میری نئی ضعیفی

ڈاکٹر مجید خان
کافی غور و خوض کے بعد حال حال میں میں نے ضعیفی کو قبول کرلیا ہے ۔ ضعیفی کس عمر سے شروع ہوتی ہے اس پر کوئی عام طورپر اتفاق رائے قائم نہیں ہوئی ہے ۔ بین الاقوامی ادارہ صحت WHO بھی اس سمت میں ساری دنیا میں غور کررہا ہے مگر طبعی عمر یعنی سالوں میں جو عمر گنی جاتی ہے اور ضعیفی میں جو تضاد دیکھا جارہاہے وہ ابھی بھی زیربحث ہی ہے ۔ ساری دنیا میں بہتر علاج معالجے اور صحت عامہ کی وجہ سے طبعی عمر بڑھتی جارہی ہے مگر افریقہ میں معاملہ بالکل برعکس ہے ۔ ہندوستان میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ سرکاری نوکریوں میں وظیفے کی عمر 55 سے لیکر 60کردی گئی ہے مگر کئی ایسے لوگ ہیں جو وظیفے پر علحدہ ہونے کے بعد نئی اور کامیاب مصروفیت شروع کرتے ہیں ۔ یعنی ضعیفی کے آثار اُن میں نظر نہیں آتے ۔ ہم اپنے اطراف بھی دیکھ رہے ہیں کہ بے شمار لوگ ہیں جن کی عمر تقریباً 80 کے لگ بھگ ہے مگر یہ لوگ ذہنی طورپر ناکارہ نہیں ہیں ۔ جسمانی صحت کے اعتبار سے تو ظاہر ہے فرق ہوگا مگر فریش نہیں ہیں۔ بلڈ پریشر اور ذیابیطس سے نجات کم ہی نظر آتی ہے ۔ 75 کے بعد ذرا سی فکر شروع ہوجاتی ہے میں نے بھی 75 کی عمر تک تو بے فکری سے زندگی گذاری ۔ اﷲ کے فضل سے خرابی صحت کے عذر سے میں نے کوئی پروگرام منسوخ نہیں کیا ۔افریقہ سے لیکر دریائے نیل کے سفر سے لیکر یوگوسلاویہ قدیم کی پہاڑیوں میں میں نے کئی دن گذارے ۔ ساتھی میری صحتمندی پر عش عش کیا کرتے تھے ۔ اکثر یہ جملہ میں سُنا کرتا تھا کہ اس عمر میں اتنی جوانی ماشاء اﷲ خوب ہے ۔ جب میں اپنے شعبے کے فنی پروگرامس کی صدارت کرتا ہوں تو یہی سنتا ہوں کے اس عمر میں بھی ڈاکٹر صاحب اپنے آپ کو عصری فنی معلومات سے آراستہ کرتے رہتے ہیں۔

بہرحال میں نے اپنی نئی ضعیفی جس کا مجھے قطعی احساس نہیں تھا قبول ہی کرلی اور ایک ضعیف انسان کی طرح زندگی شروع کرنے کا عمل شروع کیا ۔ بقیہ مضمون ضعیفوں کیلئے مشعل راہ ہوسکتا ہے۔
شکر ہے کہ مجھے ذیابیطس نہیں ہے گوکہ قریبی رشتے دار سب کو یہ شکایت ہے ۔ کیسے میں اب تک اس عارضے سے بچا رہا اُس کی بھی ایک داستان ہے۔
بچپن سے مجھے صبح میںدوڑنے کی عادت تھی۔ بعد میں یہ چہل قدمی میں بدلی اور میں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ بسا اوقات سردیوں کے موسم میں 6-8کیلومیٹر چلنے کے بعد میں واپس آکر فجر پڑھا کرتا تھا ۔ جیسے ہی میں نے ضعیفی قبول کرلی صبح تیز چلنے کی عادت کو خیرباد کہنا پڑا ۔ ہمارا ٹینک بنڈ پر ایک دوستوں کا گروپ تھا جو یکے بعد دیگرے اس دنیا کو خیرباد کہتے گئے ۔ ایک ہی ساتھی رہ گئے تھے جن کے دونوں گھٹنے نئے گھٹنے ڈلوانے کے باوجود ناکارہ ہی رہے اس لئے وہ گھر پر ہی ہیں۔
ضعیفی قبول کرنا آسان کام نہیں تھا ۔ کسی صورت میں اس کو راضی بخوشی کا عمل نہیں کہا جاسکتا تھا ۔ میرے پیشے کی مصروفیات ، مریضوں کی دیکھ بھال سے لیکر ہندوستان اور بیرون ہندوستان نفسیات کی کانفرنسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا میرا منشور ہوچکا تھا ۔
