مہاراشٹرا، ہریانہ انتخابات بی جے پی، شیوسینا کی شاندار کامیابی

مجید صدیقی
بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس مرتبہ مہاراشٹرا اور ہریانہ اسمبلی چناؤ میں اپنی شاندار جیت درج کی ہے اور وہ دونوں صوبوں میں اپنی حکومت قائم کرنے کے موقف میں ہے ۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی نے (122) نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ یہاں اسمبلی کی جملہ نشستیں (288) ہیں اس طرح حکومت بنانے کیلئے اسے مزید (22) ارکان کی تائید کا حصول ضروری ہے۔ ہریانہ میں بی جے پی بغیر کسی مدد کے خود اپ نے بل بوتے پر حکومت بنانے کے موقف میں ہے جہاں اس نے 90 ارکان اسمبلی سیٹوں سے47 نشستیں حاصل کی ہیں ۔ ا یک نظر اگر دونوں صوبوں میں جماعتی موقف کا مشاہدہ کیلئے ڈالی جاسکتی ہے۔ مہاراشٹرا اسمبلی میں جماعتی موقف
سیاسی جماعتیں
موجودہ حاصل کردہ نشستیں
گزشتہ اسمبلی میں جماعتی موقف
بی جے پی
122
47
شیوسینا
63
45
کانگریس
42
81
این سی پی
41
62
مجلس اتحاد المسلمین
02

مہاراشٹرا نو نرمان سینا
01
13
سماج وادی پارٹی
01

سی پی آئی ایم
01

دیگر
15

جملہ
288 جملہ نشستیں

ہریانہ اسمبلی میں جماعتی موقف
سیاسی جماعت
موجودہ حاصل کردہ نشستیں
پچھلی اسمبلی میں جماعتی موقف
بی جے پی
47

کانگریس
15

انڈین نیشنل لوک دل
19

ایچ جے سی
02

دیگر
07

جملہ اسمبلی نشستیں
90

اس طرح ان دو جدولوں (شیڈولس) کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ مہاراشٹرا میں بی جے پی جو کبھی شیوسینا کی حلیف تھی اور یہ ساتھ تقریباً 25 سالوں پر محیط تھا لیکن اقتدار کی چاہ میں یہ اتحاد ٹوٹ گیا لیکن بی جے پی نے تنہا 122 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے ایوان کی سب سے بڑی جماعت کا موقف حاصل کرلیا اور اسے حکومت بنانے کیلئے صرف 22 نشستوں کی ضرورت ہے۔کانگریس کو اس الیکشن میں بھی سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔کانگریس اور شرد پوار کی سیاسی جماعت این سی پی کا اتحاد مہاراشٹرا میں تقریباً 15 سال سے چل رہا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ اتحاد الیکشن سے عین قبل نشستوں کی تقسیم کے موضوع پر بکھر گیا۔ بی جے پی اور شیوسینا کا اتحاد بھی الیکشن سے قبل ٹوٹ چکا تھا ۔ چنانچہ مہاراشٹرا میں اس مرتبہ دو بڑے اتحاد سیاسی جماعتوں کے ٹوٹ گئے اور اس طرح بی جے پی ، شیوسینا، کانگریس اور این سی پی بغیر کسی اتحاد کے علحدہ علحدہ انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں ۔ اس مرتبہ مہاراشٹرا میں، مہاراشٹرا نو نرمان سینا جس کے بانی صدر راج ٹھاکرے ہیں ،جو شیوسینا صدر ادھو ٹھاکرے کے رشتہ کے بھائی بھی ہیں، بہت بڑی شکست سے دوچار ہوئے ہیں، کیونکہ ان کی جماعت کو صرف ایک نشست پر اکتفا کرنا پڑا، جبکہ پچھلی اسمبلی میں انہیں 13 نشستیں ملی تھیں۔

