مہا بھارت کی اشاعت کیلئے آصف سابع کی مالی اعانت

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
آصف جاہی خاندان کے آخری حکمراں میر عثمان علی خاں آصف سابع کے دور کی علمی و ادبی سرپرستی اور مذہبی و رواداری مشہور ہے۔ علوم و فنون کی قدر دانی میں اس دور کی حکومت اور حکمراں نے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کیا ۔ اس کے بارے میں یہ غلط فہمی دل و دماغ سے نکال دی جانی چاہئے کہ ان خصوصیات کا تذکرہ روایتی تعریف و تحسین کے انداز میں کیا جاتا ہے یا ان باتوں کے اظہار میں مروت یا کوئی جذباتی وابستگی غالب رہتی ہے ۔ اس دور کی یہ رواداری ، فراخدلی اور وسیع النظری تاریخ کے صفحات کی انمٹ تحریروں میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ اسٹیٹ آرکائیوز کے ناقابل تر دید اور شک و شبہ کی کسی بھی گنجائش سے بالاتر ریکارڈ سے ان حقائق کا ثبوت ملتا ہے۔ صرف یہی ظاہر نہیں ہوتا کہ علوم و فنون کی سرپرستی اور قدردانی میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا بلکہ اس سلسلے میں انداز فکر صحت مند اور طرز عمل نہایت مہذب اور لب و لہجہ شائستہ ہوا کرتا تھا ۔ ریاست ہی کے نہیں بیرون ریاست کے افراد اور ادارہ جات کی امداد میں جن میں تحقیقی ادارے بھی شامل تھے اور جامعات بھی شامل تھیں جس طرح آصف سابع نے فیا ضی دکھائی اس کی تفصیلات بیان کرنے کے لئے کتنے ہی مضامین لکھے جاسکتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں صرف سابق ریاست ممبئی کے شہر پونا کے ایک تحقیقی ادارے اور ہندوستان کے اکثریتی فرقے کی دو سب سے بڑی اور مقبول ترین کتابوں رامائن اور مہا بھارت میں سے ایک کتاب مہا بھارت کیلئے امداد کی کارروائی کا احاطہ کیا گیا ہے۔
پونا بھنڈارکر اورینٹل ریسچ انسٹی ٹیوٹ سنسکرت زبان و ادب اور قدیم ہندوستانی ثقافت کے تحقیقی کاموں کیلئے مختص رہا ہے ۔ اس انسٹی ٹیوٹ نے طلبہ کے قیام کیلئے ایک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر اور مہا بھارت کی اشاعت کیلئے مالی امداد جاری کرنے کی درخواست کی تھی جس پر آصف سابع نے گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کیلئے پچیس (25) ہزار روپئے اور مہا بھارت کی اشاعت کیلئے ایک ہزار روپئے دس سال کی مدت کیلئے منظور کئے ۔ گیسٹ ہاؤس کی تعمیر نامکمل رہنے پر تعمیر کو مکمل کرنے اور اس کے فرنیچر کیلئے مزید مالی امداد کی درخواست کی گئی جسے آصف سابع نے منظوری دے دی ۔ مہا بھارت کی امداد کے دس سال کی مدت ختم ہونے پر اس کیلئے بھی مزید امداد جاری رکھنے کیلئے درخواست روانہ کی گئی ۔ آصف سابع نے اس درخواست پر بھی مزید ایک سال کیلئے امداد کی منظوری عطا کی ۔ اسٹیٹ آرکائیوز کے ذخائر میں محفوظ ریکارڈ سے استفادہ کرتے ہوئے اس کارروائی کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔
پونا کے بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے اس کے سکریٹری نے حکومتِ حیدرآباد سے سالانہ امداد کے حصول کیلئے ایک درخواست روانہ کی تھی۔ اس درخواست پر ابھی کارروائی جاری تھی کہ اس سلسلے میں انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ایک اور درخواست بھیجی گئی کہ وسط اگست 1932 ء میں وائسرائے اور کاؤنٹس آف ولنگڈن اس ادارے کے ملاحظہ کیلئے آنے والے ہیں۔ اس موقع پر دیگر امور کے علاوہ جو یہ سرپرستوں کا انتخاب اور عطیات کا اعلان کیا جائے گا ۔ اس لئے اس انسٹی ٹیوٹ کے مختلف کاموں کیلئے ریاست حیدرآباد کی جانب سے سالانہ امداد منظور کی جائے ۔