خاندان والوں کا کہنا تھا کہ نصف صدی تک میں نے اتنی مصروف زندگی گذاری ہے اب تو اس گہماگہمی اور رفتار کو دھیمی کرنا چاہئے ۔ امریکہ کے رشتہ دار کئی تجاویز پیش کئے مگر ان سب میں حریفوں کے مشوروں کے اوقات میں تخفیف ایک ضروری عمل مانا جارہا تھا ۔ گوکہ میرے اوقات مقررہ تھے اور ہفتے اتوار کو فارم چلا جایا کرتا تھا مگر بقیہ دن بے پناہ مصروفیت تھی ۔
پلٹ کر جب دیکھتا ہوں تو علانیہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ ضعیفی ایک طبعی کیفیت ہے اور ضعیفی کو قبول کرنا ایک نفسیاتی شکست خوردہ ذہن کی شروعات ہے ۔ مجھے نہیں چاہئے تھا کہ ضعیفی کو قبول کروں ۔ اب جوانی واپس آ نہیں سکتی اور ضعیفی سے چھٹکارا ممکن نہیں ۔ نئی ضعیفی کے لئے آداب کو سیکھنا پڑا ۔
اپنی انتہائی مصروف زندگی کو کس طرح سے محدود کیا جائے بڑا مشکل مسئلہ ثابت ہورہا ہے ۔ پریکٹس سے جڑی ہوئی ذمہ داریوں سے کچھ حد تک دستبردار ہونا پہلا عمل تھا ۔

میں نے اپنی مصروف زندگی میں یہ محسوس کیا کہ گھڑیال اور کیلنڈر کی غلامی سب سے اہم زندگی کا مریض ہے ۔ اس مسئلہ پر غور کرنا میں نے شروع کیا ۔ دواخانے میں مریض صبح 8 بجے سے منتظر رہا کرتے ہیں اور گھر پر شام میں ۔ پہلے میں نے دواخانے میں قابل ماہر امراض نفسیات کے ڈاکٹروں کا تقرر کیا اور اُن کی بہترین تربیت دی تاکہ وہ لوگ میری غیرموجودگی میں میرے انداز اور طور طریقے سے دواخانہ چلائیں۔ پہلی مشکل گھڑیال سے آزادی حاصل کرنی تھی ۔ نئی ضعیفی میں مصروف لوگوں کو اس پر عمل کرنا شروع میں مجھے عملاً ناممکن لگ رہا تھا مگر اس عمل میں بھی کامیابی ہورہی ہے ۔
گھڑیال سے آزادی پہلے میں نے اپنے پیشے میں شروع کرنے کی کوشش کی اور اس کے بعد سماجی حلقوں میں خاندان والوں میں اور حلقۂ احباب میں لچک کا زیادہ استعمال کرنا شروع کیا۔کسی ایسے شخص کو جو نصف صدی گھڑیال اور کیلنڈر کی باضابطگی کا پابند رہا اب اس کے برخلاف زندگی گذارنا مشکل ضرور رہا مگر میں نے شروع کیا ۔ امراض نفسیات کے علاج میں بعض مریض غیرضروری طورپر نہ صرف ایک خاص ڈاکٹر کے مطیع ہوجاتے ہیں بلکہ اُن پر انکا انحصار انتہا کو پہنچ جاتا ہے ۔ اس مضبوط نفسیاتی رشتے کی کڑی کو ڈھیلا کرنا میں نے شروع کیا ۔ ایک دم سے توبہ نہیں کیا جاسکتا کہ ڈاکٹر صاحب ضعیفی کی وجہ سے اپنی ذمے داریوں میں بہت زیادہ حد تک تخفیف کررہے ہیں ۔ لوگ اس قسم کی ڈھیل کے نہ تو عادی ہیں نہ پسند کرتے ہیں۔ وہ لوگ ٹھوس جواب چاہتے ہیں کس وقت کب اور کہاں ڈاکٹر صاحب ملیں گے ۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اب مقررہ وقت کے پابند نہیں رہے تو بھی دواخانے کے ٹیلیفون والوں کو ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا جو کبھی کبھار میں جواب دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ صبح کے وقت چند گھنٹے میں مریضوں کو دیکھتا ہوں ورنہ دوسرے ماہرین تو موجود ہیں ۔ اگر آپ مجھ سے ملنا چاہیں تو موقع لیجئے ۔
