تحفظ شریعت …صرف دعوے نہیں عمل کی ضرورت
نوٹ بندی کا ایک سیاہ ماہ … عوام سڑکوں پر
رشیدالدین
مسلم پرسنل لا کے خلاف مختلف گوشوں سے منظم انداز میں مہم اور اسے نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ الہ آباد ہائیکورٹ کا تازہ فیصلہ مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ آخر کیا بات ہوگئی کہ مختلف عدالتوں کی جانب سے شریعت اسلامی کے خلاف فیصلوں کے رجحان میں اضافہ ہوچکا ہے۔ دراصل ملک میں برسر اقتدار پارٹی کے ایجنڈہ میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا مسئلہ شامل ہے اور جس انداز میں ایجنڈہ کی تکمیل کی مہم چلائی جارہی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ بھی اس کا کسی نہ کسی طرح شکار ہوچکی ہے۔ عام طور پر کسی بھی معاملہ میں عدالت فیصلہ دینے سے قبل اس سے مماثلت رکھنے والے مسئلہ پر اوپری عدالتوں کے فیصلوں کو پیش نظر رکھتی ہے لیکن ان دنوں مسلم پرسنل لا کے بارے میں عدالتیں اپنے طور پر فیصلے صادر کر رہی ہیں، بھلے ہی یہ فیصلے شریعت میں مداخلت کے مترادف کیوں نہ ہوں۔ دستور ہند نے ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے اور اس کے پرچار کا حق دیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے بعض ایسے فیصلے موجود ہیں، جن میں شریعت میں مداخلت سے گریز کی بات کہی گئی۔ اس کے باوجود ملک کی مختلف عدالتوں سے شریعت کے برخلاف فیصلوں کا سلسلہ تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مقدمات میں شریعت اسلامی کے حق میں دلائل کی عدم پیشکشی اور عدم پیروی اس طرح کے فیصلوںکا سبب بنتی ہے۔ دوسرے یہ ملک گیر سطح پر شریعت اسلامی کو خواتین سے ناانصافی سے جوڑنے کی نفرت انگیز مہم بھی بسااوقات عدلیہ کو متاثر کردیتی ہے۔ شریعت کے تحفظ کے سلسلہ میں صرف زبانی جمع خرچ اور بے حسی نے بھی یہ صورتحال پیدا کی ہے۔ آج ہندوستان میں اس طرح کی بے باک اور بے لوث قیادت کا فقدان ہے، جس نے شاہ بانو کیس میں عدلیہ کے مخالف شریعت فیصلے کے بعد راجیو گاندھی حکومت کو شریعت کے حق میں دستوری ترمیم کیلئے مجبور کیا تھا ۔ طلاق ثلاثہ اور کثرت ازدواج کو بنیاد بناکر شریعت کے خلاف جاری مذموم مہم کے ذریعہ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اس کے لئے مسلمانوں کے بعض نام نہاد دانشور اور دین بیزار افراد کو آگے کردیا گیا ہے۔ ایسے مسلمان جو دینی شعور سے عاری ہیں، وہ بھی اس پروپگنڈہ کا بآسانی شکار ہوجاتے ہیں ۔ ایسے وقت جبکہ طلاق ثلاثہ پر معاملہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے اور لا کمیشن کے ذریعہ یکساں سیول کوڈ کے بارے میں رائے عامہ کے حصول کے نام پر ماحول سازگار بنانے کی مساعی ہے، الہ آباد ہائی کورٹ نے مسلم پرسنل لا کو چیلنج کردیا۔ ایک رکنی بنچ نے طلاق ثلاثہ کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ کوئی بھی پرسنل لا دستور سے بالاتر نہیں ہے۔ یہ ریمارک کئی قانونی ماہرین کیلئے حیرت کا باعث ثابت ہوا کیونکہ دستور ہند نے خود ہر شہری کو مذہبی آزادی فراہم کی ہے ۔ جہاں تک پرسنل لا کا سوال ہے ، چاہے وہ کسی مذہب کا کیوں نہ ہو ، دستور نے اس کی برتری کو تسلیم کیا ہے لیکن شریعت کو اس کے تابع قرار دینا ناقابل فہم ہے۔ شریعت اسلامی کوئی دنیا والوں کا تیار کردہ قانون نہیں کہ جس میں ترمیم یا تبدیلی کی جاسکے۔ ہر مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے اس قانون کا اطلاق صبح قیامت تک رہے گا اور اس میں ترمیم یا مداخلت کی کوئی بھی کوشش ناقابل قبول ہے۔ ہائیکورٹ توکجا اگر سپریم کورٹ بھی شریعت کے خلاف فیصلہ دے گا تو مسلمان اسے قبول نہیں کریں گے کیونکہ مسلمان شریعت کا تابع ہے، بعد میں دستور اور قانون کا پابند ہے۔ شریعت کے بغیر ایمان کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ حب الوطنی ایمان اور شریعت کا حصہ ہے لیکن ایک مسلمان کیلئے مقام اور دستور سے زیادہ مقدم شریعت ہوگی۔ مسلمانوں کے عائیلی مسائل سے نمٹنے کیلئے ملک میں شرعی عدالتوں کا کوئی نظم نہیں ہے، جس کے نتیجہ میں شریعت سے متعلق امور کے فیصلے انسانی ہمدردی یا پھر انسانی دماغ کے مطابق صادر کئے جارہے ہیں۔ حکومت کو اس بات کیلئے مجبور کیا جائے کہ مسلمانوں کے عائیلی مسائل کے سلسلہ میں ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں علحدہ بنچ قائم کیا جائے جس میں علماء اور شریعت اسلامی پر عبور رکھنے والے جج کا تقرر کیا جائے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ ہونے کے باوجود وسائل اور ماہر قانون کی کمی کا شکار دکھائی دیتا ہے ۔ جہاں بھی اس طرح کے مقدمات زیر دوران ہوں وہاں فریق کی حیثیت سے شامل ہونا چاہئے یا فیصلہ کے بعد اسے چیلنج کیا جائے۔ الہ آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ آئی اوپنر ہے اور مسلم قیادت اور مسلمان اگر بیدار نہ ہوں تو یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔ اسی طرح کی بے حسی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا مسلم کردار کھودیا اور پھر بابری مسجد کو شہید ہوتا ہوا دیکھ کر کچھ نہ کرسکے۔ دونوں مواقع پر مسلمانوں کی آواز کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اب اسلام اور مسلم دشمن طاقتوں کا تیسرا نشانہ شریعت اسلامی ہے جس کے بغیر تشخص کی برقراری ممکن نہیں۔ مسلمانوں کی اسلامی شناخت شریعت سے ہے جو مخالفین کو کھٹک رہی ہے ۔ جان سے زیادہ شریعت پیاری نعرہ لگانا تو آسان ہے لیکن اس کے تقاضوں کی تکمیل مشکل ہے۔ شریعت کا تحفظ صرف جذباتی نعروں ، ایر کنڈیشنڈ کمروں کے اجلاسوں یا مرغن غذاؤں کے ساتھ غور و خوض سے ممکن نہیں۔ ہم ایک وقت کے کھانے کو قربان کرنے تیار نہیں اور دلوں میں حکومت اور پولیس کے خوف نے بھی ایمانی حرارت کو ٹھنڈا کردیا ہے۔ روزانہ کے پرتعیش معاملات میں تو کوئی فرق نہیں آیا لیکن کسی ٹی وی چیانل کا کیمرہ آن ہوجائے تو جذباتی انداز میں احتجاج درج کرادیا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہ احتجاج اور جذبات حلق سے نیچے نہیں اترتے۔ شریعت اسلامی سے اداروں اور عوام کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے نوٹ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی تحفظ شریعت مہم عملاً ختم ہوگئی۔ ہر کسی کو کرنسی کیلئے پریشان دیکھا گیا، چاہے وہ ادارے ہوں یا افراد ۔ پیسے کیلئے سردی میں رات بھر اے ٹی ایم کے پاس قطار میں ٹھہرنے کیلئے تو تیار ہے لیکن شریعت میں مداخلت کی کوششوں پر سناٹا ہے۔
