محمد مصطفی علی سروری
تلسنکرات کا موقع تھا ۔ احمد (نام تبدیل) اور اس کے دوستوں نے خوب پتنگ اڑائی ۔ گھر کی چھت پر بڑی آواز میں گانے لگائے گئے ۔ پتنگ اڑانے کے دوران ہر مرحلے پر خوشی سے چلانا ہویا کسی کی پتنگ کاٹ دینے پر کیا جانے والا شور و غل ، غرض ہر طرح کا تماشہ اور ہنگامہ مسلسل دو دن تک چلتا رہا ۔ شام تک تو یہی مصروفیات تھی اور پھر رات کے لئے بھی احمد اور اس کے ساتھیوں نے جو کہ انجینئرنگ کے اسٹوڈنٹس تھے ، پروگرام بنا رکھا تھا ۔ احمد اور اس کے دوست بڑے ہی اہتمام سے سج دھج کر نامپلی پر واقع نمائش گراونڈ بھی گئے جہاں سے ان کی واپسی نصف شب کے بعد ہی ہوئی ۔
یہ کسی ایک احمد کی بات نہیں یا کسی ایک علاقے کے نوجوانوں کا مشغلہ نہیں ۔ شہر بھر میں ایسی کئی ٹولیاں ہیں جو ہر سال نمائش جانا ضروری سمجھتے ہیں اور اندازاً 45 دنوں کی نمائش میں 10 تا 15 دن ضرور حاضری درج کرواتے ہیں ۔ یہ کسی کاروبار کے حوالے سے ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی پارٹ ٹائم جاب ، بلکہ یہ لوگ نمائش اس لئے جاتے ہیں کہ انھیں وہاں بہت زیادہ انٹرٹینمنٹ میسر آتا ہے ۔
مجھے میرا قلم اور صحافتی اخلاق اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ میں نوجوانوں کے اس انٹرٹینمنٹ کے متعلق مزید کوئی صراحت کروں ۔ مگر میں اپنے آج کے اس کالم کے ذریعہ شہر حیدرآباد اور ریاست تلنگانہ و آندھرا کے نوجوانوں کی اس منفی ذہنیت کے متعلق توجہ دلانا چاہوں گا ۔ اندرون ملک اور ریاست نہ تو ملازمت کے مواقع ہیں اور نہ ہی کوئی فرد آسانی سے کاروبار ہی کرسکتا ہے ۔ کل ہند صنعتی نمائش جہاں ہمارے نوجوانوں کے ایک بڑے طبقے کے لئے تفریح کا مرکز بن گیا ہے وہ دراصل ایک ایسا مقام ہے جہاں ملک بھر سے لوگ آکر کاروبار کے ذریعہ لاکھوں روپئے کما کر لے جارہے ہیں ۔
کل ہند صنعتی نمائش صرف کاروباری افراد کے لئے نفع بخش مقام نہیں ہے بلکہ بہت سارے بیرون ریاست کے طلباء جو تعلیم کے مقصد سے شہر میں قیام پذیر ہیں وہ بھی پارٹ ٹائم میں 45 دنوں کے لئے نمائش کی مختلف اسٹالس پر بطور سیلز مین کام کرکے اپنے لئے نہ صرف جیب خرچ بلکہ اپنی چھوٹی موٹی ضروریات کا سامان خود پیدا کرلیتے ہیں ۔
کاروبار کرنے کی جن میں دلچسپی ہوتی ہے وہ صرف نمائش لگنے کا انتظار نہیں کرتے بلکہ خود ہی اپنے لئے کاروبار کے مواقع پیدا کرلیتے ہیں۔ 13جنوری 2015 کو انگریزی اخبار دی ہندو نے وجئے واڑہ سے ایک خبر شائع کی Festival gives Filip to traders from U.P. ۔ اس سرخی کے تحت شائع خبر میں بتلایا گیا کہ اترپردیش کے علاقے مرادآباد سے تعلق رکھنے والے 25 برس کے وسیم اپنے چند رشتہ دار دوستوں کے ہمراہ بلانکٹ ، پردے ، غلاف اور بیڈشیٹس فروخت کرنے وجئے واڑہ میں عارضی دکان لگائے ہوئے ہیں ۔ انھوں نے اخبار کو بتلایا کہ وہ لوگ یہ سامان لدھیانہ ، جھارکھنڈ اور نینی تال سے خرید کر لائے ہیں اور 250 روپئے تا 450 روپیوں میں فروخت کررہے ہیں ۔ محمد وسیم نے اخبار دی ہندو کو بتلایا کہ وہ لوگ اس سے پہلے سریکاکولم ، وشاکھاپٹنم اور حیدرآباد میں بھی اس طرح لب سڑک عارضی دوکان لگا کر اپنا مال فروخت کرچکے ہیں ۔ اپنے کاروبار کے متعلق اس نے بتلایا کہ ان لوگوں نے جملہ چار لاکھ روپئے کی سرمایہ کاری کی ہے اور انھیں تقریباً ایک لاکھ کا منافع حاصل ہورہا ہے ۔
قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ محمد وسیم مرادآباد سے تعلق رکھتا ہے اور صرف ہندی میں بات کرسکتا ہے ۔ اپنے گھر سے ریاست دو تا ڈھائی ہزار کیلومیٹر سفر کرکے چند نوجوان حلال طریقہ سے کمائی کرنے کے لئے ایک تلگو ریاست آندھرا پردیش کا رخ کرتے ہیں اور اپنی عارضی دکان کے ذریعہ سے کاروبار کرکے ایک لاکھ روپیوں کا منافع کما کر چلے جاتے ہیں ۔
دوسری طرف تلنگانہ کا مسلم نوجوان ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اندرون ملک اس کے لئے نہ تو کمانے کے کوئی مواقع ہیں اور نہ ہی وہ کوئی کاروبار کرسکتا ہے ۔ یہاں تک کہ مسلم نوجوان انجینئرنگ کرنے کے بعد بیروزگار ہے اور بیرون ملک روزگار کی آس پر دن رات گذار رہا ہے ۔ یہاں پر میں ایک ایسے شخص کی مثال دینا چاہوں گا جس نے انجینئرنگ کی تعلیم تو حاصل نہیں کی لیکن وہ روزانہ 60 ہزار سے زائد کمارہا ہے ۔ جی ہاں 60 ہزار یومیہ ۔ اخبار دی ہندو نے 22 نومبر 2014 کو ایک رپورٹ شائع کی جس کی سرخی تھی Who doesn’t want to earn Rs. 60,000 a day ۔ اس رپورٹ کے مطابق مسٹر سی آر رادھا کرشنا نے انجینئرنگ تو نہیں کی بلکہ بی ایس سی اگریکلچر کا کورس مکمل کیا اورآج وہ پولٹری فارمنگ کے ذریعہ ہی ایک دن میں 60 ہزار روپئے کمارہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کاشت کاری بھی کرتے ہیں ۔ انڈوں کی تجارت اور ڈائری فارمنگ انکے دوسرے کاروبار ہیں ۔
کیا کہیں والدین اور سرپرستوں سے کوئی ایسی غلطی تو سرزد نہیں ہورہی ہے کہ ہماری نوجوان نسل اپنی عملی زندگی کے حقیقی چیلنجس کا صحیح طور پر سامنا نہیں کرپارہی ہے ۔
اخبار دی ہندو کی ہی ایک اور خبر کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 23 ڈسمبر 2014 کو چینائی سے اخبار نے خبر دی کہ چینائی کے میونسپل کارپوریشن میں جھاڑو دینے کا کام کرنے والے 55 برس کے آر بالا کوٹیا کو کیرم کھیلنا بہت پسند تھا ۔ دن بھر بلدیہ میں جھاڑو دینے کی نوکری کے بعد بالا کوٹیا اپنے آپ کو کیرم کھیلنے سے نہیں روک پاتا تھا ۔ وہ سوچ کر خوش تھا کہ بلدیہ کے دیگر ملازمین کی طرح اس کو کوئی خراب عادت نہیں ہے وہ تو صرف کیرم کھیلتا ہے ۔ مگر جب بالا کوٹیا نے دیکھا کہ اس کو کیرم کھیلتے دیکھ کر اس کا لڑکا بھی کیرم کھیلنے میں دلچسپی لینے لگا ہے تو اس نے کیرم کھیلنا ترک کردیا اور خالی وقت میں اپنے لڑکے کی پڑھائی کے لئے مدد کرنا شروع کردیا ۔ کہتے ہیں کہ سچے دل سے کی جانے والی محنت اور محبت رائیگاں نہیں جاتی ۔ ایسا ہی کچھ بالا کوٹیا کے ساتھ ہوا اور بلدیہ میں جھاڑو لگانے والے اس شخص کا بیٹا اپنے خاندان کا سب سے تعلیم یافتہ فرد بن گیا اور ایم بی اے کی ڈگری کامیاب کرلی ۔
