میثاق اتحاد

کے ا ین واصف
سکریٹری جنرل آل انڈیا ملی کونسل دہلی ڈاکٹر منظور عالم جب جب مملکت کے دورے پر آتے ہیں تو ملی کونسل ریاض چاپٹر ایک خصوصی اجلاس کا اہتمام کرتا ہے جس میں ریاض کی سماجی تنظیموں کے نمائندے اور انڈین کمیونٹی کی دیگر اہم شخصیات شرکت کرتی ہیں۔
حالیہ عرصہ میں ہوئے دہلی ریاستی اسمبلی انتخابات اور اس کے نتائج سے مرتب ہونے والے سیاسی اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر منظور عالم نے کہا کہ کجریوال نے اپنی انتخابی مہم میں عوام سے ذات پات ، فرقہ اور مذہب کا کہیں ذکر کئے بغیر صرف ریاست میں تعلیمی ترقی، غریبی اور بیروزگاری کے خاتمہ کی بات کی۔ شہری آبادی کی پڑھی لکھی اکثریت کو کجریوال کی اس بات نے اپنی طرف راغب کیا۔ عام آدمی پارٹی (آپ) کی نہ قابل یقین کامیابی نے یہ بھی ثابت کردیا کہ عوام کو فرقہ واریت کی باتوں، ہندتوا، ہندو راشٹر وغیرہ جیسی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وہ صرف ترقی چاہتے ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ اس میں اقلیت و اکثریت دونوں کی بھلائی ہے اور ملک کی سالمیت اور ترقی بھی اس پالیسی میں مضمر ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اروند کجریوال نے اس الیکشن میں ووٹنگ مشینوں میں ہیرا پھیری نہیں ہونے دی جو بی جے پی کو مہنگا پڑا۔

ہندوستان میں اعلیٰ ذات کے ہندو ایک بہت چھوٹی سی تعداد ہیں۔ مگر یہ چھوٹی سی تعداد ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بنی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر منظور عالم نے کہا کہ کجریوال کا سیاست میں داخلہ بڑی ذات کے ہندوؤں کے درمیان ایک لکیر کھینچ گئی ہے ۔ اب اگر کجریوال قومی سیاست کی طرف بڑھتے ہیں تو ان کیلئے راہیں صاف ہیں اور دہلی جیسی چھوٹی سی ریاست میں ڈپٹی چیف منسٹر کا تقرر اس بات کا ثبوت ہے کہ کجریوال قومی سیاست کو وقت دینا چاہتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ پہلے دہلی میں اپنے انتخابی وعدے پورے کریں یا اس میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ تب اس کا اثر قومی سیاست پر پڑ ے گا۔ آخر میں ڈاکٹر منظور عالم نے ملی کونسل کے ’’میشاق اتحاد‘‘ پروگرام کی تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ آل انڈیا ملی نے اگست 2014 ء کو نئی دہلی میں جملہ مسلم تنظیموں و جماعتوں کے سربر آوردہ نمائندگان پر مشتمل ’’ملک و ملت کو درپیش چیلنجس‘‘ کے عنوان سے جو مشاورتی اجتماع منعقد کیا تھا ، اس موقع پر مختلف مسالک و مکاتب فکر کے اختلافات کی شدت کم کرنے کی خاطر ایک ’’میشاق اتحاد‘ کی تیاری پر غور کیا گیا تھا۔ اس بارے میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی کنوینر شپ میں ایک ’’میشاق کمیٹی‘‘ کا قیام عمل میں آیا تھا اور اس نے جو مسودہ تیار کیا تھا اسے پورے ملک میں تمام مسلم تنظیموں، جماعتوں اور سربر آوردہ شخصیات کو روانہ کر کے ان کی آراء و تجاویز حاصل کی گئی تھیں اور اس پیشرفت سے ہمیں کامیابی ملی اور متعدد اکابرین و زعمائے ملت کی جانب سے موصولہ تجاویز ہیں۔ ’’میشاق کمیٹی‘‘ کی اکتوبر 2014 ء کی ایک اور میٹنگ بھی ہوئی اور حسب فیصلہ ڈرافٹ میں از سر نو ترمیم کی گئی۔ نو ترمیم شدہ ڈرافٹ کو ایک بار پھر مختلف ملی قائدین و دینی جماعتوں کے سربراہان کو ایک مکتوب کے ساتھ روانہ کر کے ان حضرات کی آراء، تجاویز مانگی گئیں۔ ڈاکٹر منظور عالم نے بتایا کہ اکتوبر 2014 ء کے ترمیم شدہ ’’میشاق اتحاد‘‘ پر مزید غور و خوص کیلئے فروری 2015 ء کے پہلے ہفتہ میں میشاق کمیٹی کے کنوینر اور متعلقہ ذمہ داروں پر مشتمل ایک اہم ترین مشاورتی اجلاس میں اس ڈرافٹ کی تمام باریکیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعض جزوی ترمیمات کی گئی ہیں اور لگتا ہے کہ شاید اب مزید ترمیم یا تبدیلی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ نو ترمیم شدہ مسودہ میشاق کو اواخر مارچ میں حتمی شکل دے دی جائے گی ۔
ڈاکٹر منظور عالم نے اپنی ایک تحریر میں میشاق اتحاد کی تمہید یوں بیان کی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دیگر اہل مذاہب کے مسلمانوں کے درمیان متفقہ اور مشترکہ امور زیادہ ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد و اعمال کے بارے میں امت کے درمیان کوئی بڑا اختلاف نہیں رہا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی توحید، انبیاء پر ایمان ، محمد رسولؐ کی نبوت اور آپؐ پر ختم نبوت کا عقیدہ، قرآن مجید کا غیر محرف اور منزل من اللہ ہونا، ملائکہ ، حشر و نشر اور جنت و جہنم وغیرہ ، اسی طرح نماز و روزہ ، حج و زکوۃ وغیرہ کی فرضیت، سود، زنا، شراب وغیرہ کی حرمت، نکاح و طلاق ، میراث مالی معاملات اور قانون تغیرات سے متعلق بنیادی احکامات، غرض کہ جو امور متفقہ ہیں ان کی تعداد پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہے اور 45 فیصد سے بھی زیادہ وہ مسائل ہیں جن میں زیادہ درست اور کم درست ، صحیح اور صحیح تر ، جائز اور بہتر کا اختلاف ہے جس کو اختلاف کے بجائے تنوع کہنا ز یادہ درست ہوگا۔