ان درخواست پر ناظم تعلیمات نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگر آصف سابع مناسب خیال فرمائیں تو ریاست حیدرآباد کی جانب سے اسی طرح کوئی مناسب امداد منظور کی جاسکتی ہے جس طرح ریاست میسور کی جانب سے کی گئی۔ ریاست میسور کی جانب سے پانچ سو روپئے سالانہ کی امداد منظور کی گئی ہے۔ سر رشتہ تعلیمات کے موازنے میں گنجائش نہیں ہے۔ اگر آصف سابع امداد عطا کرنا مناسب خیال فرمائیں تو امداد زائد از موازنہ منظور فرمائی جائے ۔ ناظم تعلیمات نے معتمد تعلیمات کی رائے سے اتفاق کیا ۔ صدر المہام فینانس (سر اکبر حیدری) نے رائے دی کہ دنیا کی ایک معرکتہ الآرا تصنیف مہا بھارت جو ہندوستانی نفطہ نظر سے ہر آئینہ ایک قومی کتاب ہے اس کی اشاعت کی سرپرستی کی تحریک پر نہایت ہمدردانہ طور پر غور کرنا مناسب ہوگا۔ انہوں نے لکھا کہ حال ہی میں ارباب انسٹی ٹیوٹ نے ان سے مل کر حسب ذیل امور کی شدید ضرورت ظاہر کی تھی ۔
(1) انسٹی ٹیوٹ میں حصولِ تعلیم کیلئے جو طلبہ آتے ہیں ان کیلئے ایک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر
(2) مہا بھارت کی اشاعت
(3) انسٹی ٹیوٹ میں ایرانی وسٹمک کی تعلیم کیلئے سہولتیں بہم پہنچانا۔
پہلے دو امور کی تائید کرتے ہوئے سر اکبر حیدری نے لکھا کہ گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے پچیس ہزار روپئے کی یکمشت امداد اس شرط سے دی جائے کہ یہ عمارت آصف سابع سے موسوم کی جائے اور معرکتہ الآرا قومی کتاب ’’مہا بھارت‘‘ کی اشاعت کیلئے دس سال تک سالانہ دو ہزار پانچ سو روپئے کی امداد دی جائے ۔ جب یہ کارروائی بابِ حکومت کے اجلاس منعقدہ 8 اگست 1932 ء میں پیش ہوئی توبہ اختلاف رائے صدرالمہام مال حسب ذیل قرارداد منظور ہوئی۔
’’بھنڈارکر انسٹی ٹیوٹ میں ایک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کیلئے جو بندگان اعلیٰ حضرت کے اسم ہمایونی سے موسوم ہوگا پچیس ہزار کلدار سرکار عالی کی جانب سے دیئے جائیں اور مہا بھارت کی اشاعت کیلئے ایک ہزار کلدار سالانہ دس سال تک دیئے جائیں۔ صدرالمہام مال (لفٹنٹ کرنل ٹرنچ) کو اس سے اس وجہ سے اختلاف ہے کہ آج کل کے اقتصادی حالات اور مالی مشکلات کے مد نظر سرکار عالی کو یہ عطیہ نہیں دینا چاہئے‘‘۔
صدراعظم (مہاراجہ کشن پرشاد) نے انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری کی درخواست کا خلاصہ ، درخواست پر ناظم تعلیمات ، معتمد تعلیمات اور صدر المہام فینانس کی سفارشات اور کونسل کی قرارداد ایک عرض داشت مورخہ 24 ربیع الثانی 1351 ھ م 27 اگست 1932 ء میں درج کرتے ہوئے آصفِ سابع کے ملاحظے اور احکام کیلئے پیش کی ۔
آصفِ سابع نے کونسل کی رائے سے اتفاق کیا اور گیسٹ ہاؤس کی تعمیر اور مہا بھارت کی اشاعت کیلئے امداد منظور کی ۔اس سلسلے میں آصفِ سابع کا جو فرمان مورخہ 4 جمادی الاول 1351 ھ م 6 ستمبر 1932 ء صادر ہوا تھا اس کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
’’کونسل کی رائے مناسب ہے ۔ حسبۂ مذکور انسٹی ٹیوٹ میں ایک گیسٹ ہاؤس تعمیر کرنے کیلئے جو میرے نام سے موسوم ہوگا (یعنی نظام گیسٹ ہاؤس) پچیس ہزار کلدار یکمشت دیئے جائیں اور مہا بھارت کی اشاعت کیلئے دس سال ایک ہزار کلدار سالانہ امداد دی جائے‘‘۔
