میثاق مدینہ … مذہبی رواداری د اخلی امن و سلامتی اور باہمی ترقی و خوشحالی کا آئینہ دار

محمد قاسم صدیقی تسخیر
مکہ مکرمہ میں روز بروز کفار و مشرکین کی ایذا رسانی میں اضافہ ہونے لگا، وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کر رہے تھے، ان کے عزائم بلند ہو رہے تھے اور مکہ اسلام کی بتدریج وسعت کے ساتھ ان کے سینوں میں غیظ و غضب کے لاوے پھوٹ رہے تھے، بالآخر مسلمان ہجرت پر مجبور ہو گئے۔ کوئی حبشہ کا رخ کر رہا تھا تو کوئی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر رہا تھا، بالآخر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہجرت کا حکم ہوا اور آپﷺ ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے۔ آپﷺ کی آمد سے قبل اور آمد کے ساتھ ہی سیکڑوں مسلمانوں کے قافلے مدینہ منورہ کو اپنا مسکن بنانے لگے۔ اپنے گھربار، جائداد، تجارت، ہر چیز چھوڑکر اپنی جان و ایمان بچاتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے۔ سب سے پہلے ان مہاجرین کی معیشت کا انتظام ناگزیر تھا، لہذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت ہی حکمت و دانائی کے ساتھ ایک اہم اور مشکل معاملے کو حل فرمایا اور انصار و مہاجرین کے درمیان مواخاۃ یعنی اسلامی اخوت و بھائی چارگی کا رشتہ قائم فرمایا اور مہاجرین کو مدینہ منورہ کے انصار صحابہ کرام کے ساتھ معیشت میں بھی شریک فرمادیا۔

مسلمان مدینہ منورہ کو پہنچ چکے تھے، لیکن ہجرت کے باوجود قریش مکہ کی انتقامی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی، بلکہ مزید تیز ہو گئی اور وہ بہرصورت اسلام اور مسلمانوں کو روئے زمین سے نیست و نابود کرنے کا تہیہ کرچکے تھے۔ ان کی طاقت و قوت کا سارے عرب میں ڈنکا تھا، ان سے مقابلہ اور اندرونی ریشہ دوانیوں سے بچنے اور اسلام کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے مدینہ منورہ میں ایک سیاسی پلیٹ فارم کا قیام ناگزیر تھا، جس کے تحت مدینہ منورہ کے سارے منتشر قبائل مشترکہ و جنرل امور و معاملات پر متفق ہوں۔ اس وقت مدینہ میں یہود کے دس قبائل باہم ایک طویل خونریز جنگ میں مبتلا تھے۔ مدینہ منورہ کی اکثریت غیر مسلم آبادی پر مشتمل تھی، ان میں ایک اہم عنصر یہود کا بھی تھا۔ قبائل کے باہمی جھگڑوں اور تنازعات کی وجہ سے مدینہ کا شیرازہ بکھر گیا تھا اور وہ امن و سکون کے متلاشی تھے، لیکن امن کی راہ میں قبائلی عصبیت و منافرت اور قدیم مروجہ قبائلی نظام اہم رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و بصیرت ہی تھی کہ آپﷺ نے اس منتشر قوم کے سامنے پہلی مرتبہ مشورہ قوم کا تصور دیا، شہریوں کے حقوق و فرائض کی نشاندہی فرمائی، ان کے قدیم مروجہ قبائلی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے مدینہ میں ایک امت اور ایک ملت کی تجویز رکھی۔ مذہبی آزادی اور قبائل کے داخلی کلی اختیار کے ساتھ بیرونی حملوں کی مدافعت اور باہمی اختلافات کے تصفیہ کی بنیاد پر ان سارے قبائل کو متحد فرمایا۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کے مکان پر سارے مسلم و غیر مسلم قبائل کے نمائندوں کا اجتماع ہوا اور آپﷺ کی تجویز پر سارے قبائل بیرونی حملوں کے دفاع اور اندرونی مسائل کی یکسوئی کے لئے ایک چھوٹی سی ریاست کی تشکیل پر متفق ہو گئے اور سبھوں نے باتفاق آراء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جدید ریاست کا حاکم اعلی منتخب کیا۔

