میثاق مدینہ کی تفصیل

سوال : میں قانون کا طالب علم رہا ہوں اور میں اسلامی قانون سے متعلق مطالعہ کرتے رہتا ہوں اور اسلام تاریخ میںایک معاہدہ کو کافی اہمیت حاصل ہے ۔ وہ معاہدہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاری سے کیا تھا ، جو اسلام کی جمہوری فکر کی غمازی کرتا ہے جس کو میثاق مدینہ کہتے ہیں ۔ مجھے دریافت کرنا یہ ہے کہ اس معاہدہ کی صحیح تاریخ کیا ہے؟ یہ معاہدہ کب کس وقت اور کس کے ساتھ کیا گیا ؟
محمد خلیل ایڈوکیٹ
جواب : میثاق مدینہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی الہامی بصیرت اور خداداد فراست کا شاہکار ہے ۔ ایک عظیم الشان ریاست کی تاسیس اور تدبیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ کارنامہ ہے جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ اس معاہدہ کی تاریخ کے بارے میں قدیم مورخین و محدثین کے ہاں کوئی واضح اختلاف نہیں پایا جاتا ۔ سبھی اسے ہجرت مدینہ کے فوری بعد اور غزوہ بدر سے پہلے کا معاہدہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں۔ ہماری رائے میں یہ معاہدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے آغاز کے وقت کیا گیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام کو استحکام و غلبہ حاصل نہیں ہوا تھا ۔ نہ اس وقت تک اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم صادر ہوا تھا یہ (مدینہ کے) اہل کتاب تین گرہوں پر مشتمل تھے۔ بنو ’’قینقاع ‘‘ بنو نضیر اور بنو قریضہ (کتاب الاموال، 1 : 364 ) دور جدید کے اہل علم نے میثاق مدینہ کی تاریخ کو بھی موضؤع بحث بنایا ہے ۔ مجید خدوری نے بھی بڑے یقین سے اسے غزوہ بدر سے پہلے کی دستاویز قرار دیا ہے ۔ (The Law of War and ) (ص: 206 ۔ peace in islam )
ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اس معاہدہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے اور یہ رائے قائم کی ہے کہ اس کا پہلا حصہ غزوۂ بدر سے پہلے کا ہے اور دوسرا حصہ غزوہ بدر کے بعد کا ہے ۔ انہوں نے بڑی تفصیلی بحث کی ہے اور مضبوط دلائل دیئے ہیں ۔
بنو فینقاع جو اس معاہدہ کے ایک فریق تھے، انہیں غزوہ بدر کے ایک ہی ماہ بعد ، اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے پر مدینہ سے نکالا گیا۔ ابن اسحاق نے اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے : ان بنی قینقاع کانوا اول یھود نقضوا ما بینھم و بین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و حاربوا فی بدر واحد (ابن ہشام : السیرۃ االنبویہ 51:3 ) یعنی بنو قینقاع پہلی جماعت تھی جس نے اس معاہدہ کو توڑا جو ان کے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا ، انہوں نے بدر واحد کی درمیان مدت میں لڑائی کی تھی۔یہ عبارت اس بات کو پوری طرح سے واضح کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام یہودیوں سے جن میں بنو قینقاع بھی موجود تھے، یہ معاہدہ غزوہ بدر سے پہلے ہی کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس معاہدہ کے متن میں بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ کا نام درج نہیں۔ یاد رہے کہ ان قبائل کو اوس و خراج کا حلیف ہونے کی وجہ معاہدہ میں شریک کیا گیا۔

بعد تدفین قبر پر پانی ڈالنا
سوال : میں بچپن سے ہی کئی مرتبہ تدفین میں شریک رہا اور میں نے دیکھا کہ میت کی تدفین کے بعد قبر پر پانی کا ایک لوٹا یا کچھ پانی ڈالا جاتا ہے ۔ حال ہی میں میں ایک ہمارے عزیز کے جنازہ میں شریک ہوا، تدفین کے بعد قبر پر پانی نہیں ڈالا گیا اور بتایا گیا کہ اس طرح کا رواج شریعت کے خلاف ہے ۔ براہ کرم شرعی لحاظ سے اس کا کوئی ثبوت ہے یا پھر یہ ایک رواج ہے ۔ جواب دیجئے ۔