آصفِ سابع کے فرمان کی تعمیل کی گئی جس پر بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اعزازی سکریٹری نے ایک مراسلے کے ذریعہ اطلاع دی کہ آصفِ سابع کی جانب سے جو فیاضانہ امداد دی گئی ہے ، اس کیلئے ادارے کی ریگولیٹنگ کونسل بارگاہ خسروی میںشکر و نیاز عرض کرتی ہے ۔ نیز ریگولیٹنگ کونسل نے بالاتفاق طئے کیا ہے کہ اس فیاضانہ عطیے کے مدنظر ہز اگزالٹیڈ ہائی نس میر عثمان علی خاں بہادر کو بھنڈارکر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا سرپرست منتخب کیا جائے۔ اس درخواست پر کونسل نے اپنے اجلاس میں یہ رائے ظاہر کی کہ انسٹی ٹیوٹ کی استدعا لائق پذیرائی ہے ۔ کونسل کی سفارش منظور کرتے ہوئے آصف سابع نے انسٹٹی ٹیوٹ کی سرپرستی قبول کی اور فرمان مورخہ 5 ریبع الاول 1352 ھ م 29 جون 1933 ء کے ذریعہ یہ حکم صادر کیا ۔ ’’کونسل کے رائے کے مطابق مذکورہ استدعا منظور کی جائے‘‘۔ سرپرستی قبول کئے جانے کی اطلاع ملنے پر اس انسٹی ٹیوٹ کے آنریری سکریٹری نے اپنے ایک مراسلے کے ذریعہ شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ نظام گیسٹ ہاؤس جو سرکار عالی کی فیاضانہ امداد سے تیار ہورہا ہے ، اس کی تعمیر قریبالختم ہے ۔ وائسرائے ہند عنقریب پونا آنے والے ہیں۔ انہیں اس موقع پر بھنڈارکر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا معائنہ کرنے کیلئے مدعو کیا گیا ہے اور وائسرائے نے دعوت قبول کرلی ہے ۔ چونکہ وائسرائے نئے تعمیر ہونے والے نظام گیسٹ ہاؤس کا بھی معائنہ کریں گے اس لئے اس موقع پر بہ حیثیت معطی گیسٹ ہاؤس و سرپرست ادارہ آصف سابع کی جانب سے وائسرائے کی آمد کا موزوں الفاظ میں خیرمقدم کیا جائے تو نہایت مناسب ہوگا ۔ اس کے علاوہ گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کیلئے مزید امداد منظور کرنے کی بھی درخواست کی گئی ۔ اس بارے میں سکریٹری نے لکھا کہ نظام گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کیلئے سابق میں جو تخمینہ تیار کیا گیا تھا اس سے تین ہزار روپئے کا زائد خرچ اس وجہ سے ہوا ہے کہ یوروپی ممالک کے مہمانوں کے قیام میں سہولت کی غرض سے بعض زائد انتظامات کو ضروری خیال کیا گیا نیز اصل تخمینہ میں فر نیچر کیلئے گنجائش نہیں رکھی گئی تھی جس کیلئے مزید تین ہزار روپئے درکار ہیں۔ اس طرح نظام گیسٹ ہاؤس کیلئے جملہ چھ ہزار روپئے کی امداد عنایت کی جائے ۔ صدر اعظم مہاراجہ سر کشن پرشاد نے اس کارروائی کی تفصیلات اور انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری کی درخواست کا خلاصہ عرض داشت مورخہ 22 جولائی 1933 ء کے ذریعہ آصف سابع کی خدمت میں پیش کیا مگر آصف سابع نے اس مرتبہ مزید امداد دینے اور پیام روانہ کرنے کی استدعا منظور نہیں کی ۔ عرض داشت پیش ہونے کے دوسرے ہی روز معتمد پیشی نے معتمد باب حکومت کوا یک مراسلے کے ذریعہ آصف سابع کے ان احکام کی اطلاع دی ۔ ’’دونوں امورات سے ہم کو تعلق نہیں ہے۔ جو کچھ ہم کو کرنا تھا وہ کرچکے ۔ خاموشی مناسب ہے‘‘۔ گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کیلئے مزید امداد کی منظوری نہ ملنے پر اور حکومت ریاست حیدرآباد کی خاموشی اختیار کرلینے پر بھی بھنڈارکر انسٹی ٹیوٹ کے ارباب اقتدار خاموش نہیں بیٹھے۔ چند ماہ بعد انسٹی ٹیوٹ کے آنریری سکریٹری نے ایک درخواست مورخہ 14 فروری 1934 ء روانہ کی جس میں استدعا کی گئی کہ نظام گیسٹ ہاؤس کی بقیہ تعمیر کیلئے ڈھائی ہزار اور اس کے فرنیچر کیلئے پانچ ہزار یعنی ساڑھے سات ہزار روپئے عطا کئے جائیں۔ ا گر یہ امداد منظور نہ کی گئی تو عمارت نامکمل رہ جائے گی ۔ انسٹی ٹیوٹ خود اس سلسلے میں کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے کیونکہ وہ اس وقت پینتیس ہزار روپئے کا مقروض ہے ۔ اس درخواست پر معتمدِ تعلیمات نے رائے دی کہ اب کوئی رقمی امداد نہیں دی جا سکتی ۔ محکمہ فینانس نے لکھا کہ اسے تکمیل عمارت کی بابت ڈھائی ہزار روپئے منظور کئے جانے سے اختلاف نہیں ہے مگر باب حکومت نے مزید ساڑھے سات ہزار روپئے کی یکمشت امداد دینے کی سفارش کی ۔ صدراعظم نے اس کارروائی کو ایک عرض داشت مورخہ 11 ستمبر 1934 ء کے ذریعے آصفِ سابع کے ملاحظے کیلئے پیش کیا ۔ اس بار آصفِ سابع نے مزید امداد کی منظوری دے دی ۔ اس سلسلے میں آصفِ سابع کا حسبِ ذیل فرمان مورخہ 13 ستمبر 1934 ء صادر ہوا تھا ۔