یہ درحقیقت مدینہ منورہ میں پہلی سیاسی فتح تھی اور فتح مبین کا پیش خیمہ بھی۔ اس ریاست کی بنیاد کامل رواداری، مذہبی آزادی اور باہمی تعاون پر مبنی تھی۔ یہ ایسے امور تھے کہ غیر مسلم اور یہود بھی ان کی افادیت کا انکار نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست اور شہریوں کے حقوق و فرائض کی نشاندہی کی۔ انصاف اور قانون کی حکومت قائم کی، قانون کے سامنے مساوات کا اصول جاری فرمایا، انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے اصول و ضوابط مرتب کئے، اس طرح انسانی معاشرہ کی تشکیل کے لئے ایک تحریری قانون و دستاویز کو مدون فرمایا، جس کو ساری دنیا ’’میثاق مدینہ‘‘ کے نام سے جانتی ہے اور عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیرس، کامل جامعہ نظامیہ) کے مطابق یہ دستاویز دنیا کی تاریخ کا پہلا تحریری قانون تھا، جو مختلف قبائل، مختلف مذاہب اور مختلف قوموں کے درمیان طے پایا تھا۔ اس کو آپ پہلی اسلامی مخلوط حکومت کہیں یا Unity in Diversity کی عمدہ مثال سے تعبیر کریں، یا اس کو ذات پات، قبائل، بادشاہت و ملوکیت کی زنجیروں سے آزاد انسانیت کے سامنے جمہوریت اور سیکولرازم کے عملی نمونہ سے موسوم کریں۔
المقریزی کے بیان کے مطابق یہ تحریر شدہ دستور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار مبارک سے لٹکا رہتا تھا۔ آپﷺ کے بعد یہ تلوار حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ملی، حضرت علی نے اس دستاویز کے کچھ حصہ کو کوفہ میں پڑھ کر سنایا۔ (بحوالہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ)

یہ دستور چھوٹے بڑے مختلف فقروں پر مشتمل ہے۔ دور جدید کے اکثر اہل علم نے ان فقروں کو دستوری دفعات کی صورت میں بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ۵۲ دفعات گنوائے ہیں اور بعض محققین نے ۴۸ دفعات پر اس کو منقسم کیا۔ بعض دفعات مسلمانوں کے باہمی تعلقات اور حقوق و فرائض کی نشاندہی کرتے ہیں اور بعض دفعات اہل اسلام، یہود اور دیگر اہل مدینہ کے باہمی تعلقات، حقوق و فرائض اور دیگر امور کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس کے چند بند درج ذیل ہیں:
’’یہ محمد نبی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا عہد نامہ ہے، جو قریش اور مدنی مسلمانوں کے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان طے پایا ہے، جو ان کی پیروی کرکے ان میں اس طرح آملیں کہ ان کے ساتھ رہیں اور ان کے ساتھ جہاد کریں۔
٭ یہ سب لوگ مل کر دوسرے لوگوں سے الگ ہوکر ایک امت قرار پائیں گے۔
٭ قریشی مہاجرین اپنے نظام قبیلہ کے مطابق باہم اپنی دیتیں ادا کریں گے۔ اسی طرح وہ اپنے قیدیوں کا فدیہ مؤمنوں اور مسلمانوں میں مروجہ دستور و انصاف سے ادا کریں گے۔
٭ تقوی شعار مسلمان متحد ہوکر ہر اس شخص کی مخالفت کریں گے، جو اہل ایمان کے درمیان ظلم، گناہ، زیادتی، سرکشی اور فساد و بغاوت کا موجب ہوگا۔ وہ سب اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، خواہ ظالم ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
٭ یہودیوں میں سے جو بھی ہمارا تابع ہو جائے گا، اس کے ساتھ دستور کے مطابق معاملہ انصاف و مساوات کا سلوک روا رکھا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا، نہ ان کے خلاف کسی کی مدد کی جائے گی۔

٭ مسلمانوں کی صلح یکساں اور برابر کی حیثیت رکھتی ہے، کوئی مسلمان قتال فی سبیل اللہ میں دوسرے مسلمان سے الگ ہوکر صلح نہیں کرے گا، اسے مسلمانوں کے درمیان مساوات و عدل ملحوظ رکھنا ہوگا۔
٭ مسلمان جب تک جنگ میں مصروف رہیں گے، جنگی اخراجات میں یہودی ان کے ساتھ شریک رہیں گے۔
٭ بنو عوف کے یہود بذات خود اپنے حلیفوں اور موالی کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے ساتھ ایک فریق اور جماعت ہوں گے۔ یہودی اپنے دین پر کاربند رہیں گے اور مسلمان اپنے دین پر، البتہ جس نے ظلم اور گناہ کیا، وہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو مصیبت میں ڈالے گا۔
٭ ان قبائل میں سے کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر مدینہ کے اس معاہدہ سے باہر نہیں نکلے گا۔
٭ اہل اسلام پر اپنے اخراجات اور یہود پر اپنے اخراجات واجب ہوں گے، نیز جو اس معاہدہ کے شرکاء سے جنگ کرے گا تو تمام شرکاء اس کے خلاف آپس میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
٭ وہ آپس میں ایک دوسرے کے خیر خواہ رہیں گیاور ہر حال میں مظلوم کی مدد کریں گے۔
٭ اس معاہدہ والوں کے لئے مدینہ کی حدود کا داخلی علاقہ حرم کی حیثیت رکھے گا۔
٭ ہمسایہ پڑوسی اپنے آپ کی طرح ہوگا، نہ اسے نقصان پہنچایا جائے گا اور نہ اس پر زیادتی کی جائے گی۔

