رشیدالدین
نفرت کی مہم پر سیکولرازم کی جیت
ریکارڈ اکثریت …کجریوال کی آزمائش
اروند کجریوال نے گزشتہ سال جس تاریخ کو چیف منسٹر کے عہدہ سے استعفیٰ دیا تھا، ٹھیک ایک سال بعد اسی دن دوسری مرتبہ چیف منسٹر کے عہدہ کا جائزہ حاصل کرلیا۔ دہلی کے اسمبلی انتخابات میں ریکارڈ کامیابی نے اروند کجریوال کی ذمہ داریوں میں اضافہ کردیا ہے۔ عوام سے بہتر حکمرانی اور مسائل کی یکسوئی کے سلسلہ میں جو وعدے کئے گئے تھے، ان پر عمل آوری کا اصلی امتحان اب شروع ہوگا۔ زائد نشستوں کے ساتھ عوام کی توقعات بھی بہت زیادہ ہیں، ان پر کھرا اترنا اروند کجریوال کیلئے کسی آزمائش اور چیالنج سے کم نہیں۔ عوام کی امیدوں کے رتھ پر سوار کجریوال کو رفتار کے ساتھ کارکردگی کا ثبوت پیش کرنا ہوگا ۔ نریندر مودی کے وجئے رتھ کو آخر کار اسی دہلی میں بریک لگ گیا جہاں سے وہ ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔
مودی میجک کے ذریعہ ملک کی تمام ریاستوں پر زعفرانی پرچم لہرانے کے بی جے پی کے خواب پر دہلی کے رائے دہندوں نے جھاڑو پھیردی ہے۔ جھاڑو چیز ہی ایسی ہے کہ جس کو ابھی بھی دیہی علاقوں میں غرور، تکبر اور جادو کا اثر روکنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ ہتھیار دہلی کے رائے دہندوں کے ہاتھ لگ گیا۔ چائے والے کے نام سے ہمدردی حاصل کرتے ہوئے دہلی کے اقتدار تک پہنچنے کے بعد 10 لاکھ کا سوٹ زیب تن کرنے والے نریندر مودی کے شان و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عام ’’مفلر میان‘‘ ان پر بھاری پڑ جائے گا۔ عام آدمی نے ایک سابق عام آدمی کو زمین پر پہنچا دیا جو اقتدار اور شہرت کے نشہ میں پاؤں زمین پر رکھنے تیار نہیں تھا ۔ نریندر مودی اور بی جے پی اس حقیقت کو بھلا بیٹھے تھے کہ جمہوریت میں رائے دہندے ہی حقیقی بادشاہ گر ہیں۔ جو عوام اقتدار کے تخت تک پہنچاتے ہیں، وہ تخت نشین کو بے تخت کرنے اور تختہ الٹنا بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ دہلی کے اسمبلی انتخابات جس پر دنیا بھر کی نظریں تھیں، نئی تاریخ رقم کی ہے۔
دہلی جسے ابھی تک مکمل ریاست کا درجہ بھی حاصل نہیں مودی کیلئے وقار کا مسئلہ تھا۔ ’’ملک کا موڈ ، دہلی کا موڈ‘‘ کا نعرہ لگانے والے وزیراعظم جو ریڈیو پر عوام کو من کی بات بتاتے ہیں، وہ دہلی والوں کے من کی آواز سننے میں ناکام ہوگئے ۔ دہلی کے رائے دہندوں نے ملک کی انتخابی تاریخ کا چونکا دینے والا فیصلہ سنایا، جس میں عام آدمی پارٹی کو اسمبلی کی 97 فیصد نشستوں پر کامیابی سے نوازا۔ کسی بھی ریاست میں اس قدر شاندار کامیابی کی کوئی مثال نہیں ہے۔ رائے دہندوں نے رائے دہی سے قبل کئے گئے اوپنین پول اور رائے دہی کے بعد کے اگزٹ پول کے نتائج کو غلط ثابت کردیا۔ گجرات اسمبلی اور لوک سبھا کے چناؤ میں بی جے پی کو اس قدر ووٹ حاصل نہیں ہوئے جس قدر ووٹ صرف 2 سال کی نوزائدہ عام آدمی پارٹی نے حاصل کئے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد ہریانہ ، جھارکھنڈ، مہاراشٹرا اور جموں و کشمیر میں بہتر مظاہرے اور تین ریاستوں میں اقتدار نے بی جے پی کو بے قابو کردیا تھا۔ ملک بھر میں کانگریس کے کمزور موقف سے بی جے پی خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگی تھی لیکن دہلی کے عوام نے مودی کی کارکردگی پر ریفرنڈم کی طرح تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے سیاسی شعور کا غیر معمولی مظاہرہ کیا ہے۔ نتائج نے واضح پیام دیا ہے کہ کوئی بھی پارٹی رائے دہندوں کو حقیر یا اپنی جھولی میں نہ سمجھے ورنہ عوام انہیں دھول چٹانا اچھی طرح جانتے ہیں۔ اقتدار کو دائمی سمجھ کر جو بھی وعدوں سے انحراف و من مانی کرے گا ، اس کا حشر یہی ہوگا لیکن شرط یہ ہے کہ ہر ریاست میں دہلی کی طرح آزادانہ اور شفاف رائے دہی ہو۔ بی جے پی کی شرمناک شکست کے بعد سیاسی مبصرین ، میڈیا اور خود بی جے پی شکست کے اسباب کا جائزہ لینے میں جٹ گئی ہے۔ ہر گوشہ سے مختلف وجوہات بیان کی جارہی ہیں جن میں بی جے پی کی منفی انتخابی مہم ، کجریوال کی مقبولیت، کرن بیدی کی بی جے پی میں شمولیت، بی جے پی میں داخلی انتشار دہلی کیلئے بی جے پی کیلئے ویژن کی کمی، مقامی مسائل سے عدم دلچسپی اور اسمبلی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر جیسی وجوہات شامل ہیں۔ تجزیہ نگار بھلے ہی کچھ کہہ لیں لیکن ہمارا موقف مختلف ہے۔ ہمارے تجزیے کے مطابق دہلی چناوی نتائج جارحانہ فرقہ پرستی کے خلاف عوام کا فیصلہ اور سیکولرازم کی کامیابی ہے۔
8 ماہ کی نریندر مودی حکومت کی کارکردگی پر عوامی برہمی کا اظہار ہے۔ یقیناً ملک کے عوام کے جذبات کی ترجمانی دہلی کے رائے دہندوں نے کی ہے۔ عوام نے یہ ثابت کردیا کہ ملک کے سیکولر اور مذہبی اقدار سے انحراف کرنے والوں کا یہی حشر ہوگا۔ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے اور دستور ہند سے سیکولر اور سوشلسٹ جیسے الفاظ کو حذف کرنے کی سازش کرنے والوں کو رائے دہندوں نے بلا لحاظ مذہب منہ توڑ جواب دیا ہے۔جس ملک میں مذہبی اقلیتیں غیر محفوظ ہوں، جان و مال ، عزت و آبرو اور عبادت گاہوں پر بری نظریں ڈالی جائیں، جس ملک میں گوڈسے کو دیش بھگت قرار دیتے ہوئے اس کی مندر کی تعمیر کا منصوبہ ہو، گھر واپسی اور لو جہاد کے نام پر اقلیتوں میں خوف اور احساس کمتری پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، دہشت گردی کے نام پر دینی مدارس اور مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا جائے تو ایسی حکومت اسی طرح کے سلوک کی حقدار تھی ۔ عوام نے بی جے پی کو شرمناک شکست سے دوچار کرتے ہوئے حکومت کی قیادت کرنے والے نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کو وہ حلف یاد دلایا جس میں دستور اور ملک کی یکجہتی کی پاسداری کی قسم کھائی گئی تھی۔ دہلی نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ ملک کے 125 کروڑ عوام میں 99 فیصد سیکولر اور مذہبی رواداری پر اٹوٹ ایقان رکھتے ہیں اور جب بھی مٹھی بھر عناصر ملک کی روایات کو کمزور کرنے سر اٹھائیں گے تو ان کا یہی حشر ہوگا۔ دہلی میں اقلیتوں کی آبادی اس موقف میں نہیں کہ تمام اسمبلی حلقہ جات پر اثر انداز ہوسکیں۔ انتخابات میں اقلیتوں کے پاس عام آدمی پارٹی کی تائید کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا لیکن اکثریتی طبقہ نے جس انداز میں بی جے پی کے خلاف متحد اور منظم رائے دہی کی اس سے یہ بات یقینی ہے کہ دستور ہند اور ملک کی سیکولر روایات کو کوئی خطرہ نہیں۔ اکثریتی طبقہ کی رائے دہی فرقہ پرست طاقتوں کیلئے کسی وارننگ سے کم نہیں ۔ آخر کیا بات ہوگئی کہ بی جے پی کی مقبولیت 8 ماہ کے عرصہ میں عوامی نفرت اور ناراضگی میں تبدیل ہوگئی ؟ سیکولر ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے عوام کی حکمت عملی کامیاب رہی۔
نئی دہلی کی سیاست نے گزشتہ ایک سال میں عملاً یو ٹرن لے لیا ہے اور عوامی رجحان میں انقلابی تبدیلی دیکھی گئی۔ 2013 ء کے اسمبلی چناؤ میں عام آدمی پارٹی کو 29.5 فیصد ووٹ کے ساتھ 28 نشستیں حاصل ہوئی تھی جبکہ بی جے پی 33.1 فیصد ووٹ کے ساتھ 32 نشستوں پر کامیاب رہی ۔ کانگریس کو جس نے 15 سال دہلی پر راج کیا، 25 فیصد ووٹ اور 8 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ 2014 ء لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کو دہلی کی تمام 7 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی ملی، اسے 46.4 ووٹ کے ساتھ 60 اسمبلی حلقوں میں ا کثریت حاصل ہوئی جبکہ عام آدمی پارٹی 32.9 فیصد ووٹ کے ساتھ صرف 10 اسمبلی حلقوں میں برتری حاصل ہوسکی لیکن 8 ماہ کے عرصہ میں سب کچھ بدل گیا۔ عام آدمی کو 54.3 فیصد ووٹ ملے جبکہ بی جے پی کو 32.2 فیصد ووٹ حاصل ہوئے جو لوک سبھا چناؤ کے مقابلہ 14 فیصد اور 2013 کے مقابلہ صرف ایک فیصد کم ہے لیکن نشستوں کے لحاظ کافی فرق پڑگیا۔ کانگریس پارٹی 10 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود کھاتہ نہیں کھول سکی اور اس کے 63 امیدواروں کی ضمانت بھی نہیں بچ سکی۔ ظاہر ہے کہ 8 ماہ کے عرصہ میں فرقہ پرست طاقتوں کو کھلی چھوٹ اور وعدوں سے انحراف پر ملک کے عوام کی جانب سے دہلی کے عوام نے بدلہ لے لیا ۔ ملک کی ریاستوں سے زیادہ بیرونی ممالک کے دورے اور براک اوباما کی یوم جمہوریہ تقریب میں شرکت سے عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کرنے والے نریندر مودی کو اپنے گھر میں ہزیمت اٹھانی پڑی اور نتائج سے ان کی ’’گھر واپسی‘‘ ہوگئی۔
مرکزی وزیر نرنجن جیوتی نے رام زادے اور حرام زادے کے ریمارک سے دہلی کی انتخابی مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد بی جے پی قائدین میں جارحانہ فرقہ پرستی کے مظاہرے کیلئے دوڑ شروع ہوگئی اور وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی تجاہل عارفانہ سے کام لیتے رہے۔ عوام نے نریندر مودی اور ان کے سپہ سالار امیت شاہ کی ہر سیاسی چال کا منہ توڑ جواب دیا ہے ۔ دہلی کے نتائج سے ان جماعتوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئے جو دھاندلیوں سے کامیابی پر یقین رکھتی ہیں۔ بوگس رائے دہی اور لمحہ آخر میں عہدیداروں کو رشوت کے ذریعہ کامیاب ہونے والوں کو جان لینا چاہئے کہ جب غریب اٹھ کھڑے ہوں تو فیصلے دہلی کی طرح ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کو بہار ، اترپردیش ، پنجاب اور مغربی بنگال کے مجوزہ چناؤ میں آزادانہ رائے دہی کو یقینی بنانا ہوگا۔ 20 سال مسلسل نمائندگی کا ریکارڈ رکھنے والے قائدین بھی دہلی میں ضمانت نہیں بچاسکے۔ رائے دہندوں کی اکثریت نئی نسل سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی نفسیات کسی بھی چیز کا فوری نتیجہ حاصل کرنا ہے۔ لہذا وعدوں کی تکمیل کے سلسلہ میں عام آدمی پارٹی کو بھی امیدوں پر کھرا اترنا ہوگا۔ صرف وعدوں اور جادو بیانی سے عوام کو بہلایا نہیں جاسکتا ۔ اروند کجریوال اور ان کے ساتھیوں کو اس کامیابی سے بے قابو ہونے کے بجائے کارکردگی پر توجہ دینی چاہئے۔
49 دن میں حکومت چھوڑنے کی غلطی کو عوام نے معاف کردیا اور عام آدمی پارٹی کو عوامی خدمت کی سنجیدگی ثابت کرنے کا ایک موقع دیا ہے۔ بھلے ہی 97 فیصد نشستوں پر کامیابی ملی لیکن ووٹ 54 فیصد ہیں اور بی جے پی ووٹ بینک 2013 ء کی طرح اپنی جگہ برقرار ہے۔لہذا اروند کجریوال اور ان کی ٹیم کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ نتائج کے بعد عام آدمی پارٹی کے اسٹیج سے وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے جیسے نعرے تشویش کا باعث ہیں۔ سیکولر پسند عوام پر یہ گراں گزر رہے تھے، ان نعروں نے رنگ میں بھنگ کا کام کیا۔ سیکولرازم اور مذہبی رواداری کی اس کامیابی کو مذہبی رنگ نہ دیا جائے۔ غیر محسوس طریقہ سے سنگھ پریوار کے عناصر عام آدمی کو بھی اپنے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ دہلی کے نتائج ملک میں نئی سیاسی صف بندی کا واضح اشارہ ہیں کیونکہ عوام روایتی طرز کی قیادتوں سے بیزار ہوچکے ہیں۔ کجریوال صرف دہلی کو اپنی آخری منزل نہ سمجھیں بلکہ ملک بھر میں سیکولر طاقتوں کو متحد کرنے میں اہم رول ادا کریں۔ بہار اور دیگر ریاستوں کے چناؤ میں عام آدمی پارٹی کو عوامی پذیرائی کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دہلی کے نتائج پر کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہ بی جے پی کی ٹولی اس لئے خاموش تھی نشترؔ
انہیں خوش فہمیاں تھیں یہ نہیں ہیں آج خطرے میں
مگر جب ان کے منصوبوں پہ جھاڑو آپ نے پھیری
نظر آیا انہیں تب اپنا تخت و تاج خطرے میں