مہاراجہ سرکشن پرشاد شادؔ کی سلطنتِ شعری

ظفر سعیدی
مہاراجہ سرکشن پرشاد شادؔ سلطنت آصفیہ کے ایک منفرد اور نامور شاعر تھے ۔ وہ بیک وقت کئی مناصب (یمین السلطنت ، جی سی آئی ای ، پیشکار ، مدارالمہام) پر فائز تھے ۔ غیر معمولی مصروفیات کے باوجود انہوں نے شاعری جیسے صنف سخن میں طبع آزمائی کی وہ بھی بھرپور طریقے سے
طبع موزوں کی بدولت کبھی لکھ لیتا ہوں
غزل و قطعہ رباعی کبھی فرد وافراد
ان کے کسی شعر میں فنی لحاظ سے کوئی خامی نظر نہیں آتی ؎
کلام جتنا ہے سب ہے فصیح اور بلیغ
مگر کہوں تو برا کیا ہے تم کو رشکِ کلیم
شاد نے شاعری میں اپنی نفسیات اور کیفیات کا اظہار کیا ہے اور آزاد نظمیں زیادہ کہی ہیں ،حالانکہ آزاد نظموں میں غیر معمولی پابندیاں ہیں ، ان کے اشعار ان کے روشن افکار سے منور ہیں ، وہ نئے انداز فکر کے شاعر تھے ، ان کے اشعار سے فکر کے قندیل روشن ہوتے ہیں ۔
گل و بلبل کے فسانوں کا نہیں ہوں عاشق
نہ تو گلچیں ہوں گلستاں کا نہ ہوں میں صیاد
شاد کی شاعری کو اردو ادب میں ایک ایسے ستون کی حیثیت حاصل ہے جس پر اردو ادب کا موجودہ منظر رقص کرتا نظر آتا ہے ، ان کی شاعری روایتی شاعری نہیں ہے  ، انہوں نے اپنی شاعری میں اشاروں اور کنایوں سے بڑا کام لیا ہے
مجھ کو آتا نہیں غیروں سے کروں فرمائش
نام سے اپنے پڑھوں اور ہوں طالبِ داد
سرکشن پرشاد شادؔ کا ذہن تعمیری تھا ، ان کے یہاں یاسیت ، قنوطیت کا کوئی شائبہ نہ تھا ، وہ تاریک فضاؤں سے روشنی کشید کرنے کا ہنر جانتے تھے ، وہ جس پُرامید نگاہوں سے اپنی زندگی کو دیکھتے تھے ، ان ہی نگاہوں سے وہ اپنے سامعین کو دیکھتے تھے  ،کیونکہ ان کا یہ احساس تھا   ؎
اسی خدا نے دیا خلعت سخن دانی
اسی کے لطف و کرم سے بنے ہو تم بھی فہیم
یہ مختصر مضمون شاد کی مختصر سوانح اور شاعری پر مبنی ہے ۔ ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر تبصرہ مشکل ہے ۔ آج ایسے دور میں جبکہ شاعروں اور متشاعروں کے ہجوم میں اردو شاعری کار شتہ قاری سے ٹوٹتا جارہاہے ، اردو کے مایہ ناز خادم اور شاعر سرکشن پرشاد شادؔ کا تذکرہ ضروری ہے  ۔بے لوث اور بے نیاز جذبہ خدمت کے ساتھ جو صاحبان قلم صف اول کی زینت تھے  ،یکے بعد دیگرے رخصت ہوگئے، کاش انسانی زندگی کا گم کردہ کارواں پھر اسی راہ پر چل نکلے جس پر سرکشن پرشاد جیسے انسانیت نواز حکمراں و شاعر گامزن تھے ۔ ان کی انسانیت نوازی کو بہت سے اہل قلم شعوری طور پر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں    ؎
آئے تھے ہم سے بات بھی کرنے نہ پائے وہ
روکا حیا و شرم نے ان کی زبان کو
میں نے جو شادؔ ان سے کیا وصل کا سوال
اٹھ کر وہ سیدھے چل دیئے اپنے مکان کو
پہلے میرا خیال تھا کہ کشن جی کا لائحہ عمل انگریزوں کی خوشنودی اور مفاہمت تک محدود ہے ، ان کی زندگی کی روئیداد پڑھ کر میرا یہ نظریہ تبدیل ہوگیا ۔ جہاں تک ان کے سیکولر ہونے کا تعلق ہے اس میں دورائے نہیں بلکہ وہ سیکولرازم کی مائیت و معنویت سے دوچار قدم آگے تھے ، کیونکہ ان پر انسانیت نوازی حاوی تھی وہ واقعی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے مظہر اور قومی یکجہتی کے علمبردار تھے ۔
ہزاروں گلستان میں غنچے کھلے ہیں
مگر ہے عنادل سے زینت چمن کی
