کے این واصف
خلیجی ممالک نے عموماً اور سعودی عرب نے خصوصاً جہاں پاک و ہند کے باشندوں کو مالی آسودگی بخشی وہیں اس نے انہیں یہ موقع بھی عنایت کیا کہ وہ یہاں تمام پابندیوں سے آزاد ہوکر آپس میں ایک دوسرے سے مل سکیں، دوستی کے نئے رشتے قائم کریں، شناسائی کو دوستی میں تبدیل کریں اور پرانے رشتوں کو مستحکم کرسکیں جبکہ ہند و پاک میں رہنے والے ان سہولتوں سے محروم رہتے ہیں۔ اس سہولت سے استفادہ کرتے ہوئے پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے چند نیک سرشت و ہم خیال احباب نے ریاض میں ’’پاک و ہند لٹریری فورم‘‘ کی داغ بیل ڈالی اور اس فورم کے تحت ملی جلی محفلیں آراستہ کرتے ہیں ۔ یعنی فورم کے ذمہ داران شاعر کے اس خیال کو عملی صورت دینے کی کوشش کر رہے جس میں شاعر نے کہا تھا کہ ’’ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘‘۔ معروف شاعر و ادیب گلزار نے ہند وپاک باشندوں کو ایک بڑا اچھا مشورہ دیا تھا ۔ گلزار نے اپنی نظم ’’آؤ کبڈی کھیلیں‘‘ میں کہا تھا۔
لکیریں ہیں تو رہنے دو
کسی نے روٹھ کر
غصے میں شاید کھینچ دی تھیں
انہی کو اب بناؤ ہالا
اور آؤ، کبڈی کھیلتے ہیں
لکیریں ہیں تو رہنے دو
’’پاک و ہند لٹریری فورم ریاض‘‘ کے ساتھ ساتھ پاک و ہند کے تمام باشندے گلزار کے اس مشورے کو مانیں اور دونوں ممالک کے لوگ خوشگوار ماحول میں ایک دوسرے کو ضرر و ضرب پہنچائے بغیر زندگی کے ہر میدان میں قدم بہ قدم آگے بڑھیں ، ترقی کریں، خوش رہیں کیونکہ نفرتیں تباہی کے سوا کچھ نہیں دے سکتیں۔ پچھلے ہفتہ کے اختتام پر پاک و ہند لٹریری فورم نے ایک ہمہ رنگ محفل کا اہتمام کیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں نے اظہار خیال، نوجوانوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو شعراء نے ا پنے کلام سے نوازا جن میں جاوید اختر جاوید ، ابو نبیل، خواجہ مسیح الدین ، وقار وامق نسیم ، خورشید الحسن نیر، ڈاکٹر عابد علی، عبدالرزاق تبسم اور اظہار لحق شامل تھے۔ پروگرام کا آغاز کلام اللہ کی آیات کی تلاوت سے ہوا۔ محمود احمد باجوہ نے قرآن کریم کی ایک مختصر آیت تلاوت کی اور اس کا ترجمہ و تفسیر پیش کی ، جس کے بعد نعت خواں عبدالرزاق تبسم نے بارگاہ رسالت مآب میں نذرانہ عقیدت پیش کیا جبکہ گلوکار عمر نے حمد باری تعالیٰ پیش کی۔ پاکستانی ماہر تعلیم محترمہ شمس النساء سید، ڈاکٹر ارم قلبانی، سمیرہ عزیز ، مہوش قلبانی ، محمد قیصر ، جاوید اختر جاوید اور بابر علی اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔
ناظم اجلاس جاوید اختر جاوید نے اپنے ابتدائی کلمات سے محفل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ فورم کا مقصد ہمارے سخنور ، سخن فہم ، ادیب اور ادب نواز حضرات جن کا تعلق پاک و ہند سے، ہے کے درمیان خلوص، محبت ، بھائی چارہ ، آپسی اتحاد کی بنیادوں پرایک پل تعمیر کیا جائے تاکہ دونوں ممالک کے افراد جن کی تہذیب ، زبان اور ثقافت ایک ہے، اپنی مشترکہ کاوشوں سے اپنے ادب و ثقافت کو فروغ دے سکیں۔ جس کے بعد یکے بعد دیگر ے مہمانان کو دعوت خطاب دی گئی ۔ پاکستان سیول سروس عہدیدار محترمہ مہوش قلبانی اسسٹنٹ کمشنر ملتان پاکستان نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ گو کہ میرے اسکول ، کالج یا سیول سروس کی ٹریننگ میں اردو ادب شامل نہیں رہا لیکن میں ذاتی طور پر ہ ہمیشہ سے اردو ادب میں دلچسپی رکھتی تھی اور آج کی اس معیاری ادبی محفل میں شریک ہوکر بے حد مسرت محسوس کر رہی ہوں۔ انہوں نے فورم کے قیام اور اس کے اغراض و مقاصد کی بھی ستائش کی۔