مظہر حسین، کاماٹی پورہ
جواب : بعد تدفین قبر پر پانی چھڑکنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ فقہاء نے اس کو مندوب کہا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد اور اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی قبر کے ساتھ ایسا کیا تھا اور حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے لئے حکم فرمایا تھا۔ رد المحتار کتاب الصلاۃ ص :256 میں ہے: (ولابأس برش الماء علیہ) بل ینبغی أن یندب، لانہ صلی اللہ علیہ وسلم فعلہ بقبر سعد کما رواہ ابن ماجۃ ، و بقبر ولدہ ابارہیم کما رواہ ابو داود فی مراسیلہ و أمربہ فی قبر عثمان بن مظعون کمارواہ البزار۔
واضح رہے کہ بعد تدفین قبر پر پانی ڈالنا مٹی کی حفاظت و نشاندہی کیلئے ہے۔

حاملہ کی طلاق / خلع کا طریقہ، بیوی بچوں کے حقوق
سوال : (1حالت حمل میں دی گئی طلاق شریعت کی رو سے واقع ہوجاتی ہے ۔
(2 اگر عورت خلع لینا چاہے تو اسلام کے کیا احکام ہیں؟
(3 ماں بیرون ملک ملازمت کرتی ہے ، اولاد کو ا پنے ماں باپ کے پاس چھوڑ جاتی ہے کیونکہ ماں کو ڈر ہے کہ باپ کے پاس اولاد کو رکھیں تو اولاد کی پرورش ٹھیک نہیں ہوگی ؟ دکھ بیماری میں ان کا خیال نہ رکھا جائے گا۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
(4 اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے حقوق ادا کرنا اور بیوی بچوں کے حقوق کو بھول جانا شرعاً جائز ہے ؟ شرعی احکام سے نوازیں تو باعث ممنونیت۔
مبین بیگم، مستعد پورہ
جواب : شرعاً ایک ہی وقت میں تین طلاق دینا طلاق بدعت ہے ، طلاق بدعت واقع ہوجاتی ہے اور طلاق دہندہ گنہگار ہوتا ہے ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 3 کتاب الطلاق میں ہے : (وأقسامہ ثلاثۃ : حسن ، و احسن، و بدعی یأثم بہ … والبدعی ثلاثہ متفرقۃ) او ثنتان بمرۃ أو مرتین ۔ ردالمحتار میں اسی کے تحت ہے قولہ : (والبدعی) منسوب الی البدعۃ ، والمراد بھا ھنا المحرمۃ لتصریحھم بعصیانہ، بحر قولہ : (ثلاثۃ متفرقۃ) و کذا بکلمۃ واحدۃ بالأولی۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، چند لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کئے : ہمارے والد نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین طلاق سے ہی اس کی بیوی جدا ہوگئی ، وہ اللہ کی نافرمانی میں ہے اور 997 طلاق اس کی گردن میں قیامت تک وبال بن کے رہیں گے۔
فی حدیث عبادۃ بن الصامت۔ رضی اللہ عنہ ۔ أن قوماجاء وا الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالو ! ان اباناطلق امر اتہ الفا فقال صلیاللہ علیہ وسلم ۔ بانت امر أتہ بثلاث فی معصیۃ اللہ تعالیٰ و بقی تسعمائۃ و تسعۃ و تسعون و زرافی عنقہ الی یوم القیامۃ۔ (مجلہ البحوث الاسلامیہ ۔ شمارہ 3 ۔ رجب تا ذوالحجۃ 1317 ھ حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنی اہلیہ کو بحالت حیض طلاق دیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیوی کو رجوع کرنے کا حکم فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا : ارأیت لو طلقتھا ثلاثا اکانت تحل لی ؟ فقال صلی اللہ علیہ وسلم : لا ، بانت ، منک وھی معصیۃ۔ ترجمہ : آپ کیا فرماتے ہیں۔ اگر میں اس کو تین طلاق دیتا تو کیا وہ میرے لئے حلال ہوتی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیفرمایا انہیں وہ تم سے جدا ہوجاتی اور یہ گناہ ہے ۔ (نفس حوالہ)
