میدان سے اب لوٹ کے جانا بھی ہے دشوار

شریعت میں مداخلت کا شرانگیز فیصلہ… مسلمان پھر آزمائش میں
اگزٹ پول نتائج سے مودی کے حوصلے بلند…ہندو راشٹر کی تیاری

رشیدالدین
گجرات اور ہماچل پردیش کے اگزٹ پول نتائج کے ساتھ ہی مرکز کی نریندر مودی حکومت نے شریعت میں مداخلت کا شرانگیز فیصلہ کیا ہے۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی اور طلاق دینے پر سزا کی گنجائش کے ساتھ مسودہ قانون کو کابینہ نے منظوری دے دی اور اب یہ بل کسی بھی وقت پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ دونوں ریاستوں کے باقاعدہ نتائج کا اعلان ابھی باقی ہے لیکن اگزٹ پول سے بی جے پی کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں۔ پارلیمنٹ اجلاس کے پہلے ہی دن مرکزی کابینہ کی جانب سے بل کی منظوری دراصل سنگھ پریوار کے عزائم کو ظاہر کرتی ہے۔ اس متنازعہ فیصلہ نے راجیو گاندھی دور حکومت میں شاہ بانو کیس کی یاد تازہ کردی ہے۔ اس وقت بھی سپریم کورٹ نے مخالف شریعت فیصلہ دیا تھا لیکن مسلمانوں کی ملی حمیت اور اتحادکے آگے حکومت کو جھکنا پڑا۔ پھر ایک بار شریعت کے تحفظ کے سلسلہ میں مسلمان آزمائش کا شکار ہوسکتے ہیں اور یہ مسلمانوں کی شریعت سے وابستگی اور اتحاد کا امتحان ہوگا۔دو ریاستوں میں کامیابی کے ساتھ ہی بی جے پی ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری میں سرگرم ہوچکی ہے ۔ اس کا مقصد ملک کو 2019ء تک ہندو راشٹر کے راستہ پر گامزن کرنا ہے۔ شریعت میں مداخلت کا یہ فیصلہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے لئے آزمائش سے کم نہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کو حوصلے پست کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی ظلم حد سے تجاوز کرتا ہے تو وہ مٹ جاتا ہے۔مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کے نام پر مودی کو قانون سازی کی جلدی ہے لیکن اس خاتون کو کون حقوق دے گا جسے مودی نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور وہ گھر کے ہوتے ہوئے بے گھر ہوچکی ہے۔
گجرات اور ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات کے نتائج اگرچہ 18 ڈسمبر کو منظر عام پر آئیں گے لیکن اگزٹ پول نتائج سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ ملک میں مسائل کی کوئی اہمیت نہیں۔ عوام کو درپیش مسائل کی بنیاد پر انتخابات لڑے نہیں جاسکتے۔ انتخابی موضوعات اپنی اہمیت اور افادیت کھوچکے ہیں۔ ملک کی سیاست پر بھگوا رنگ کا غلبہ ہوچکا ہے اور یہ ملک کی سیاست کیلئے خطرناک رجحان ہے۔ وہ دور اب نہیں رہا جب مسائل کی بنیاد پر کسی پارٹی کی ہار یا جیت کا فیصلہ کیا جاتا تھا ۔ اب تو مسائل کی جگہ جارحانہ فرقہ پرستی کے رجحان نے لے لی ہے ۔ اترپردیش میں زعفرانی نظریات پر کامیابی کے بعد اسی ماڈل کو گجرات اور ہماچل میں اختیار کیا گیا۔ اگزٹ پول کے مطابق بی جے پی گجرات میں اقتدار بچانے میں کامیاب ہوچکی ہے تو دوسری طرف ہماچل میں کانگریس سے اقتدار چھین رہی ہے۔ ملک کو نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور مہنگائی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے میں گجرات اور ہماچل میں ان موضوعات کے اثر انداز ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا لیکن ہندوتوا ایجنڈہ کے سامنے عوامی مسائل نے ثانوی نوعیت اختیار کرلی ہے۔ گجرات جو کہ بنیادی طور پر تجارتی ریاست ہے، وہاں جی ایس ٹی کے اثرات کو ہندوتوا کے ایجنڈہ نے بے اثر کردیا۔ 2014 ء عام انتخابات کے بعد سے ملک میں ہندوتوا طاقتیں منظم انداز میں سرگرم ہیں اور ہندو راشٹر کے ایجنڈہ پر عمل آوری میں مصروف ہیں۔ اس نظریہ کو بعض ریاستوں میں تائید حاصل ہوئی اور اترپردیش کی حالیہ کامیابی نے بھگوا تنظیموں کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے۔ یو پی کے ہندوتوا ماڈل کا گجرات میں تجربہ کیا گیا۔ وہ گجرات جو ترقی کے معاملہ میں کبھی ملک کیلئے رول ماڈل تھا، وہاں سنگھ پریوار نے ترقی کے بجائے نفرت کے ایجنڈہ کو ہوا دی ۔ عوام بھی اس مہم بلکہ بی جے پی کے حق میں سنگھ پریوار کی پیش کردہ بناوٹی لہر کا شکار ہوگئے۔ یو پی اور اب گجرات کے بعد زعفرانی طاقتوں کا اگلا نشانہ کرناٹک ہے۔ گجرات میں بی جے پی کے 22 سالہ اقتدار کا خاتمہ اس لئے بھی مشکل تھا کیونکہ یہ وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ کی ریاست ہے۔ دونوں کیلئے یہ وقار کا مسئلہ تھا اور شکست کی صورت میں ان کے سیاسی مستقبل پر سوال اٹھ سکتے تھے۔ لہذا دونوں نے جیت کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ گجرات جو 2002 ء فسادات کے بعد مذہبی حساس ریاست بن چکی ہے، وہاں ہندوؤں کے جذبات کو بھڑکایا گیا۔ سنگھ پریوار کی تمام تنظیموں نے ٹیم ورک کی طرح کام کرتے ہوئے رائے دہی پر عملاً کنٹرول حاصل کرلیا ، حالانکہ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کا سیاسی مزاج کچھ نارمل نہیں تھا ۔ ملک میں ہندوتوا فورسس جس تیزی سے ابھر رہی ہے ، اس کی اہم وجہ مزاحمت کرنے والی طاقتوں کا کمزور ہونا ہے ۔