ڈاکٹر منظور عالم آگے کہتے ہیں اگر شمار کیا جائے تو اعتقادات اور عملی احکامات کی تفصیلات کو ملاکر تین چار فیصد مسائل ہی ایسے ہوں گے جن میں درست اور غیر درست اور حلال و حرام کا اختلاف ہے لیکن ملت اسلامیہ کو کمزور کرنے کیلئے صیہونی ، صلیبی اور دیگر اسلام دشمن طاقتیں عرصہ سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے اور آپس میں فاصلے پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور وہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔ اسی سازش نے ساری دنیا میں اسلام کو پارہ پارہ کردیا۔ ان کو ایسی چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم کر کے بے اثر کردیا کہ وہ مغرب کو آنکھیں نہ دکھا سکیں۔اس کے نتیجہ میں اسرائیل کا زہر آلود خنجر عالم اسلام کے قلب میں پیوست کردیا گیا ۔ اس وقت بھی ان کی یہ کوشش پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔

ڈاکٹر منظور نے آگے بیان کیا کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس میں انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ یہاں مسلمانوں نے انسانی مساوات ، خواتین کے احترام کی دعوت دی ، رواداری اور تحمل کے ساتھ ہمہ مذہبی اور ہمہ لسانی معاشرہ کی تشکیل کی، انسانی وقار و شرافت کی فکر دی، روحانی و اخلاقی اقدار کو پروان چڑھایا اور ایک وسیع تر ہندوستان کا تصور دیا ۔ اس ملک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ مختلف اہم و مقبول اسلامی تحریکات کا مبداء اور مرکز رہا ہے ۔اس لئے اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش اندرون ملک بھی ہورہی ہے اور بیرون ملک بھی ۔ خاص کر اس وقت فرقہ پرست طاقتیں سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کو بے وقعت کرنے اور ان کو مذہبی تشخصات سے محروم کرنے کی غرض سے مختلف مسالک کے درمیان اختلاف کو ہوا دے رہی ہیں۔ ڈاکٹر منظور آگے فرماتے ہیں کہ ان حالات میں مختلف مسالک کے علماء اور دینی جماعتوں کے ذمہ داروں کا فریضہ ہے کہ وہ اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ امت کے درمیان فکری و فقہی اختلاف ہو تو اختلاف کو ایسی حد تک جانے نہ دیں جو مسلمانوں کے درمیان انتشار اور ملت کی صف میں بکھراؤ کا سبب بنے ۔ اس لئے ہم لوگ درج ذیل باتوںکا عہد کریں اور ہم خود بھی اس پر قائم رہیں اور اپنے متبعین و متعلقین کو بھی اس پر قائم رکھنے کی کوشش کریں اور وہ عہد نامہ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