’’کونسل کی رائے کے مطابق مذکور انسٹی ٹیوٹ کو مزید ساڑھے سات ہزار کلدار یکمشت دیئے جائیں لیکن انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری کو اطلاع دی جائے کہ اس کے بعد کوئی مزید امداد نہ دی جائے گی ‘‘۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ مہا بھارت کی اشاعت کیلئے دس سال تک ایک ہزار کلدار سالانہ امداد کی منظوری بذریعہ فرمان مورخہ 4 جمادی الاول 1351 ھ عمل میں آئی تھی ۔ یہ تعمیلِ فرمان اسی وقت احکام کی اجرائی عمل میں آئی تھی ۔ جب یہ دس سالہ مدت ختم ہونے کو تھی تو انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری نے اس کام کی رپورٹ پیش کر تے ہوئے استدعا کی کہ منظورہ امداد کی مدت قریب الختم ہے ، لہذا ادارے کی ترقی کے مدنظر منظورہ سالانہ امداد میں مزید دس سال کی توسیع منظور فرمائی جائے ۔ اس درخواست پرمحکمہ فینانس نے رائے دی کہ موجودہ حالات کے مدنظر فینانس کیلئے اس رقم کا زائد از موازنہ فراہم کرنا دشوار ہے۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ جو رقم بھی باب حکومت سے منظور کی جائے اس کی ادائی محکمہ تعلیمات یا عثمانیہ یونیورسٹی کے بجٹ سے ہو۔ مجلس اعلیٰ جامعہ عثمانیہ اور صدرالمہام تعلیمات نے پنچ سو کلدار کی امدا دینے سے اتفاق کیا لیکن کونسل نے سفارش کی کہ جامعہ عثمانیہ کی بچت سے پانچ سو کلدار کی امداد سردست ایک سال کے لئے عطا کی جائے ۔ جب صدر اعظم نے تمام کارروائی کی تفصیلات ایک عرض داشت مورخہ 27 جون 1942 ء کے ذریعہ آصف سابع کے ملاحظہ اور احکام کیلئے پیش کیں تو انہوں نے مزید امداد کی بھی منظوری دے دی ۔اس بارے میں حسب ذیل فرمان مورخہ 25 رجب 1361 ھ م 19 اگست 1942 ء جاری ہوا تھا ۔

’’کونسل کی رائے کے مطابق مذکور انسٹی ٹیوٹ کو مہا بھارت کی اشاعت کی غرض سے گنجائش محولہ سے مزید ایک سال تک پانچ سو کلدار سالانہ امداد دی جائے ۔ اس کے بعد یہ جاری نہیں رہ سکتی ‘‘۔
مہا بھارت کی اشاعت کیلئے ساڑھے دس ہزار کلدار کی رقم گیارہ سال کی مدت یعنی 1932 ء تا 1942 ء کے دوران جاری کی گئی تھی ۔ یہ رقم اگر آج ادا کی جائے تو آج کی قدرِ زر Value of money کے پیش نظر یقیناً حقیر کیلائے گی لیکن اس دور کے ہزار روپئے آج کے پچاس ہزار روپئے تا ایک لاکھ سے کم نہ تھے ۔ اس طرح صرف ایک کتاب کی اشاعت کیلئے آج کی قدر زر کے حساب سے لاکھوں روپئے کی امداد آج کے جمہوری دور کی علم دوستی اور علم و ادب کی سرپرستی کے پیمانوں سے بھی غیر معمولی اور فیاضانہ تسلیم کی جائے گی اور اس فیاضی کی مثال ملک کے کسی دوسرے حصے میں مشکل ہی سے ملے گی ۔ گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کیلئے پچیس ہزار روپئے 1932 ء میں اور مزید ساڑھے سات ہزار روپئے 1934 ء میں ادا کئے گئے تھے ۔ یہ دوسری عالم گیر جنگ سے پہلے کا دور ہے جہاں تک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کیلئے ساڑھے بتیس ہزار روپئے کی امداد کا تعلق ہے ، اس کی اہمیت اور قدر و قیمت کا اندازہ لگانے کیلئے صرف اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ حالیہ تین چار دہوںکی مدت میں زمین اور جائیداد کی قدر و قیمت میں کئی سو گنا اضافہ کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