٭ کسی کی زیر کفالت شخص کو اس کی اجازت کے بغیر پناہ نہ دی جائے گی۔
٭ معاہدہ کرنے والوں کے درمیان جو بھی نیا معاملہ یا قانون شکنی کا واقعہ پیش آئے گا، جس سے نقصان اور فساد کا امکان ہو تو اس کے فیصلہ کے لئے اللہ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے گا (اور یہ کہ اللہ تعالی اس صحیفہ میں نیکی اور تقوی پر گواہ ہے)
٭ قریش اور ان کے مددگاروں کو کوئی پناہ نہیں دے گا۔
٭ جو کوئی یثرت (مدینہ) پر حملہ کرے گا تو یہ معاہدہ کرنے والے باہم اس کا مقابلہ کریں گے۔
٭ ان (مسلمانوں) میں سے جو اپنے حلیف کے ساتھ صلح کے لئے یہود کو دعوت دیں تو یہود اس سے صلح کریں گے۔ اسی طرح اگر وہ (یہود) ہمیں کسی ایسی ہی صلح کی دعوت دیں تو مسلمان بھی دعوت کو قبول کریں گے، بشرطیکہ وہ حلیف دین اسلام سے برسر پیکار نہ ہو۔
٭ قبیلہ اوس کے یہود بذات خود اور ان کے حامی اور حلیف اس عہد نامہ پر خوبی و عمدگی سے عمل پیرا ہونے والوں کے ساتھ رہیں گے۔ گناہ کی حدود سے ماوراء نیکی اور وفاداری ہے۔ ہر کام کرنے والا اپنے عمل کا ذمہ دار ہوگا، زیادتی کرنے والا اپنے نفس پر زیادتی کرے گا۔ اس معاہدہ پر سچائی اور نیکی سے کاربند رہنے والوں کا اللہ مددگار ہے۔

٭ یہ معاہدہ ظالم اور گنہگار کو اس کے عمل بد کے انجام سے نہیں بچائے گا، جو (مدینہ) سے باہر مر جائے گا وہ مامون رہے گا اور جو (مدینہ میں) بیٹھا رہے گا وہ بھی مامون رہے گا، لیکن جو ظلم و گناہ کرے گا وہ مامون نہیں رہے گا۔ اللہ اور اس کا رسول نیکو کار اور متقی لوگوں کے حامی و محافظ ہیں‘‘۔ (اقتباس ’’الوثائق السیاسیۃ‘‘۔ مؤلف: ڈاکٹر حمید اللہ)
ہندوستان میں بھی اکثریت غیر مسلموں کی ہے اور آزادی کے بعد سے آج تک صرف ایک ووٹ بینک کے طورپر استعمال ہوئے ہیں اور اقتدار پر براجمان جماعتوں نے مسلمانوں کو ہر سطح پر کمزور و پسماندہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ جب کہ مسلمان اپنی اکثریت اور عددی قوت کے باوجود فیصلہ کن موقف اختیار کرنے، اپنے وجود کو منوانے اور دیگر برادران وطن کی طرح حکومتی سہولتوں اور سرکاری ملازمتوں سے استفادہ میں ناکام رہے۔

مدینہ منورہ کے مسلمان، یہود اور غیر مسلم باشندگان کے درمیان طے پائے معاہدہ ’’میثاق مدینہ‘‘ ہندوستانی مسلمانوں کو دعوت فکر اور پیغام عزیمت دیتا ہے کہ کس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہ مدینہ منورہ میں ایک پردیسی تھے، مختلف الخیال، مختلف العقیدہ اور باہم منتشر قبائل کو متحد و یکجا کرکے ایک ملت بنائی۔ سارے مدینہ منورہ کو بلالحاظ مذہب و ملت تمام شہریوں کے لئے حرم قرار دیا، حب الوطنی کے بیج بوئے اور مشترکہ اقدار پر سب کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا۔ سیاسی رواداری، مذہبی آزادی کے اصول وضع کئے۔ سیاست میں اخلاقی عناصر کو شامل فرمایا۔ ظلم و ناانصافی، عدم مساوات، منافرت اور ایسی ہی دیگر خرابیوں کا خاتمہ فرمایا۔ کمزوروں، ناداروں اور مظلوموں کی فریاد رسی کا اہتمام کیا۔ داخلی امن و امان کو قائم فرمایا۔ تحفظ و دفاع کا خاطر خواہ انتظام کیا، جس کے نتیجے میں مدینہ منورہ، قریش مکہ کے خلاف ایک مشترکہ اتحاد بن کر ابھرا اور دیگر قبائل بھی قریش کا ساتھ دینے سے کترانے لگے۔
یہ معاہدہ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنے برادران وطن میں اپنے وقار و عظمت کو بحال کریں۔ مسلمان، غیر مسلموں کے ساتھ مل کر داخلی امن و سلامتی اور اپنے مادر وطن کے مصالح اور باہمی ترقی و خوشحالی کے لئے مؤثر کردار ادا کریں اور ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب مل کر ظلم و زیادتی، ناانصافی، غیر جانبداری، منافرت، عصبیت، جہالت و ناخواندگی کے خلاف صف آراء ہوں اور مذہبی امور میں مداخلت کے بغیر مشترکہ اقدار و امور پر ایک قوم اور ایک ملت کی عملی تصویر بن جائیں۔ اس کے لئے مسلمانوں کو سیاسی حکمت عملی، دور اندیشی اور جامع منصوبہ بندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