– 1 ہم سب کلمہ طیبہ کی اساس اتحاد ملت کو فروغ دیں گے اور ملت کے مشترکہ مسائل کیلئے مشترکہ جدوجہد کریں گے ۔
– 2 ہم رسولؐ کے صحابہ، امہات المومنین اورا ہل بیت کا احترام ملحوظ رکھیں گے اور ایسی باتوں سے احتراز کریں گے جوان کی شان میں تنقیص کا موجب ہوں۔
– 3 جو گروہ اپنے آپ کے بارے میں جن عقائد کا اقرار کرتا ہے اور وہ اپنی جو رائے کا اظہار کرتا ہے اسی کو ان کا حقیقی نقطہ نظر باور کریں گے ۔ ہم ان کی طرف اس سے مختلف ایسی رائے کی نسبت کرنے سے گریز کریں گے جس سے ان کو انکار ہو۔

– 4 ہم اس بات کا خیال رکھیں گے کہ دوسرے نقطہ نظر کے حاملین جن بزرگوں سے عقیدت و ارادت کا تعلق رکھتے ہیں، علمی و فکری مباحث کے درمیان ان کے بارے میں ایسی بات نہ کی جائے جو دل آزاری کا باعث بنے
– 5 مسالک کے اختلاف کی گفتگو کو اپنی درسی اور علمی محفلوں تک محدود رکھیں گے ۔ عوام میں حتی الامکان ایسے مسائل کو لانے سے اجتناب کریں گے اور اگر ایسے مسائل کو عوام میں لانا ضروری سمجھیں تو آداب اختلاف ملحوظ رکھیں گے اور داعیانہ اسلوب سے کام لیں گے۔
– 6 اہم اپنی تحریروں میں اختلاف رائے کو اعتدال اور دوسرے فریق کی بے احترامی کے اجتناب کی رعایت کرتے ہوئے پیش کریں گے۔

– 7 ملت اسلامیہ کے جو مشترکہ مسائل ہیں انہیں مشترکہ طور پر مرکزی و ریاستی حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور برادران وطن کے سامنے پیش کریں گے۔
– 8 ہم اس بات کا خیال رکھیں گے کہ مسلکی اختلاف مسلمانوں کیلئے سیاسی اعتبار سے نقصان اور بے وزنی کا سبب نہ بنے اور ہم پوری طرح اجتماعیت کا ثبوت دیں گے۔
– 9 اگر کبھی مختلف مسلکوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان اختلاف کی صورت پیدا ہوجائے تو ہم کوشش کریں گے کہ باہمی توافق اور صلح کے ذریعہ مسئلہ حل ہوجائے۔ پولیس کیس اور مقدمہ بازی کی نوبت نہ آئے اور اعدائے اسلام ہمارے اختلاف سے فائدہ نہ اٹھاسکیں۔
اللہ کرے کہ ملت اسلامیہ میں ’’میشاق اتحاد‘‘ کے ذریعہ ایکتا، بھائی چارہ، تحمل اور اخلاص پیدا کرنے کی ملی کونسل دہلی کی یہ کاوشیں کامیاب ہوں۔
اس خصوصی اجلاس کا آغاز ڈاکٹر انیس جمیل کی قرات کلام پاک سے ہوا جس کے بعد ملی کونسل ریاض کے کنوینر انجنیئر خالد نور نے خیرمقدم کیا اور شریک کنوینر عبیدالرحمن نے ملی کونسل کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی اور اجلاس کے اغراض و مقاصد بیان کئے ۔ اس اجلاس کے اختتام سے قبل ڈاکٹر منظور عالم نے حاضرین کے سوالوں کے جواب بھی دیئے ۔ ایک مقامی ریسٹورنٹ کے ہال میں منعقد اس اجلاس کا اختتام عبید الرحمن کے ہدیہ تشکر پر ہوا۔
knwasif@yahoo.com