مکہ مسجد کیلئے مہاجرین کیمپ کی صیانت ضروری

فیض محمد اصغر

شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی تاریخی مکہ مسجد کا شمار نہ صرف ریاست تلنگانہ یا ہندوستان بلکہ دنیا کی خوبصورت اور وسیع و عریض مساجد میں ہوتا ہے۔ اس مسجد کے در ودیوار آج بھی حیدرآباد دکن کے شاہی حکمرانوںکی خداترسی‘ رحم دلی‘ رعایا پروری اور انسانیت نوازی کی گواہی دیتے ہیں اور دنیا کو حیدرآباددکن کی عظمت رفتہ کی بڑی خموشی سے داستانیں سناتی ہیں۔ دنیا میں جب بھی ہمارے ملک جنت نشاں ہندوستان میں پھیلی ہوئی مساجد کا ذکر ہوتا ہے تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد کا ذکر بھی ضرور کیا جاتا ہے۔ ساری دنیا میں مکہ مسجد اپنے وسیع و عریض رقبہ ، فن تعمیر اور اس کی تعمیر کرنے والے نیک بندوں کے اخلاص بالخصوص جن حالات میں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا اس کے حوالے سے اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے۔ اپنی تعمیر کے چار سو سال گذر جانے کے باوجود اس مسجد کی شان و شوکت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ گذرتے وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ مسجد جہاں مصلیوں کیلئے روحانی و قلبی سکون کا ذریعہ ہے وہیں دنیا بھر سے حیدرآباد کا رخ کرنے والے سیاحوں کیلئے فن تعمیر کا ایک نورانی شاہکار بھی ہے جن کی میناروں سے بلند ہونے والی اذانیں ان کے سکون قلب کا باعث بنتی ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو فن تعمیر کی شاہکار جو عمارتیں دنیا بھر میں حیدرآباد کی پہچان ہیں ان میں مکہ مسجد اور ہندوستان میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتا چارمینار سرفہرست ہیں۔ مکہ مسجد مکمل طورپر گرانائٹ سے تعمیر کی گئی ہے۔اس کا محراب ، کمانیں اور حوض سے لیکر تخت سنگ مرمر اپنے دامن میں بے شمار اور حیرت انگیز داستانیں سمیٹے ہوئے ہیں۔ مکہ مسجد کا سنگ بنیاد خود بادشاہ وقت سلطان محمد قطب شاہ نے رکھا تھا۔ داروغہ میر فضل اللہ بیگ اور چوہدری رنگیا المعروف احمد خاں کی نگرانی میں تعمیر کا آغاز ہوا۔ 1617-18 کے آس پاس اس کی تعمیر شروع ہوئی اور پھر 1694 میں اس کی تعمیر تکمیل کو پہنچی۔ تاریخی کتب میں مورخین نے لکھا ہے کہ چار بادشاہوں کے دور حکمرانی میں مکہ مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔ مغل بادشاہ اورنگ زیبؒ نے گولکنڈہ فتح کرنے کے بعد مکہ مسجد کی مابقی تعمیر پر توجہ مرکوز کی اور اس کے سجانے سنوارنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی چونکہ اس مسجد کی دیواروں میں مکہ مکرمہ سے لائی گئی ، مٹی سے تیار کردہ اینٹیں نصب کی گئیں اس لئے قطب شاہی بادشاہوں نے اسے اپنے سے موسوم نہیں کیا بلکہ مکہ مسجد کا نام دیا ۔ مکہ مسجد کو فن تعمیر کی شاہکار مسجد بنانے میں یقینا حکمرانوں کا جذبہ ایمانی، دیانتدار مزدوروں کی غیر معمولی محنت اس دور کے انجینئرو ںکی حیرت انگیز مہارت اور سنگتراشوں کے فن نے اپنا اثر دکھایا۔ خاص طورپر سنگ تراشوں اور انجینئروں نے اپنی صلاحیتو ںکا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ہماری نئی نسل کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مکہ مسجد کی جو محراب ہے اور کمانیں ہیں انہیں ایک ہی پہاڑ سے تراش کر نصب کیا گیاہے۔ دراصل شہر حیدرآباد سے کچھ فاصلہ پر واقع گگن پہاڑ شمس آباد کو سنگ تراشوں نے اس انداز میں تراشا کہ ایک ہی پتھر میں محراب اور کمانیں نکل آئیں۔ مورخین کے مطابق تعمیر مسجد گگن پہاڑ کو مکہ مسجد کے محراب و میناروں کیلئے تراشنے اور انھیں شمس آباد سے حیدرآباد منتقل کرنے کیلئے 6000 سے زائد مزدور اور 2000 سنگ تراش، انجینئرس اور میستری مسلسل 5 برسوں تک مصروف رہے۔ تاریخی کتب میں آیا ہے کہ تیار شدہ محراب کو گگن پہاڑ سے مسجد لانے کیلئے 1400بیلوں کا استعمال کیا گیا۔ تاریخی کے کتب میں یہ بھی آیا ہے کہ جس دن مسجد میں محراب نصب کیا گیا سارے شہر میں خوشیاں ہی خوشیاں تھی۔ ہر طرف خوشی کا ماحول تھا۔ حکمراں سے لیکر رعایا تک بارگاہ رب العزت میں سجدہ شکر بجالارہی تھی۔ واضح رہے کہ اورنگ زیب کے دور میں جب مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تب مسجد میں بہ یک وقت 10 ہزار مصلیوں کی گنجائش تھی مسجد کے مین ہال کی اونچی 70 فٹ ،220 فٹ ارض او رطول 18 فٹ ہے۔ بہرحال اسی تاریخی مسجد کو جمہوریت کا سورج طلوع ہونے کے ساتھ جمہوری حکومتوں نے نظرانداز کرنا شروع کردیا۔ اس پر تعصب کے باعث توجہ نہیں دی جانے لگی اب تو حال یہ ہے کہ مکہ مسجد کے مہاجرین کیمپ اور جلو خاہ سے راستہ یا سڑک نکالنے کی باتیں کی جارہی ہیں اور منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں ڈائرکٹر محکمہ اقلیتی بہبود حکومت تلنگانہ کو فکرمندوںنے ایک مکتوب بھی روانہ کیا ہے جس میں جی ایچ ایم سی کو جلو خانہ اور مہاجرین کیمپ سے ایک نئی سڑک نکالنے کے خلاف خبردار کیاگیا ہے۔ ان ہمدردانہ ملت نے اچھا کیا اس لئے کہ قطب شاہی حکمرانوں نے چارمینار اور مکہ مسجد کی تعمیر شہر کے ایک ایسے مقام پر کی تھی جو حقیقت میں شہر کا مرکز تھا۔ ایسے میں شاہی حکومت کے وزراء نواب ارکان شاہی خاندان نے چارمینار اور مکہ مسجد کے قریب ہی اپنے محلات دیوڑھیاں اور منشن تعمیر کروانے کو ترجیح دی اسی لئے مغرب شمال اور جنوب میں تمام دیوڑھیاں تعمیر کی گئیں جبکہ چارمینار تا شاہ علی بنڈہ روڈ چھوڑ دی گئی لیکن مکہ مسجد کے باب داخلہ کے سامنے والی سڑک کے ایک جانب صدر شفاخانہ یونانی بھی تعمیر کیا گیا۔ چارمینار تا شاہ علی بنڈہ جوروڈ ہے وہ کسی قدر تنگ ہے۔ حیدرآباد دکن میں آصفجاہی حکمرانی کے دوران اعلیٰ عہدہ دار ، مذہبی رہنماؤں اور نوابوں وغیرہ نے حضور نظام کے دربار میں درخواست کی کہ اپنی گاڑیاں، ٹانگے، بگھیاں ، شکرم وغیرہ ٹہرانے کیلئے ان کے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے ایسے میں انھیں اراضی فراہم کی جائے۔ چنانچہ 1920 میں 344.16 مربع گز اراضی جو نواب نصرت جنگ کی دیوڑھی کا ایک حصہ تھی اور کھلی پڑی تھی اس مقصد کیلئے حاصل کی گئی۔ یہ اراضی مکہ مسجد کے شمال سے متصل تھی۔ اس اراضی کی قیمت حضور نظام کی حکومت کے عہد ہ داروں نے ادا کی ۔ اسی دوران مکہ مسجد کی شمال اور نصرت جنگ سے حاصل کردہ قطعہ اراضی سے متصل برق منشن کو جو نواب برق جنگ کی ملکیت تھی انہوں نے 1937 ء میں فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے اپنی دیوڑھی کو پلاٹنگ کی شکل میں فروخت کرنے منصوبہ بنایا اور اس میں سے 16 اوپن پلاٹس نکالے اور اس سلسلہ میں حکام سے لے اوٹ کی منظوری بھی حاصل کی۔ اس اطلاع پر کہ برق جنگ اپنی دیوڑھی کی پلاٹنگ کرتے ہوئے فروخت کررہے ہیں۔ حضور نظام کی حکومت نے 4450 مربع گز پر محیط جملہ 16پلاٹس خریدلئے اور سڑکوں کیلئے جو اراضی چھوڑ دی گئی تھی۔ وہ خود بخود بنا کسی قیمت کے پلاٹس میں شامل ہوگئی۔ اس طرح حکومت کی خریدی گئی اراضی 4450 مربع گز سے بڑھ کر 5707مربع گز ہوگئی جس کے بعد نواب نصرت جنگ اور نواب برق جنگ سے حاصل کردہ اراضی مکہ مسجد کی پارکنگ یارڈ کے طورپر استعمال ہونے لگی۔ 1947-48 میں تقسیم ہند کے دوران ملک میں بھیانک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس کے بعد مختلف علاقوں سے متاثرین حیدرآباد آنے لگے چنانچہ حضور نظام نے شہر کے مختلف علاقوں میں واقع کھلی اراضی مختلف علاقوں سے آئے مہاجرین کو فراہم کی۔ ایسے میں مکہ مسجد کی پارکنگ یارڈ بھی ان مہاجرین کو عارضی طورپر سہارا دینے کیلئے فراہم کیا گیا اور صرفخاص نے وہاں عارضی سائبان نصب کئے۔ بیت الخلاء وغیرہ تعمیر کروائے اور 159 مہاجرین کو چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں فراہم ک ان کے کھانے کا بندوبست کیا۔ مہاجرین وہاں ڈالی گئیں جھونپڑیوں میں رہنے لگے 1948 میں ہی اندرون چند ماہ انڈین گورنمنٹ نے پولیس ایکشن کے ذریعہ حیدرآباد حاصل کرلیا اور اسے انڈین یونین میں شامل کرلیا۔ اس طرح جس بادشاہ نے مہاجرین کو سہارا دیا تھا اور ان کی باز آباد کاری کی تھی ان کی حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا اور مہاجرین کے مکہ مسجد کی پارکنگ یارڈ میں رہنے کا سلسلہ جاری رہا۔ سابقہ شاہی حکومت نے مکہ مسجد اور شاہی مسجد باغ عامہ نامپلی کے انتظامات اور دیکھ بھال ریاستی حکومت کے تفویض کردیئے او ر ان کی جائیدادیں اے پی اسٹیٹ وقف بورڈ میں درج کرد ی گئی جس کے بعد سے ہی انڈومنٹ بورڈ دونوں مساجد کے انتظامات کی دیکھ بھال کررہا تھا لیکن ایک اے او نمبر 405، (AR.T) GAD ، مورخہ 13.09.1996 کے ذریعہ انڈومنٹ ڈپارٹمنٹ نے مکہ مسجد کے انتظامات و دیکھ بھال کی ذمہ داری آندھراپردیش میناریٹیز ویلفیر ڈپارٹمنٹ کے حوالے کردی جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اپنی درخواست میں ہمدردانہ ملت نے واضح کیا کہ مذکورہ حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ مہاجرین کیمپ مکہ مسجد کی ملکیت ہے اور درج وقف ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جی ایچ ایم سی عہد ہ داروں نے جلوخانہ سے مہاجرین کیمپ سڑک نکالنے کا منصوبہ تو بنایا لیکن  اس کے کسی عہدہ دار نے نئی رو ڈ کا منصوبہ روانہ کرنے کی زحمت تک نہیں کی اور نہ ہی یہ بتایا کہ وہ نئی روڈ کیلئے کتنی اراضی حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس درخواست میں یہ بھی بتایا گیا کہ حضور نظام کے دور میں جو 159 حقیقی مہاجرین تھے اب وہ نہیں رہے۔ ان میں سے صرف 7 تا 10 فیصد بقید حیات ہیں جنہیں کرایہ دار کی حیثیت سے رکھا گیا اور برائے نام کرائے بھی وصول کئے گئے اور اب کیمپ میں جو لوگ مقیم ہیں وہ حقیقی کرایہ دار نہیں ہیں اور ایک بھی کرایہ داری حقیقی متوفی کرایہ داروں کے ورثا یا رشتہ داروں کو منتقل نہیں کی گئی۔ بعض حقیقی کرایہ داروں نے اپنی جھونپڑیوں کا قبضہ رقومات حاصل کرتے ہوئے دوسرے کرایہ داروں کے حوالے کردیا۔ بعض نے جھونپڑیوں کو زیادہ کرایوں پر باہر کے لوگوں کو دے دیا ہے جبکہ حقیقی کرایہ داروں کے نام پر ماہانہ صرف 50 روپئے کرایہ ادا کیا جارہا ہے۔ ان میں سے کچھ نے آر سی سی مکانات اور ملگیات تعمیر کرلی ہیں اور اس کیلئے ان لوگوں نے مکہ مسجد کے سپرنٹنڈنٹ یا محکمہ اقلیتی بہبود یا وقف بورڈ اور جی ایچ ایم سی سے اجازت بھی حاصل نہیں کی اور جو ڈور نمبرس ہیں وہ بھی خود کے وضع کردہ ہے۔ اس کے باوجود تمام بنیادی سہولتیں مہاجرین کیمپ کو فراہم کی گئی ہیں لیکن وہ یہ کہتے ہوئے پراپرٹی ٹیکس ادا نہیں کررہے ہیں کہ یہ تو مکہ مسجد کی ملکیت ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس اہم ترین علاقہ میں صرف 50 روپئے کرایہ بھی پابندی سے ادا نہیں کیا جارہا ہے۔ واجب الادا کرایہ 6 لاکھ روپئے تک جاپہنچا ہے۔ ایسے میں کرایہ داروں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اراضی کے حصول کیلئے GHMC کو اپنی مرضی دیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مکہ مسجد کے تقدس کی پامالی کی کسی کو اجازت نہ دی جائے۔