خیال کیا جارہا تھا کہ کانگریس کو جو کسی حد تک پچھلے اسمبلی ضمنی انتخابات میں اپنا موقف بہتر بناچکی تھی اور بی جے پی کو پارلیمانی انتخابات کے بعد اپنی گرتی ساکھ کو سنبھالنا تھا کیونکہ اس نے 58 اسمبلی حلقوں کے انتخابات میں صرف 13 حلقوں میں کامیاب ہوچکی تھی جس سے اس کی مقبولیت میں کمی کے گراف کا پتہ چلتا ہے ، لیکن کانگریس ایسا کچھ کرنے میں ناکام رہی۔
اگر کانگریس ۔ ا ین سی پی اتحاد برقرار رہ سکتا تھا تو یقیناً اس کا فائدہ دونوں جماعتوں کو پہنچتا ، حالانکہ یہ اتحاد تین میعادوں تک برقرار رہا اور مہاراشٹرا میں ہمیشہ سے کانگریس حکومت کرتی آئی ہے کیونکہ وہاں پارٹی کیڈر اور نچلی سطح پر بلدیاتی سطح پر بھی کانگریس مستحکم ہے، لیکن اس اتحاد کے ٹوٹنے کے سبب دونوں جماعتوں کا نقصان ہوا ہے، نتیجہ میں بی جے پی نے میدان مارلیا ہے۔
اگر جماعت واری ووٹوںکا حصہ دیکھا جائے تو بی جے پی نے 27.8% فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ کانگریس نے 18% اور این سی پی نے 17.2% فیصد اور شیوسینا نے 19.4% فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ اگر کانگریس اور این سی پی ساتھ ساتھ چلتے تو ہوسکتا ہے بی جے پی کو اتنا آگے آنے کا موقع نہ ملتا۔ دوسری طرف اگر بی جے پی شیوسینا اتحاد برقرار رہتا تو اس مرتبہ دونوں جماعتوں کا موقف اور بہتر ہوسکتا تھا ۔ پھربھی شیوسینا جیسے پچھلے انتخابات میں 45 نشستیں حاصل ہوئی تھیں اب 63 نشستیں حاصل کرچکی ہے اور بی جے پی جسے پچھلی مرتبہ صرف 47 نشستیں حاصل ہوئی تھیں اب اسے 122 نشستیں مل چکی ہیں۔ اس طرح ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس جو کہ سیکولر بھی کہی جاتی ہے، اس کے ہاتھ سے اس مرتبہ یہ دواسٹیٹ ، مہاراشٹرا اور ہریانہ بھی نکل گئے اور وہاں ہندوتوا جماعت آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی کا قبضہ ہوگیا ۔
کانگریس کی شکست ہندوستانی عوام کیلئے ایک لمحہ فکر ہے کیونکہ وہ کم از کم اپوزیشن میں رہے تب بھی وہ زعفرانی جماعت کو اپنی من مانی کرنے سے روک سکتی ہے ، خصوصاً اقلیتوں کے مذہبی تشحص کے معاملہ میں بھگوا پارٹی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس کا بہت سخت رویہ ہے جس کی وجہ سے مسلمان اکثر خائف رہتے ہیں ۔ دیکھا یہ جارہا ہے کہ مہاراشٹرا میں اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی بتدریج کم سے کم ہوتی جارہی ہے ۔ پچھلے پارلیمانی انتخابات میں مہاراشٹرا سے ایک بھی مسلمان امیدوار کامیاب نہ ہوسکا۔ مہاراشٹرا کی 288 رکنی اسمبلی میں 1999 ء میں مسلمان ممبران کی تعداد صرف 12 تھی۔ 2004 ء میں یہ تعداد گھٹ کر 11 ہوگئی پھر 2009 ء کے الیکشن میں یہ تعداد گھٹ کر صرف 10 رہ گئی۔ اس مرتبہ یہ تعداد مزید گھٹ کر 2014 ء میں 8 ہوگئی ہے۔ حالانکہ آبادی کے لحاظ سے یہ مسلمانوں کی چوتھی بڑی ریاست ہے، جہاں 10.5% مسلمان بستے ہیں، وہاں کم از کم 30 سیٹیں ملنی چاہئے تھیں۔ اس مرتبہ بھی مسلمانوں کے ووٹ سیکولر جماعتوں میں تقسیم ہوکر بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار کرچکے ہے ں۔ لگتا ہے مسلمانوں نے پچھلے پارلیمنٹ چناؤ سے کچھ سبق نہیں سیکھا ہے کیونکہ مہاراشٹرا میں سیکولر جماعتوں اور مسلمان امیدواروں کے خلاف ہی مسلمانوں نے زیادہ سے زیادہ امیدوار ٹھہرائے ہیں اور اس طرح سیکولر ووٹ آپس میں تقسیم ہوگئے اور اکثر حلقوں میں بی جے پی کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے اور سیکولر ووٹ بٹ جانے سے کوئی بھی مسلمان کامیاب نہ ہوسکا۔ کانگریس کی شکست کے بھی تقریباً یہی وجوہات ہیں۔ معلوم ہوا ہے مالیگاؤں سے 25 امیدواروں میں سے 17 امیدوار مسلمان تھے اور پربھنی سے 25 امیدواروں میں سے 11 مسلمان تھے۔ اس طرح خود مسلمان امیدوار اپنے پیر پر آپ کلہاڑی مارلینے والی حکمت عملی کا شکار ہوگئے ۔ اس کے برعکس صدر بی جے پی امیت شاہ نے نہایت کامیاب حکمت عملی سے ہر حلقہ میں صرف بی جے پی امیدوار یا پھر شیوسینا یا کانگریس امیدوار کے خلاف کھڑے رہے اور انہوں نے ہندو ووٹوں کو تقسیم ہونے نہیں دیا اور اسطرح کامیاب ہوگئے ۔ اس مرتبہ وزیراعظم نریندر مودی نے مہاراشٹرا میں 27 ریالیوں کو اور ہریانہ میں 11 ریالیوں کو خطاب کیا ۔ بی جے پی کی حکمت عملی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان امیدواروں کے خلاف مسلمان امیدوار کو مقابلہ کرنے کی ہمت افزائی کیا کرتی ہے۔ بعض اوقات تو مہاراشٹرا میں مودی نے ایک ایک روز میں 5 جلسوں سے بھی خطاب کیا۔ ہریانہ میں جہاں تک بی جے پی کی کامیابی اور کانگریس کی شکست کے اسباب ہیں وہ یہ ہیں کہ کانگریس یہاں پر مسلسل 10 سے حکومت کر رہی تھی اور یہاں کانگریس پارٹی میں اندرونی اختلافات بھی بہت زیادہ منظر عام پر آچکے تھے جیسے بھوپندر سنگھ ہوڈا اور کماری سیلجا اور ایک جاٹ لیڈر مہندر سنگھ میں اختلافات ظاہر ہوگئے تھے ۔