پس یہ ایک وقت تین طلاق دینے سے تین طلاقیں واقع ہوکر شوہر سے تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوجاتا ہے اور طلاق دینے والا گنہگار بھی ہوتاہے ۔ نیز وہ دونوں بغیر حلالہ آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کرسکتے۔ در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد 3 کتاب الطلاق میں ہے : (و ینکح) مبانتہ بما دون الثلاث فی العدۃ و بعدھا بالاجماع لا) ینکح (مطلقۃ) من نکاح صحیح نافذ کما سنحققہ (بھا) ای بالثلاث (لوحرۃ و ثنتین لو امۃ) ولو قبل الدخول و مافی المشکلات باطل او مؤول کما (حتی یطاھا غیرہ ولو مراھقا بنکاح) نافذ … (و تمضی عدقہ ۔
حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : جب آدمی اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دے جبکہ وہ حاملہ ہو تو وہ رجوع کرلینے کی زیادہ حقدار ہے یہاں تک کہ زجگی ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان عورتوں کیلئے …نہیں وہ چھپائیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے ۔ اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتی ہوں ۔ سورۃ البقرۃ 228/5 (…جریر عبری (2/448) بیھقی۔
خلع شریعت میں بیوی کی جانب سے کچھ معاوضہ دیکر عقد نکاح کو زائل کرنے کا نام ہے ۔ در مختار باب الخلع میں ہے : ھو ازالہ ملک النکاح المتوقفۃ علی قبولھا بلفظ الخلع او فی معناہ
خلع انھی الفاظ اور صیغوں سے ہوا کرتی ہے جن سے صاف و ظاہر طور پر یہ ثابت ہوجائے کہ شوہر نے معاوضہ کے بدلے میں ملک نکاح کو زائل کردیا ہے اور تمام حقوق زوجیت ساقط کئے ہیں اور بیوی نے اس کو تسلیم کرلیا ہے ۔ درمختار باب الخلع میں ہے : و یکون بلفظ البیع و الشراء والطلاق والمباراۃ کبعت نفسک او طلاقک او طلتقک علی کذا و بارتک ای فارقتک و قبلت المرأۃ۔
اگر میاں بیوی میں موافقت نہ ہو اور نباہ نہ ہوسکے تو عورت کو اجازت ہے کہ اپنا مہر معاف کردیکر یا کچھ مال دیکر شوہر سے اپنی خلاصی کرائے جس کا طریقہ یہ ہے کہ عورت شوہر سے کہے’’میرا مہر جو تیرے ذمہ ہے اس کے یا موجودہ زر نقد وغیرہ کے عوض میری جان چھوڑ دے۔ مجھے قید نکاح سے علحدہ کردے ۔ شوہر کہے ’’میں نے چھوڑدیا۔ یا تیری طلب خلع کو قبول کرلیا تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور دونوں میں رشتہ نکاح منقطع ہوجائے گا ۔ درمختار مطبوعہ زکریا۔ ج : 5 ص : 92میں ہے : (و) الخلع (ھو من الکنایات فیعتبر فیہ ما یعتبر فیھا (من قرائن الطلاق ۔ اور بیوی پر مقررہ معاوضہ ادا کرنا لازم ہوگا اورمعاوضہ مقرر نہ ہو تو مہر معاف ہوجائے گا۔
خلع قبول کرتے وقت شوہر نے ایک یا دو طلاق بائن دی ہے تو وہ دونوں اندرون عدت و بعد ختم عدت جب چاہیں دوبارہ نکاح کرلے سکتے ہیں اور اگر شوہر نے خلع قبول کرتے ہوئے تین طلاق دی ہے تو وہ دونوں بغیر حلالہ آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کر سکتے۔
لڑکا سات سال تک اور لڑکی بلوغ تک ماں کی پرورشی میں رہے گی ، ماں اگر وموجود نہ ہو تو ان کا حق پرورشی نانی کو حاصل ہوگا۔ لڑکا سات سال کا ہوجائے اور لڑکی سن بلوغ کو پہنچ جائے تو ان کا حق حضانت والدکو حاصل ہوگا ۔ در مختار باب الحضانۃ میں ہے : تثبت للام… تم) ای بعدالأم بأن ماتت اولم تقبل او اسقطت حقھا او تروجت باجنبی (ام الأم وان علت عند عدم اھلیۃ القربی … والحاضنۃ) اما او غیرھا (احق بہ ) ای بالغلام حتی یستغنی عن النساء و قدر بسبع… (والام والجدۃ احق بھا) بالصغیرۃ (حتی تحیض) ای تبلغ اور ردالمحتار میں ہے : واذا استغنی الغلام و بلغت الجاریۃ فالعصبۃ اولی یقدم الأ قرب فالأ قرب)۔
ماں باپ کے حقوق مسلم ہیں اور بیوی بچوں کے حقوق بھی مسلم ہیں۔ ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی سے بیوی بچوں کے حقوق ساقط نہیں ہوتے۔ ان کے حقوق کو ادا کرنا لازم و ضروری ہے۔ کوتاہی و لاپرواہی برتنے پر وہ عنداللہ ماخوذ ہوگا۔