آزادی کہتے ہیں ۔ جو سچ نہیں ہے بلکہ جنونی اور ظالم ہیں۔ ‘‘ امرجیت جذباتی انداز میں کہنے لگیں۔
امرجیت اور ستویندر کو اپنی ذات پر ناز تھا مگر حادثہ کے بعد وہ اپنے آپ کو شرمندہ محسوس کر رہی تھی ۔ انہوں نے کبھی انسانوں میں تفریق نہیں کی تھی ۔ ہندو ، مسلم اور عیسائی کو برادران وطن اور بھارت کو مادر وطن مانا تھا ۔ ’’ست ! میرا  دلبر عاشق اور محبوب خاوند ہی نہیں بلکہ ایک جانباز سپاہی اور بے خوف جہاز راں کے ساتھ سچا محب وطن بھی تھا جس کو اس کی دلدار محبوبہ اور وفادار بیوی بڑے ہی عقیدت اور فخر سے بھرپور سلام کرتی ہے ‘‘۔ یہ کہتے ہوئے امرجیت کی آنکھیں گیلی اور آواز گلوگیر ہوگئی تھی ۔