عدالتوں میں شریعت اسلامی کے حق میں موثر قانونی لڑائی کے ساتھ جمہوری انداز میں ارباب اقتدار پر اثرانداز ہونے کی کوشش ضروری ہے۔ جب یکساں سیول کوڈ کے سلسلہ میں لا کمیشن نے عوام سے رائے حاصل کی تو نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کے قبائل نے ان کے پرسنل لا کی برقراری کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج منظم کیا۔ کیا مسلمان ناگا اور میزو قبائل سے بھی گئے گزرے ہیں کہ صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کرسکتے۔ شریعت میں مداخلت کا اختیار عدلیہ تو کیا پارلیمنٹ کو بھی نہیں ہے۔ شریعت میں تبدیلی کیلئے بعض مسلم ممالک کے قوانین کی مثال پیش کی جارہی ہے۔ اس طرح کی دلیل اور مثال پیش کرنے والوں کو جان لینا چاہئے کہ مسلمانوں کیلئے کوئی مسلم ملک مثال یا عملی نمونہ نہیں ہوسکتا۔ اگر تمام ممالک بھی مخالف شریعت کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو ہندوستانی مسلمان اسے اختیار کرنے کے پابند نہیں۔ ممالک اور حکمرانوں سے زیادہ مقدم شریعت ہے۔ جس وقت مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر حلفنامہ داخل کیا تھا، اسی وقت اگر مسلم قیادتیں بیدار ہوجاتیں تو صورتحال اس قدر خراب نہ ہوتی۔ مرکز کا حلفنامہ شریعت میں راست مداخلت ہے۔ ملک کے دستوری عہدہ پر فائز نائب صدر حامد انصاری کا شمار مختلف مذاہب کے ماہرین میں ہوتا ہے ، وہ دستور اور قانون پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ اب جبکہ مرکزی حکومت مسلمانوں کے جذبات کی پرواہ کئے بغیر یکساں سیول کوڈ کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتی ہے، نائب صدر جمہوریہ کی حیثیت سے حامد انصاری کو چاہئے کہ وہ ملک اور قوم کی بھلائی کیلئے مرکزی حکومت کی رہنمائی کریں۔ انہیں اس حساس مسئلہ پر مرکزی حکومت کو مخالف شریعت فیصلہ سے باز رکھتے ہوئے اپنے دستوری فریضہ کی تکمیل کرنی چاہئے ۔ دوسری طرف نریندر مودی حکومت کے نوٹ بندی فیصلے کا ایک ماہ مکمل ہوگیا جو ملک کے عوام کیلئے ایک سیاہ ماہ کی طرح تھا۔ ملک کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے جب کسی حکومت نے اقتدار عطا کرنے والے عوام کے ساتھ اس طرح بدلہ لیا ہو۔ نریندر مودی نے بلیک منی کے نام پر بڑے نوٹ منسوخ کئے اور بتدریج وہ اپنا بیان بدلنے لگے ہیں۔ حکومت کی دن بہ دن قلابازیاں عوام کے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ کا سبب بن رہی ہیں۔ مودی نے 50 دن کا عوام سے وقت مانگا تھا اور اب بمشکل 15 دن باقی رہ گئے ہیں اور صورتحال کے سدھرنے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ نریندر مودی باقی مدت گزرنے کے بعد عوام کا کس طرح سامنا کرپائیں گے۔ کالے دھن کے انکشاف کے جو معاملات منظر عام پر آرہے ہیں، ان میں برسر اقتدار پارٹی سے وابستہ قائدین کی اکثریت ہے۔ اگر آئندہ دو ہفتوں میں صورتحال بہتر نہ ہوئی تو عوامی ناراضگی نہ جانے کس شکل میں منظر عام پر آئے گی۔ نریندر مودی اس مسئلہ پر پارلیمنٹ کا سامنا کرنے تیار نہیں ہیں اور وہ پارلیمنٹ کے باہر بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں ۔ اگر نوٹ بندی کا فیصلہ ملک اور قوم کے مفاد ہے تو پھر مودی کو پارلیمنٹ کا سامنا کرنے میں کیا چیز مانع ہے اور وہ خوفزدہ کیوں ہیں ؟ مودی کے اس فیصلہ نے ملک میں 100 سے زائد افراد کی جان لے لی ہے اور پتہ نہیں مرکزی حکومت کو اور کتنی اموات کا انتظار ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
مرے اندر سے اک اک کر کے سب کچھ ہوگیا رخصت
مگر اک چیز باقی ہے جسے ایمان کہتے ہیں