بالا کوٹیا کے بیٹے بالا سرینواس کو جب معلوم ہوا کہ اس کے والد نے اس کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنے پسندیدہ کھیل کیرم کو ترک کردیا تو اس نے اپنی تعلیم کے بعد اپنے والد کو دوبارہ کیرم کھیلنے کی ترغیب دی ۔ باپ نے بیٹے کی تعلیم کے لئے اپنے شوق کو قربان کردیا تھا ۔ اب بیٹے نے باپ کو دوبار کھیلنے کی ترغیب دی تو باپ ایسے کھیلنے لگا کہ National Veteran Championship میں بالا کوٹیا کو فرسٹ پوزیشن حاصل ہوئی ۔ قارئین آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ اس خبر میں ہمارے لئے سیکھنے کی بات کیا ہے تو واضح کردینا چاہوں گا کہ گیارہواں ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنمنٹ 14 فبروری سے لیکر 29 مارچ 2015 تک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا جائے گا ۔ یہی وہ مہینے ہیں جب ہمارے بچوںکا تعلیمی سال اپنے اختتام کے قریب ہوتا ہے اور سالانہ امتحانات کی شروعات یا پری فائنل کا وقت ہوتا ہے ۔ کتنے والدین اور سرپرست اس بات کے لئے تیار ہیں کہ اس مرتبہ ورلڈ کپ کرکٹ وہ صرف اور صرف اپنے بچوں کی تعلیمی مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے نہیں دیکھیں گے ؟ جی اب کچھ سمجھ میں آیا کہ بچوں کے تعلیمی مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے بالا کوٹیا نے کیسی قربانی دی ؟
بزنس کرنے کے لئے لاکھوں کروڑوں چاہئے بھائی ، آج کے دور میں کونسا بینک ہے جو ہمیں قرضہ دیتا ہے اور اپن لوگوں کو کہاں موقع ملتا ہے ، کا راگ الاپنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ اگر مرادآباد کے نوجوان یہ سوچتے کہ ہم لاکھوں کا مال لیکر آندھرا جائیں گے تو کاروبار نہیں کرپائیں گے کیونکہ آندھرا والے تو تلگو بولتے ہیں اور ہمیں تو تلگو نہیں آتی تو شاید انھیں ایک لاکھ کا منافع نہیں ہوتا ۔
ایسے ہی لاکھو ںکا منافع کمانے کے لئے لاکھوں روپئے کی سرمایہ کاری کرنا بھی ضروری نہیں ہے ۔ پنجاب کے کثیر الاشاعت اخبار ’’پنجاب کیسری‘‘ نے 9 جنوری کو ایک خبر شائع کی جس کی سرخی تھی ’’ٹھیلہ لگانے والا یہ شخص ہر سال کرتا ہے ورلڈ ٹور۔ کمائی سن کر ہوجائیں گے حیران‘‘ ۔ ناگپور کے رہنے والے روپم ساکھرے کے متعلق پنجاب کیسری نے خبر دی ہے کہ ناگپور کے کستور چند پارک سے لگے فٹ پاتھ پر روپم روزانہ اپنا ٹھیلہ لگاتے ہیں ۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے سے لیکر شام 6 بجے تک انکے ٹھیلے پر لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے اور یہ شخص ہر روز لاکھوں کا کاروبار کرلیتا ہے ۔ پچھلے 35 برسوں سے فٹ پاتھ کنارے پوہا اور چنا پوہا فروخت کرنے والا یہ شخص ہر روز اپنی ہونڈا سٹی کار میں سبزی خریدنے جاتا ہے اور اس کی عارضی دکان پر لوگ اس بڑے پیمانے پر پوہا کھانے کے لئے آتے ہیں ، ہر گھنٹے وہ نئے سرے سے پوہا بناتے ہیں اور سال میں ایک مرتبہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بیرون ملک چھٹیاں منانے جاتے ہیں ۔
مسلم نوجوانوں کو آج سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے ذہن کو مثبت سمت موڑ دیا جائے ورنہ آنے والے برسوں میں ہمارے نوجوان اپنے ہی وطن میں اجنبی بن کر رہ جائیں گے ۔
ایک صاحب اپنے دوست کے حوالے سے یہ واقعہ سناتے ہیں کہ انھوں نے تو اپنی زندگی میں گذارہ معاش کے لئے ہوٹل چلائی اور ہوٹل کی کمائی سے انھوں نے اپنا ذاتی گھر بنایا ، لڑکی کی شادی کی اور لڑکے کو اب انجینئرنگ میں داخلہ دلوایا ۔ انجینئرنگ میں زیر تعلیم ان کا لڑکا ،اپنے والد سے فرمائش کرتا ہے کہ ابا یہ جو اپنی ہوٹل کے سامنے مرچیاں تلنے کا کاؤنٹر ہے اس کو بند کردو ، میرے دوست مجھے طعنہ دے رہے ہیں کہ ارے کیا رے تیرے باوا ہوٹل پر مرچیاں بیچتے کیا ؟ ۔ اب صاحب کا کہنا تھا کہ انھیں ہوٹل سے جتنی آمدنی تھی اس سے کہیں زیادہ فائدہ مرچیاں تل کر فروخت میں تھا ۔ لیکن بچے کو انجینئرنگ کروانے کی محبت انھیں اپنی ہوٹل میں تلن کا کاروبار بند کرکے ادا کرنی پڑی ۔ ایسا نہیں کہ ساری صورتحال مایوس کن ہے ، اچھی تربیت اور مثبت سوچ کی مثال بھی ملتی ہے ۔ مگر حیدرآباد میں کم اور باہر زیادہ ہے ۔ روزنامہ دی ہندو نے 19 ڈسمبر کو آرمور گاندھی کی ایک خبر شائع کی کہ دسویں کامیاب ابوالحسن آٹھ برس مسقط میں رہ کر کمایا اور وطن واپس ہو کر آٹو چلانے کواپنا پیشہ بنالیا اور غریب ، حاملہ خواتین اور معمر حضرات کو مفت میں آٹو سواری کے ذریعہ پورے آرمور میں نام کمایا ۔ ایسا نہیں کہ ابوالحسن کا لڑکا باہر نہیں ہے ، ان کا ایک بیٹا سعودی عرب میں کام کرتا ہے ۔ مگر ابوالحسن نے آٹو چلا کر حلال طریقے سے اپنا روزگار پیدا کرنے اور ساتھ ہی لوگوں کی مدد کرنے سے کبھی منہ نہیں موڑا ۔
میری تو یہی دعا ہے اور یہی وہ ہتھیار ہے جس کو استعمال کرکے ہی ہم امید کرسکتے ہیں کہ کچھ تواچھا ہوگا کہ اے مالک تو ہم سب کو ہدایت کا سامان فرما ۔ ہمارے نوجوانوں اور بزرگوں ہر دو کو ساری قوم کے اثاثہ میں بدل دے جن پر سبھی کو فخر ہو ۔ اے مالک ہمارے گھروں کو ایسے نور سے منور فرما جو تیری رضا کا مظہر ہو ۔ آمین
امید توبہ پر ہوچکے بہت گناہ یا اللہ
مہلت تو مل رہی ہے توفیق بھی عطا کر
sarwari829@yahoo.com