شاد اپنے نقطہ نظر کے لحاظ سے بیحد سیکولر تھے ۔ انہوں نے اپنے سیکولر کردار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں نے تین ہندو اور چار مسلم خواتین سے شادیاں کیں اور ان کے بطن سے میری 30 اولادیں پیدا ہوئیں‘‘ واضح رہے کہ ان میں سے چند ان کی زندگی میں فوت ہوگئے ۔ ہندو بیویوں سے پیدا ہونے والے بچے ہندو مذمت سے وابستہ رہے اور مسلمان بیویوں سے اسلام مذہب سے اور ان کی شادیاں بھی ان کے اپنے اپنے مذہب کے مطابق ہوئیں ، حالانکہ ان کی متعدد بیویاں تھیں تاہم انہوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر لوگوں کو ایک شادی کی فہمائش کی ۔
وحدت ہے اگر گہر ، صدف سینہ ہے
دل میں نہیں کچھ حد ، یہ بے کینہ ہے
بینا ہو اگر کوئی تو دیکھے اے شاد
اسرارِ الہی کا یہ گنجینہ ہے
سرکشن پرشاد شادؔ بیحد رحمدل اور غریب پرور انسان تھے ، ان کے پاس جو کوئی شخص مالی مدد کے لئے آتا وہ اس کو بن دیئے واپس نہ کرتے ، ان کے سکریٹری نواب مہدی نواز جنگ محمد بن علی باوہب کے بقول وہ یومیہ 300 روپئے مسکینوں اور غریبوں میں تقسیم کرتے تھے  ،ضرورت مند لوگ ان کی کار کا تعاقب کرتے ، ان کی کار میں سکے سے بھرے دو بیگ ہوا کرتے ، وہ اپنا سر نیچے اور آنکھیں بند کرکے غریب لوگوں کے ہجوم میں پیسے پھینکتے ، کسی کو حقیر دیکھنا ان کو قطعی ناپسند تھا ۔ وہ غیر معمولی سخاوت کے باعث تہی دست بھی ہوئے    ؎
عزت کا تقاضا ہے کروں میں نہ سوال
مجبور ہوں اے شاہ برا ہے اب حال
اک قحط ہے قرضہ بھی ہے تنخواہ نہیں
پہنچی ہے یہ نوبت کہ ہو مردار حلال
شاد بڑے خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ ان کی پیدائش یکم جنوری 1864ء کو حیدرآباد میں ہوئی ۔ ان کا سلسلہ نسب مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے وزیر مالیات راجہ ٹوڈرمل سے ملتا ہے ۔ شاد دولت آصفیہ (حیدرآباد) کے دوبار وزیراعظم رہے ۔ انہوں نے فن شاعری میں خوب طبع آزمائی کی ، شعر و شاعری کا ان پر جنون طاری تھا
کہتے ہیں فنِ سخن میں نہیں ہے استعداد
لوگ سچ کہتے ہیں اے شاد بجا ہے ارشاد
شاعری میں ان کا تخلص شاد تھا ، وہ بیک وقت دنیا کی متعدد زبانوں فارسی ، عربی ، اردو ، ہندی ، گرمکھی اور انگریزی سے واقف تھے تاہم انہوں نے صرف فارسی اور اردو میں شاعری کی ۔ ان کے دل میں عظیم شعراء کی بیحد قدر و منزلت تھی انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور اور اپنے عہد کے اردو شاعر فانی بدایونی کو حیدرآباد مدعو کیا ، فانی کو حیدرآباد میں صدر مدرس کے عہدہ کی پیشکش کی ۔ شاد کو سیر وسیاحت کا بھی بہت شوق تھا ۔ انہوں نے ملک کے بیشتر علاقوں کی سیاحت کی ، لاہور سفر کے موقع پر شاعر مشرق علامہ اقبال سے ملاقات کی اور ان کو حیدرآباد آنے کی دعوت دی
مجھے تو اہل ہنر سے ہمیشہ الفت ہے
جو ذی کمال ہیں ، بیشک ہیں واجب التعظیم
سرکشن پرشاد شادؔ کا محل شعر و شاعری کا مرکز تھا ۔ ان کا محل مشاعرے کے لئے مشہور تھا ۔ وہاں وقفے وقفے سے مشاعرے کا انعقاد ہوتا تھا ۔ مشاعرے کے لئے ملک کے نامور شعراء مدعو کئے جاتے تھے ، سرکشن پرشاد مشاعرے میں عموماً نظام سابع کی مدحت سرائی کرتے تھے مثلاً
محبوب سا اب کون ہے پیارا مجھ کو
فرقت ہے کب اس کی گوارا مجھ کو