دوسرے سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ وڈرا کے اراضی معاملات اور کرپشن کے عام ہونے کو لیکر مودی نے ان ایشوز کو اچھی طرح سے کیش کروایا ہے۔ دونوں صوبوں میں نریندر مودی کی جادو بیانی چل گئی اور عوام نے کانگریس کے متبادل کے طور پر اس مرتبہ بھی بی جے پی پر بھروسہ کیا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ ان دو صوبوں میں مودی کی لہر نے اپنا اثر دکھایا ہے ، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے، دراصل عوام نے دونوں جگہ منفی حکومت اور منفی کانگریس کا جو رجحان پارلیمانی انتخابات کے وقت چل رہا تھا اسی کا اعادہ کیا ہے۔

ہریانہ میں بی جے پی کی کامیابی ، کانگریس کے اندرونی اختلافات ، روز تقریباً کرپشن کے معاملات نیز ے ہاں کی مقامی جماعت انڈین نیشنل لوک دل کے صدر اوم پرکاش چوٹالہ کا انتخابی اصولوں کی خلاف ورزی کی پاداش میں جیل جانا اور کانگریس کے منفی ووٹ کی مرہون منت ہے۔ مہاراشٹرا میں تین میعادوں تک کانگریس کے ساتھ حکومت کرنے والی این سی پی نے اس موقع پر حکومت بنانے کیلئے بی جے پی کی باہر سے تائید کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ حکومت میں شامل ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ۔ این سی پی کی اس تائید نے شیوسینا کو برہم کردیا ہے کیونکہ شرد پوار نے اس طرح ادھو ٹھاکرے کی اہمیت کم کر کے ان کا سارا گیم فیل کردیا ہے ۔ بی جے پی کے بااثر رہنما ایل کے اڈوانی اور نتن گڈکری شیوسینا سے دوبارہ اتحاد کرنے کی تائید میں ہیں چونکہ یہ اتحاد تقریباً 25 سال تک چلتا رہا اور یہ دونوں جماعتیں نظریاتی طور پر بہت قریب بھی ہیں ۔ این سی پی کا اس طرح پیشکش کو ایک ابن الوقتی کی علامت سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔ دوسری طرف ایک نیا فارمولہ کانگریس ، این سی پی اور شیوسینا کے اتحاد کا بھی سامنے آیا تھا لیکن یہ بات درپردہ رہی ہے جسے دونوں جماعتیں کانگریس اور این سی پی مسترد کر رہی ہیں ۔ مہاراشٹرا میں عوام تین میعادوں تک ایک ہی قسم کے اتحاد کی بدولت ، عوام میں بیزارگی کا جذبہ پیدا ہوا تھا جسے وہ اسکے متبادل بی جے پی کے انتخاب کی صورت میں اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں ۔ حالانکہ بی جے پی کا ووٹ تناسب جو پارلیمانی چناؤ کے وقت 145 حلقوں میں سبقت حاصل کی تھی لیکن اب یہ فیصد گھٹ کر صرف 120 حلقوں تک محدود ہو گیا ہے ۔ مہاراشٹرا میں این سی پی کی اس پیشکش کو اپنے لئے ایک نرم گوشہ کی تلاش بی جے پی میں دیکھا جارہا ہے کیونکہ بہت سے کرپشن کے واقعات اسی جماعت کے قائدین سے وابستہ ہیں۔ دوسری طرف وہ ایک صحت مند اپوزیشن کی ذمہ داری سے بھی بچنا چاہتی ہے جو ایک قابل تعریف رجحان نہیں ہے ۔ جمہوریت میں اپوزیشن ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہمیت رکھتی ہے۔ اگر اپوزیشن چاہے وہ کسی ریاست میں ہو یا پھر پارلیمنٹ میں ہو وہ حکمران جماعت کی لگام کس کر رکھتی ہے اور اسے دستور کے چوکھٹے سے آگے چھلانگیں لگانے سے باز رکھتی ہے۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں روز بروز اپوزیشن جماعتوں کی جگہ گھٹتی تعداد ہندوستانی عوام خصوصاً اقلیت (مسلمانوں) کیلئے ایک لمحہ فکر ہے ۔ کانگریس جو صرف (44) کے آنکڑے پر آکر پارلیمنٹ میں رک گئی ہے اور افسوس ہے کہ وہ مسلسل 10 مرکز میں حکومت کرنے کے باوجود اپوزیشن کا درجہ حاصل کر نے نہیں پائی ہے۔ اپوزیشن جماعت کیلئے کم از کم خود اپنے بل بوتے پر (55) ارکان پارلیمنٹ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ اس طرح اب تک 4 ماہ گزرنے کے بعد بھی ابھی تک کوئی اپوزیشن پارٹی پارلیمنٹ میں وجود میں نہیں آئی۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تک سارے اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ کے صدمہ سے باہر نہیں نکل پائی ہیں ۔ اس دوران راہول گاندھی اپنا گھر بسالے کر آئندہ انتخابات تک اپنے بال وپر ٹھیک کر کے ضروری توانائیاں فراہم کرلیتے تو بہتر تھا۔ کانگریس کو پہ لے اپنی جماعت کو عوام سے قریب لے آنا چاہئے اور ایک ایسے شاطر اور گفتار کے غازی کو تلاش کرنا ہوگا جو مودی کی شاطر سیاست اور جادو بیانی کا بدل ثابت ہو ، تب ہی کانگریس کی کایا پلٹ ہوسکتی ہے۔ مودی نے ان دو ریاستوں میں پچھلے ضمنی انتخابات میں شکست کو مد نظر رکھتے ہوئے جنگی خطوط پر اپنی انتخابی مہم جاری رکھی اور کامیابی کیلئے کوئی بھی دقیقہ باقی نہیں رکھا۔