صحافت سے فلمی دنیا میں قدم رکھنے والی محترمہ سمیرہ عزیز نے کہا کہ میں ذاتی طور پر محسوس کرتی ہوں کہ فلم کا میڈیم پرنٹ میڈیا سے بہت زیادہ طاقتور ہے اور اپنے افکار و خیالات کو عوام تک پہنچانے کا یہ زیادہ مؤثر ذریعہ ہے ۔ سمیرہ نے کہا کہ وہ فی الحال ایک فلم کی تیاری میں مصروف ہیں جس کیلئے وہ بالی ووڈ (بمبئی) سے ٹکنیکل سپورٹ حاصل کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس فلم کی شوٹنگ بھی ممبئی میں ہوگی ۔ سمیرہ نے یہ بھی کہا کہ فلم بنانا یا فلمی دنیا سے جڑنا کوئی معیوب بات نہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اس میڈیم سے دنیا کو کیا پیام دے رہے ہیں ۔ سمیرہ نے بتایا کہ اگلے چند برسوں میں سعودی عرب میں سینما گھر قا ئم ہوجائیں گے اور یہاں خود بھی مقصدی فلمیں تیار کی جائیں گی۔پروفیسر شمس النساء سید نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاک و ہند فورم کے قیام کو سراہا اور کہا کہ اردو ادب اور تہذیب کے فروغ میں یہ ایک اہم اقدام ہے ۔ صحافی ارشاد سلیم نے ایک سلائیڈ شو کے ذریعہ پاک و ہند کی مشترکہ تہذیب کو اجاگر کیا۔ صدر تنظیم ہم ہندوستانی محمد قیصر جو اس فورم کے ایک اہم رکن بھی ہیں نے پاک و ہند لٹریری فورم کے بارے میں کہا کہ فورم دونوں ممالک کے عوام کے بیچ نفرتوں ختم کرنے ، عوام کے ذہنوں میں گھر کی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گا اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ایک محبت کا پل تعمیر کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اس کیلئے ایک موزوں ترین مقام ہے ۔ محمد قیصر نے کہا گو کہ اس قسم کی تنظیم کا قیام اور اس کی سرگرمیوں کی انجام دہی آسان نہیں لیکن فورم کے اراکین نے یہ تہیہ کیا ہے کہ ہم شانہ بشانہ کام کریں گے اور اپنے مشترکہ ثقافت اور ادب کے فروغ کے ہدف کو حاصل کریں گے ۔ محمد قیصر نے سمیرہ عزیز کے عزائم کی ستائش کی اور اسے ایک انقلابی اقدام قرار دیا۔
ڈاکٹر ارم قلبانی نے کہا کہ سینکڑوں برس کے رشتے 60 سال میں پرائے نہیں ہوسکتے۔ پاک و ہند کی ایک مشترکہ تہذیب ہے ۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان جو انجانا رشتہ ہے وہ زمین پر کھینچی گئی لکیروں سے ٹوٹ نہیں سکتا کیونکہ ہماری خوشیاں ، ہمارے دکھ ، ہماری تہذیب ، ہماری ثقافت اور ہماری تاریخ ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک و ہند لٹریری فورم کے قیام میں مجھے اپنے ان خوابوں کی تعبیر نظر آتی ہے جس کی دونوں ممالک کے ادباء و شعراء تمنا کرتے ہیں ۔ آخر میں پروگرام کے اسپانسر العبیر میڈیکل سنٹر کے ڈاکٹر علی مرتضی نے ا پنے میڈیکل سنٹر کی خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور سنٹر کی خدمات کے دائرے کو وسیع کرنے کے مستقبل کے منصوبوں سے بھی واقف کرایا ۔ العبیر میڈیکل سنٹر کی جانب سے مختلف شعبہ حیات میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کو ان ان کی خدمات کے اعتراف میں شیلڈ اور یادگاری تحفے پیش کئے گئے۔ جن میں محترمہ شمس النساء سید ، محترمہ سمیرہ عزیز ، محمد قیصر ، محترمہ مہوش قلبابی ، اسد علی اور کے این واصف شامل تھے ۔ اخترالاسلام صدیقی، ڈاکٹر ارم قلبانی، چودھری فریاد، قمر فیصل، بیجو کنچایم نے یہ شیلڈز اور تحفے پیش کئے جبکہ وقار نسیم وامق نے شیلڈز حاصل کرنے والوں کا تعارف پیش کیا۔
آخر میں پاکستانی گلوکار اسد علی نے چند غزلیں پیش کیں۔ جاوید اختر جاوید کے ہدیہ تشکر پر کوکوپام ریسٹورنٹ میں منعقدہ یہ پر وقار محفل اختتام پذیر ہوئی۔
مشاعرہ بضمن جشن جمہوریۂ ہند
مشاعرے اردو تہذیب کی ایک خوبصورت روایت ہیں۔ ادبی محافل کا اہتمام اس روایت کا اعادہ اور حفاظت کا ذریعہ ہے۔ اس تہذیبی ورثہ کی حفاظت بالواسطہ طور پر زبان و ادب کی بھی حفاظت ہے ۔اس مقصد کے تحت ہماری ادبی انجمنیں مشاعروں کا اہتمام کرتی ہیں۔ اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر ادبی انجمن ’’بزم رباب صحرا‘‘ ریاض نے بضمن یوم جمہوریہ ہند ایک پر وقار ادبی محفل کا انعقاد عمل میں لایا ۔ اس محفل کی صدارت معروف ہندوستانی شخصیت راشد علی شیخ نے کی ۔ ڈاکٹر اشرف علی ، صدر ’’آپس‘‘ نے بحیثیت مہمان خصوصی اور محمد سبحان نے بحیثیت مہمان اعزازی شرکت کی ۔ اس محفل میں ریاض کی کم و بیش تمام ادب نواز ہستیوں نے شرکت کی۔ ایک پرتکلف عشائیہ کے بعد محفل کا آغاز ہوا۔ نظامت کے فرائض بزم کے صدر و معروف شاعر ڈاکٹر حنیف ترین نے انجام دیئے ۔ قاری خواجہ علیم الدین کی قرات کلام کے پاک کے بعد خوش الحان شاعر صغیر احمد صغیر نے بارگاہ رسالتؐ مآب میں نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ خورشید الحسن نیر نے بھی اپنی ایک تازہ نعت پاک ’’طلوع صبح‘‘ کے عنوان سے پیش کی اور خوب داد و تحسین پائی۔ جس کے بعد مہمانان و صدر کو عبدالجبار خاں، خورشید الحسن نیر اور شکیل احمد نے گلدستہ پیش کئے ۔ اس محفل میں ایوب تشنہ ، صغیر احمد صغیر، محمد شوکت ، اظہار الحق الہ بادی ، شاہد خیالوی، خورشید الحسن نیر، ابو نبیل، خواجہ مسیح الدین، شوکت جمال ، حشمت صدیقی، طاہر بلال ، حشام سید اور ڈاکٹر حنیف ترین نے اپنا کلام پیش کیا ۔ ناظم مشاعرہ ڈاکٹر حنیف ترین نے اپنی دلچسپ نظامت سے رات دیر گئے تک چلنے والی اس محفل کو گرمائے رکھا۔
صدر محفل راشد علی شیخ نے اپنے مختصر صدارتی کلمات میں کہا کہ شعراء نے ہر دور میں سازگار اور نامساعد حالات میں شاعری کی اور اپنی تخلیقات سے نہ صرف اردو ادب کے خزانے میں بیش قیمت اضافہ کیا بلکہ اپنی شاعری کے ذریعہ ہمیشہ سماج کو آئینہ بھی دکھایا ۔ انہوں نے منتظمین مشاعرہ اور تمام شعراء حضرات کی ستائش کی جنہوں نے اس محفل میں اپنے اشعار کے ذریعہ سامعین کو بہترین پیام دیئے اور انہیں ذہنی راحت و فرحت بخشی۔
knwasif@yahoo.com