میاں اور بیوی کے رشتہ میں میانہ روی ضروری!

سب سے زیادہ حساس اور نازک رشتہ میاں اور بیوی کا ہوتا ہے۔ یہ رشتہ جتنا مضبوط ہے اتنا ہی کمزور بھی ہے۔ اس لئے کہ میاں اور بیوی کے نزدیک چھوٹی اور معمولی باتیں بھی دوسرے اہم معاملہ میں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اس لئے یہاں محبت میں میانہ روی اختیار کرنا ضروری ہے۔ خصوصاً اگر خواتین کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھلی کتاب کی طرح دکھائی دیتی ہے کہ وہ حساس طبیعت کی حامل ہوتی ہیں اسی لئے ان کے نزدیک چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی کافی اہمیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر وہ اپنے شوہر کے لئے محبت سے بھرا لنچ تیار کریں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ شوہر جاتے جاتے ان کی تعریف کرے اور انہیں سراہے، انہیں اس بات کا احساس دلائے کہ ان کی زندگی میں سب سے اہم وہی ہے اور اگر شوہر نے عجلت میں اس طرح کا اظہار نہیں کیا تو وہ مایوس ہوجاتی ہے اور وہ اپنے شوہر سے بات چیت نہیں کرتیں۔ خواتین کے اس طرح رویہ سے دلوں میں دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ محبت کے اظہار کے لئے اکثر خواتین اپنے شوہروں کو دفاتر میں فون بھی کرتی ہیں جس سے بعض اوقات شوہر حضرات زچ ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار تو ڈانٹ بھی دیتے ہیں اور پھر یہ بات کانٹے کی مانند بیوی کے دل میں چبھنے لگتی ہے اور یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ اس کے شوہر کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔میاں بیوی کے درمیان اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی ایک فریق اپنی غلطی نہ ہونے کے باوجود معافی مانگتا ہے تاکہ گھر کا ماحول ساز گار رہے اور ان کی آپسی لڑائی کا بچوں پر اثر نہ پڑے۔

لیکن ہر بار دوسرے فریق کی غلطی پر خود معافی مانگ لینے سے دوسرے میں یہ احساس جنم لیتا ہے کہ میں کبھی غلطی پر نہیں ہوسکتا؍ ہوسکتی۔ اس طرح فریق کو غلطی سدھارنے کا موقع نہیں ملتا۔ غلطیوں کو نظرانداز کرنا محبت کا تقاضہ ضرور ہے لیکن غلطی کا احساس نہ دلانا بھی ایک بہت بڑی بھول ہے جس کے نتائج وقت کے ساتھ ساتھ رونما ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ غلطی کا احساس دلانے کے بعد بات چیت بند کردی جائے یا کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے آپ کے ہمسفر کی دل آزاری ہو۔ بہتر ہوگا کہ آپس میں بات چیت کرکے اسے اس کی غلطی کی نشاندہی کرائی جائے اور یہ احساس دلایا جائے کہ آپ ہر لمحہ ان کے ساتھ ہیں۔ اس طرح میاں اور بیوی مل کر کسی ثالث کے بغیر اپنے درمیان فاصلوں کو کم کرسکتے ہیں اور ایک دوسرے کو اعتماد میں لے سکتے ہیں۔میاں اور بیوی کے پیش نظر یہ بات رہنی چاہیئے کہ شادی کے بندھن میں بندھنے والے ایک دوسرے کی خوشی اور غم کے بھی ساتھی ہوتے ہیں اور نکاح ہوتے ہی دونوں فریقین پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ زندگی کے ہر موڑ پر ایک دوسرے کا ساتھ نبھائیں گے۔رشتے کو مضبوط کرنے کیلئے ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنا بہت ضروری ہے، خاص طور پر خواتین کو چاہیئے کہ وہ ہر بات دل پر نہ لیں بلکہ اپنے شوہر کی تمام باتوں اور مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی ڈانٹ یا غصہ کی وجہ ان کے دفتر یا کاروبار میں ہونے والی کوئی پریشانی ہو کیونکہ مرد حضرات میں عموماً یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی پریشانیوں کا تذکرہ گھر میں بہت کم کرتے ہیں تاکہ اس کا اثر ان کے گھر والوں نہ پڑے۔ خواتین کو کوشش کرنی چاہیئے کہ چھوٹی چھوٹی بیجا باتوں پر شوہروں سے اُلجھنے یا موڈ خراب کرنے کے بجائے ان کے مسائل سمجھیں اور ایک باشعور اور عقلمند بیوی ہونے کا ثبوت دیں۔ آپ کے اس طرح کے عمل سے آپ کے شوہر کو خود احساس ہوگا اور وہ کچھ دن بعد خود سے اپنی تمام باتیں آپ کو بتائیں گے۔

بیوی کو چاہیئے کہ دل چھوٹا کرنے کے بجائے خوش دلی کے ساتھ شوہر کو یہ احساس دلائے کہ وہ ان کے ہر اچھے اور برے وقت کے ساتھی ہے۔ اس طرح شوہر کو بھی ہر وقت ہٹلر نہیں بنے رہنا چاہیئے، کبھی کبھی اپنی پریشانیوں اور مسائل کو پس پشت ڈال کر بیوی کی باتوں کو بیزارگی کے ساتھ سننے کے بجائے ان کے پاس بیٹھ کر اطمینان سے بات سن لینی چاہیئے اور انہیں یہ احساس دلانا چاہیئے کہ کام اور پریشانی سے زیادہ ان کیلئے بیوی اہم ہے۔ اس طرح سے نہ صرف گھر کا ماحول اچھا رہے گا بلکہ میاں بیوی کے رشتہ میں مزید مضبوطی آئے گی اور بلاشبہ ازدواجی زندگی میں میاں اور بیوی دونوں کا ہی کردار بہت اہم ہے اور اس رشتہ میں محبت کی چاشنی گھولنے کیلئے دونوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی انانیت ختم کردیں جس سے ایک مثالی اور پائیدار رشتہ قائم ہوسکتا ہے۔ عقلمندی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے احساسات و جذبات کو سمجھیں اور چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کرنا سیکھیں کیونکہ خوشگوار زندگی کا راز اسی بات میں پنہاں ہے کہ میاں اور بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہو، آپس میں محبت بڑھائیں اور ایسی مثال قائم کریں جسے دوسرے بھی اپنانے کی کوشش کریں اور آپ بھی مطمئن اور پرسکون رہیں کیونکہ ذہنی آسودگی اور دل کا سکون سچی محبت میں ہی مضمر ہے۔
عذرا دکنی