جنوب مشرقی ایشیا کے چھوٹے سے ملک میں جس کو سابق میں برما کہا جاتا تھا اور اب میانمار کہا جارہا ہے ، تقریباً 1.2 ملین مسلمان بستے ہیں، جنہیں روہنگیا مسلمان کہا جاتا ہے ۔ یہ مسلمان اپنے ہی وطن میں ہر قسم کے بھید بھاؤ اور اہانت آمیز سلوک کے مستحق سمجھے جاتے ہیں۔ میانمار عرصہ دراز تک فوجی حکومت کے تحت رہا۔ 2001 ء میں یہاں جمہوریت کی روشنی پھیلی، لیکن یہ ایسی روشنی ثابت ہوئی کہ میانمار کے روہنگیا مسلمان مزید گھٹا ٹوپ اندھیروں کے نذر ہوگئے۔ موجودہ میانمار حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مسلم آبادی بنگلہ دیش سے یہاں آئی ہے ، اس لئے وہ اس ملک میں رہنے بسنے کی مستحق نہیں ہے ۔ پچھلے چند برسوں سے تو ان مسلمانوں کا گویا عرصۂ حیات ہی تنگ ہوگیا۔ بنگلہ دیش انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیںہے ۔ کوئی اور مسلم ملک ان کو آنے نہیں دیتا۔ مسلم دنیا کے بارے میں تو یہ کہا جاسکتا ہیکہ دس لاکھ 20 ہزار مسلمانوں کی افتاد سن کر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ صرف ترکی واحد مسلم ملک تھا جس نے ان برمی مسلمانوں کی تباہ حالی پر اظہار مذمت کیا تھا ۔ یہ کیسی بے حسی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مسلمان ہیں۔ ملک میں پریشان ہیں،
بے سہارا ہے اور دنیا کی دوسری بڑی آبادی والی مسلم قوم ان کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتی ہے۔ ان بیچاروں پر ’’ملک ِخدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست‘‘ یعنی نہ خدا کی زمین تنگ ہے اور نہ فقیر کے پاؤں میں لنگ ہے ، تک صادق نہیں آتی۔ ان کے لئے ملکِ خدا ہی تنگ ہوگیا ہے ۔ اس سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ کسی مسلم ملک نے ان کے مسائل کی یکسوئی کے بارے میں غور تک نہیں کیا ۔ دنیا کی دس لاکھ انسانی آبادی ایسے ناقابل بیان مصائب سے دوچار ہے اور عالمی برادری کا ضمیر ہے کہ بدستور مردہ ہے ۔ روہنگیا کے یہ بے گھر مسلمان انسانی آبادی اور خاص طور پر مسلم دنیا سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیوں انہیں میانمار کے شدت پسند بدھسٹ کے ماننے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا ہے، جہاں فوجی حکومت یا جہاں کی جمہوریت ان کے حالات کو بدل نہیں سکتی ۔ 2001 ء میں بنگلہ دیش سے آنے والے ان مسلمانوں کے سارے انسانی حقوق سلب کردیئے گئے ہیں۔ ان کی معاشی پستی نے تمام حدود پار کرلئے ہیں۔ ویسے بھی یہ مسلمان متمول اور خوشحال کبھی نہیں تھے۔ زیادہ تر آبادی معمولی پیشوں سے وابستہ ہے۔ ان میں کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور ، کارخانوں میں ملازمت کرنے والے یا ٹھیلہ فروشی کرنے والے ہی شامل ہیں۔ تعلیمی پسماندگی تو مسلمانوں کا عالمی مسئلہ ہے ۔ خاصے خوشحال مسلم ممالک میں بھی علم کی کمی پائی جاتی ہے تو پھر روہنگیا مسلمانوں سے کیا شکایت کی جاسکتی ہے ۔ ان کا بچھونا زمین اور ان کا اوڑھنا آسمان ہے ۔ انہیں میانمار کے شہری علاقوں سے نکال دیا گیا ہے ۔
اس وقت ان کی زندگی ملک کے ایک پسماندہ صوبۂ راکھیں تک محدود کردیا گیاہے ۔ یہاں بھی پناہ گزین کیمپوں میں وہ کئی برس سے مقیم ہیں ۔ ان میں سے کچھ مسلمان ہندوستان بھی آئے تھے، خود ہمارے شہر حیدرآباد میں بھی روٹی روزگار کی تلاش میں میانمار کے مسلمان دکھائی دیتے ہیں ۔ بدھ اکثریت کے ظلم و تشدد کے نتیجہ میں 280 شہید ہوچکے ہیں، لیکن یہ اعداد و شمار معتبر نہیں ان کی بستیاں اجاڑدی گئیں، جو کچھ ان کے پاس اثاثہ تھا وہ بھی لوٹ لیا گیا، ان کی عبادتگاہوں (مساجد) کو آگ لگادی گئی ۔ ان کو ماہ رمضان میں تراویح کی نماز پڑھنے کی تک اجازت نہیں دی گئی ۔ رہی سہی مساجد سے اذان کو تک ممنوع قرار دیا گیا لیکن دنیا بھر میں انسانی حقوق کے نام نہاد سورماؤں نے کبھی میانمار حکومت یا وہاں کے بدھ راہبوں سے یہ تک نہیں پوچھا کہ کیوں مسلمانوں کی آزادی چھین لی گئی ۔ یہ سب کچھ اس بدھسٹ کو ماننے والوں نے کیا جنہیں لارڈ بدھا نے تعلیم دی تھی کہ ’’خبردار کسی جانور یا کسی پرندے کو ہلاک نہ کرو‘‘۔ ان تعلیمات کو فراموش کرتے ہوئے لارڈ بدھا کے چہروؤں نے انسانوں کا قتل عام کیا ۔ 2001 ء سے یہاں جو مسلم کش فسادات ہورہے ہیں، ان میں ایک لاکھ 14 ہزار روہنگیا مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ اب کہیں جاکر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان کی ہمدردی 193 ء رکن ممالک نے ایک قرارداد منظور کی ہے لیکن یہ قرارداد ایسی ہے کہ اقوام متحدہ میانمار کی حکومت کو اس پر عمل کرنے کیلئے مجبور نہیں کرسکتی ۔ جنرل اسمبلی کے بجائے اگر سیکوریٹی کونسل (صیانتی کونسل) میں کوئی قرارداد منظور کی جاتی تو شاید کچھ بات بنتی ہے۔ یہ قرارداد بھی یوروپی یونین کے ممالک نے پیش کی ہے ۔ کسی مسلم ملک کسی عرب دنیا کے ملک نے نہیں کی ہے ۔ بے شک اس کی تائید سبھی ممالک نے کی ۔ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے ، پھر بھی اس پر عمل کرنے کے لئے میانمار کی حکومت کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
صرف ایک بات کہی جاسکتی ہے کہ عالمی ادارے نے دیر سے ہی سہی آواز تو اٹھائی۔ قرارداد میں کہا گیا ہیکہ روہنگیا مسلمان کو ان کے تمام انسانی حقوق دیئے جائیں، ان کی اقتصادی ترقی کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔ انہیں تعلیم کے حصول کیلئے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ غرض یہ کہ انسانی آبادی کی حیثیت سے انہیں تسلیم کیا جائے کیونکہ یہ مسلمان میانمار میں ناپسندیدہ اور غیر مطلوب اقلیت کی طرح نہیں بلکہ میانمار کے شہریوں کی طرح رہ سکیں۔ یوروپی یونین کے ممالک کی تیار کردہ اس قرارداد سے روہنگیا مسلمان کو کتنا فائدہ ہوگا، یہ تو نہیں کہا جاسکتا، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان ممالک اور جنرل اسمبلی نے میانمار کے مسلمانوں کو درخو ر اعتناء سمجھا ۔ انہیں بنیادی انسانی حقوق دینے کی سفارش کی، دکھ کا اظہار کیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اتنا کرنا کافی ہوگا ۔ اس قرارداد کے مطالبات پر کتنا عمل مقامی حکومت کرے گی ، اس بارے میں بھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ایک دفتر باقاعدہ طور پر اس ملک میں قائم کیا جائے اور اس کی نگرانی اقوام متحدہ خود اپنے طور پر کرے۔ قرارداد اس صورت میں نتیجہ خیز ثابت ہوگی جبکہ اس پر عمل درآمد ہو، ورنہ اقوام متحدہ کی کئی اور قراردادوں کی طرح اس کا بھی وہی حشر ہوگا جو اسرائیل۔ فلسطین کے مسئلہ پر منظور کردہ قراردادوں کا ہوا بلکہ ایک اور نقصان یہ ہوگا ، یہ قرارداد بھی کاغذ کا پلندہ بن کر رہ جائے گی ۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس پر عمل درآمد کرنے کیلئے اس کے پیچھے کوئی طاقت ہو جو نہ صرف عمل درآمد کا جائزہ لے سکے اور آگے پیش کرنے والی امکانی دشواریوں سے ان مسلمانوں کو بچا سکے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ یہ ایک انسانی مسئلہ نہیں بلکہ سانحہ ہے ۔ یہ سانحہ مزید شدت اختیار نہ کرے ، اس کے بارے میں عالمی برادری اور مسلم ممالک دونوں کو غور کرنا پڑے گا۔ اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کو کسی ظالم حکومت کے سپرد نہیں کیا جاسکتا ، اس کیلئے عزم و حوصلہ کی ضرورت ہے۔ قرارداد کی منظوری کیلئے جنرل اسمبلی قابل مبارکباد ہے ۔ تاہم اس کی افادیت برقرار رکھنے کیلئے مزید ٹھوس اقدامات کرنے پڑیں گے۔