اب میں دوسری نفسیاتی پیچیدگی کو سمجھانے کی کوشش کروں گا ۔ ضعیفی میں بتدریج کیسے ذمے داریوں سے دستبرداری حاصل کی جائے میں نے اپنی سوچ میں سے مستقبل کو نکال دیا ہے ۔ضعیف کا مستقبل ایک ہی ہوسکتا ہے ۔ میں نے بڑی کامیابی سے اسی غوروفکر میں سے کل یعنی Tomorrow کو نکال دیا ہے ۔
میری موجودہ زندگی میں صرف میرا تابناک ماضی اور حال ہے ۔ مستقبل ہوگا ،مگر میری دانست کے باہر ہے ۔ میں نے خود اس کو موقوف کردیا ہے۔ قریبی لوگ جب وقت مانگتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ جب آپ آنا چاہتے ہیں اُس دن ذ را ربط پیدا کرلیجئے ۔ مجھ سے فلاں دن فلاں وقت مت مانگئے ۔ ایک بار میں وعدہ کرلوں تو پھر میرا قدیم اعصابی نظام حرکت میں آجاتا ہے ۔ کہیں ٹریفک میں ہوں تو جلد پہنچنے کی کوشش اور اس کے ساتھ غیرضروری ذہنی تناؤ ضعیفی میں یہ بوجھ ہلکا ہوجائے تو جو راحت ملتی ہے اُس کو میں ہی جانتا ہوں ۔ میری زندگی میں کوئی Deadlines نہیں ہیں۔ میں یہ بھی کرسکتا ہوں کہ پریکٹس بالکلیہ بند کردوں مگر یہ میری ذہنی صحت کو متاثر کردے گا ۔ ذہن اگر مصروف رہے تو پھر اُس کی کارکردگی میں خاص طور سے یادداشت کے تسلسل میں انحطاط نہیں ہوگا بلکہ عصری تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ ذہن کے زیادہ استعمال سے ضعیفی میں بھی اعصاب کے نئے مُولکے پیدا ہوتے ہیں جس طرح سے کسی زرخیز زمین میں بیج بونے کے بعد ۔ ان نعمتوں کو میں Executive Function of Brain سمجھتا ہوں جس میں اچھی یادداشت ، منصوبہ بندی،مسائل حل کرنے کی چُست صلاحیت یا حاضر دماغی تر و تازہ ہوتی رہتی ہے ۔ ان کا تعلق غور و فکر سے ہے ۔ ان کو محدود نہیں کرنا چاہئے ۔
میری غور و فکر اور سوچ محدود نہیں ہے ۔ نقل و حرکت کے معاملے میں محتاط ہوتا جارہا ہوں۔ جھٹکے سے اُٹھ کر کوئی کام کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ شکایت کرتا ہے ۔ پیر پھسلے تو کولھے کی ہڈی ٹوٹنے کا اندیشہ لگا رہتا ہے ۔ اکثر ضعیفوں میں یہی زندگی کا آخری سفر ہوا کرتا ہے گوکہ آج کل اس کا بہترین علاج ہے ۔ بہرحال نئی ضعیفی نیا احترام چاہتی ہے ۔ یادداشت اچھی ہو تو اس کے ساتھ کئی متعلقہ صلاحیتیں کارکرد رہتی ہیں مثلاً واقعات کا تسلسل ، ماضی اور حال میں فرق وغیرہ وغیرہ ۔ گھڑیال اور کیلنڈر سے آزادی پرسکون زندگی گذارنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔ یہ اُن لوگوں میں جنھوں نے مصروف اور ذمے دار زندگیاں گزاری ہیں ۔ بالفاظ دیگر یہ ہم کو طئے کرنا ہے کہ ذمہ داریوں سے کب دستبردار ہوں ۔سیاستداں کو 70 سال کے بعد سیاست سے سبکدوش ہونے کی صلاح دی جارہی ہے ۔
ہر شخص کو اپنے طورپراپنی صلاحیتوں اور صحت کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے طرز زندگی کو آہستگی کے طرف مائل کرتے ہوئے ایک نئے انداز زندگی کو سیکھنا ہوگا ۔ انتظار نفسیاتی نظام کا دشمن ہے ۔ ایسے مواقع کم کیجئے جہاں پر لوگوں کے جھوٹے وعدوں پر آپ کے انتظار کے نظام پر تناؤ پڑتا ہے ۔ عام لوگ نہ تو وقت کے پابند ہیں نہ عہد کے۔ اس لئے اُس پر توجہ دینا ہی غلط ہے ۔ عمدہ اور معیاری وقت گذارنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کا ایک اہم جُز مزاح ہونا چاہئے۔