مہاراشٹرا میں کانگریس۔ این سی پی اختلافات کا بی جے پی حکومت کو فائدہ

ممبئی۔ 14؍دسمبر (سیاست ڈاٹ کام)۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی اور شیوسینا نے بالآخر اتحاد کرتے ہوئے حکومت قائم کرلی، لیکن سابق حلیف کانگریس اور این سی پی جو پندرہ سال ریاست میں اقتدار پر فائز تھی، اب اپوزیشن کے عہدہ کے لئے محاذ آراء ہیں۔ بی جے پی نے ریاست میں پہلی حکومت قائم کی ہے اور اس کا یہ احساس ہے کہ منقسم اپوزیشن کے نتیجہ میں اسے بہتر انداز میں حکمرانی میں مدد ملے گی۔ فی الحال کانگریس اور این سی پی میں اتحاد کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے، تاہم این سی پی قائدین نے اس امکان کو فوری طور پر پوری طرح مسترد بھی نہیں کیا ہے۔ ان قائدین کا کہنا ہے کہ جب انتخابات قریب ہوں گے، اُس وقت سیاسی صورتِ حال کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ حال ہی میں دونوں پارٹیوں نے قانون ساز اسمبلی میں اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا اور خشک سالی کے مسئلہ پر حکومت کو متحدہ طور پر تنقیدوں کا نشانہ بنایا تھا۔ کانگریس ریاستی صدر مانک راؤ ٹھاکرے نے یہ بھی کہا کہ اگر پارٹی کو قائد اپوزیشن کا عہدہ مل جائے تو وہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرے گی اور اسے ایک مستحکم طاقت میں تبدیل کیا جائے گا جو حکومت کی مخالفت کرسکے۔ تاہم یہ باہمی ربط مختصر ثابت ہوا اور این سی پی نے سینئر کانگریس رکن و مقننہ کونسل کے صدرنشین شیواجی راؤ دیشمکھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیا۔

بی جے پی کا یہ احساس ہے کہ ایوان میں باہمی تعاون کی یہ کوششیں سیاسی طور پر ثمرآور ثابت نہیں ہوں گی، کیونکہ کانگریس اور این سی پی دونوں قائد اپوزیشن کے عہدہ کے مسئلہ پر ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ این سی پی ترجمان نواب ملک نے کہا کہ اب دونوں جماعتوں کی توجہ تنظیمی استحکام، رکنیت سازی اور مسائل کی بنیاد پر حکومت کے خلاف جارحانہ روش پر مرکوز ہونی چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ این سی پی میں 8 تا 10 عوامی مقبول قائدین ہیں جو عوامی مسائل کو بہتر انداز میں پیش کرسکتے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے برعکس کانگریس قائدین جیسے پرتھوی راج چاوان اور رادھا کرشنا وکھے پاٹل کو خود ان کی پارٹی میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ آئندہ چھ ماہ میں این سی پی اصل اپوزیشن کا عہدہ کانگریس سے حاصل کرلے گی۔ حالیہ انتخابات میں 288 رکنی اسمبلی میں این سی پی نے 41 اور کانگریس نے 42 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