سیکولر طاقتیں بکھر چکی ہیں اور وہ اپنی منقسم طاقت کے ذریعہ فرقہ پرست عناصر کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ سیکولرازم کے بعض دعویدار مفادات کی تکمیل کے لئے بی جے پی کے حلیف بن چکے ہیں۔ گجرات اور ہماچل میں بھگوا بریگیڈ کی جیت دراصل بی جے پی کی نہیں بلکہ نریندر مودی کی کامیابی ہے۔ دونوں ریاستوں میں مودی کے چہرے نے بی جے پی کو ووٹ دلانے کا کام کیا۔ گجرات میں مودی نے 34 سے زائد انتخابی ریالیوں سے خطاب کیا جو ملک کی تاریخ میں کسی ریاستی چناؤ میں وزیراعظم کی ریکارڈ مہم ہے۔ سرکاری مشنری ، سنگھ پریوار ، بھگوا بریگیڈ اور پارٹی ورکرس کے علاوہ نظم و نسق نے منظم انداز میں کام کیا۔ مکمل ورک فورس نے ٹیم ورک کی طرح پولنگ بوتھس کا کنٹرول حاصل کرلیا جبکہ بی جے پی کے مقابلہ کانگریس کے پاس ہر بوتھ کے لئے ایجنٹ بھی دستیاب نہیں تھے۔ کمزور تنظیمی ڈھانچہ کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنے والی کانگریس پارٹی نے صرف راہول گاندھی کی تقاریر اور روڈ شو پر انحصار کیا۔ تقاریر اور جلسوں سے عوام کی تائید ضرور حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اصل کام بوتھ پر رائے دہی ہوتا ہے اور تائید کو ووٹ میں تبدیل کرنا بوتھ ورکرس کا کام ہے۔ اس معاملہ میں کانگریس کمزور ثابت ہوئی ۔ وزیراعظم اور بی جے پی صدر کی ریاست میں اقتدار کی برقراری سے زیادہ ہماچل میں کانگریس سے اقتدار چھیننا اہمیت کا حامل ہے۔ راہول گاندھی نے دونوں ریاستوں میں مہم کی کمان سنبھالی اور ’’مقابلہ دل ناتواں نے خوب کیا‘‘ کے مصداق اپنے سیاسی جوہر و کمالات اور انتخابی بولیوں کے ذریعہ سیاسی میدان کے سورما سمجھے جانے والے مودی اور امیت شاہ کی نیند اڑادی ۔ راہول کی محنت کا نتیجہ ہے جو گجرات میں کانگریس کی موجودہ 48 نشستوں میں خاصا اضافہ کی پیش قیاسی کی گئی ۔ نشستوں میں اضافہ ہی کانگریس کی حقیقی کامیابی ہے جس کا کریڈٹ راہول گاندھی کو جاتا ہے۔
بی جے پی سے مقابلہ کیلئے کانگریس نے نرم ہندوتوا پالیسی اختیار کی۔ راہول گاندھی نے انتخابی مہم میں 28 مندروں کے درشن کئے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ کٹر ہندو ہیں۔ انہوں نے کسی مسجد یا چرچ کو جانا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ انہیں کٹر ہندتوا سے مقابلہ تھا ۔ نرم ہندوتوا کی پالیسی بھی کانگریس کو فائدہ نہیں پہنچاسکی۔ نریندر مودی نے گجرات کے مسائل کو چھوڑ کر پاکستان ، رام مندر ، طلاق ثلاثہ حتیٰ کہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ اور سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کو ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ پاکستان کے نام پر انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے مودی نے خود پاکستان کی مدد حاصل کی جس کا انکشاف شائد ہی کسی چیانل نے عوام سے کیا ہو۔ انتخابی مہم کے آخری دن راہول گاندھی کے روڈ شو کو روکنے کیلئے مودی کے روڈ شو کو بھی پولیس نے اجازت نہیں دی۔ سیکوریٹی وجوہات و دہشت گرد حملہ کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا لیکن اسی دن مودی دریائی جہاز (سی پلین) سے سفر کرتے ہوئے تمام نیوز چیانلس پر چھائے رہے۔ سی پلین ہندوستان کا نہیں تھا بلکہ یہ امریکہ سے لایا گیا اور یہ کراچی سے ہوتا ہوا گجرات پہنچا۔ کراچی میں اس طیارہ کی ری فیولنگ کی گئی ۔ اس طیارہ کا پائلٹ بھی امریکی تھا جس کا لباس وزیراعظم کے رتبہ کے اعتبار سے قابل اعتراض تھا۔ اس طرح امریکی طیارہ اور پاکستانی ایندھن کے استعمال سے مودی نے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ منور رانا نے شائد ان ہی حالات پر یہ شعر کہا ؎
میدان سے اب لوٹ کے جانا بھی ہے دشوار
کس موڑ پہ دشمن سے قرابت نکل آئی