کیجئے نہ کبھی حضور سے شادؔ کو دور
دنیا میں ہے حضرت کا سہارا مجھ کو
شاد کے اشعار پیش کرنے کا انداز بہت پیارا تھا ۔ ان کے ہر شعر پر ان کو خوب داد ملتی تھی ۔ شاد مشاعرے میں نظام سابع کا بھی کلام پیش کرتے تھے  ،ان کے علاوہ کسی اور شخص کو نظام کے اشعار پیش کرنے کی اجازت نہ تھی ۔ وہ حضور نظام سے ان کے اشعار اپنی آنکھوں سے چومتے ہوئے وصول کرتے تھے ، سلطنت آصفیہ کے سفراء کو ان ہی کے ذریعے ان کے اشعار موصول ہوتے تھے ۔
نظام کے شعراء خاص میں عابد علی نامی ایک شاعر تھے ، وہ نقالی میں بیحد ماہر تھے ، شاد کے ایما پر انہوں نے نسوانی لباس اور لب و لہجہ میں اشعار پیش کئے ۔ تبھی سے ان کے نام کے ساتھ ’’بیگم‘‘ کا اضافہ ہوا اور عابد علی بیگم سے مشہور ہوئے ۔ شادؔ نے اسی ڈرامائی شاعری کے بعد ان کے لئے ماہوار وظیفہ جاری کیا جو کہ ان کو تاحیات ملتا رہا ۔ سن رسید ہونے کے بعد عابد علی محل میں آئے اور ان کا شکریہ ادا کیا ، انہوں نے سرکشن پرشاد شادؔ سے کہا حضور! یہ آپ کی سخاوت ہے کہ ضعیفی میں بھی آپ کا وظیفہ جاری ہے ۔ شاد نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ہاں یہ عجیب بات ہے ۔
شاد نے اپنے تمام اشعار اپنے حیات اور نگرانی میں نفیس کتابت اور عمدہ کاغذوں پر طبع کرائے ، اس دور کی چھپی ہوئی ان کی کتاب ’’رباعیات شاد‘‘ آج بھی ترو تازہ نظر آتی ہے ۔ یہ کتاب 1915 میں محمد رحمت اللہ رعد کے زیر اہتمام نامی پریس کانپور میں طبع ہوئی ۔ شاد نے سفرنامہ کے علاوہ 60 سے زائد کتابیں تصنیف کیں ، ان کی شعری تخلیقات ’’رباعیات شاد‘‘ کا مجموعہ ان کی ذہنی کاوش کا قیمتی حصہ ہے ۔
شادی کی شاعری بہت معیاری ہے ، میری نظر میں ان کے اشعار کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی ذوق ، داغ اور فانی کے لکھے ہوئے اشعار کی ۔ شاد کی شاعری معصوم ہندوستانی کی پیار و محبت کی مہکتی ہوئی فضا کی عکاس ہے ، ان کی شاعری میں سادگی ، چاہت ، معصومیت اور اپنائیت نظر آتی ہے جو کہ ہندوستان کے خوشبودار ماحول کی ایک جھلک ہے ۔
معلوم حقیقت نہیں ساری اس کو
پیغام یہ دے بادِ بہاری اس کو
دونوں عالم کو بھول بیٹھا ہے شاد
اس طرح سے ہے یاد تمہاری اس کو
سرکشن پرشاد شادؔ کو تمام طبقات میں مقبولیت حاصل تھی تاہم ان کے حوالے سے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وہ خود کو ہندو ظاہر کرتے ہیں حالانکہ وہ مسلمان ہیں ، لوگوں کا یہ تاثر ان کے توحید پر مبنی اشعار کے تئیں تھا مثلاً
دوزخ جسے کہتے ہیں وسواس کا نام
جنت سے مراد ہے سکون و آرام
آرام و سکون اسی کو حاصل ہے شادؔ
توحید کی مَے کا جو کوئی پی لے جام
ان کے مسلمان ہونے کے جو لوگ دعویدار تھے ، شاد نے انہیں درج ذیل شعر کے ذریعے جواب دیا۔
میں ہوں ہندو ، میں ہوں مسلم ، ہر مذہب ہے میرا ایمان
شادؔ کا مذہب شاد ہی جانے ، آزادی آزادی ہی جانے
قومی زبان کے ماہ دسمبر کے شمارہ میں سرکشن پرشاد شادؔ سے متعلق مضامین کی شمولیت دراصل اس عظیم شاعر کی برمحل یاد آوری اور خراج عقیدت کا اظہار ہے ، جو ایک صاحبِ علم مدیر کی بیدار مغزی کا ثبوت ہے ۔ اس سے اپنی قیمتی وراثت کو سینے سے لگانے اور اس پر فخر کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے ۔