مکتوب نگاری کی روایت

پروفیسر انیس الحق قمر
خط (مکتوب) کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود تحریر کی تاریخ۔ بعض مورخین  کا کہنا ہے کہ چار ہزار برس قبل چین میں پہلا خط لکھا گیا لیکن یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ البتہ 1887 ء میں عراق کے ایک مقام Tel Alsamarna میں ماہرین آثار قدیمہ نے کھدائی کی تو اس مقام پر 300 کے قریب مٹی کی تختیاں دریافت ہوئیں۔ ان تحریروں کو کافی تحقیق کے بعد ماہرین نے خطوط قرار دیا جو فراعنۂ مصر کے نام لکھے گئے تھے ۔ ان خطوط کا زمانۂ تحریر تین ہزار سال قبل کا ہے جو سریانی زبان میں لکھے گئے ۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں ایک خط کا ذ کر ملتا ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سباء (ملک یمن) کے نام لکھا تھا۔

قبل مسیح دور کے ایک شام اوڈیسی کے تخلیق کار ’ہیومر‘‘ کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ یونان میں خطوط لکھنے کا رواج تھا ۔ یونان کے بعض مکاتیب خاص طور پر افلاطون اور ارسطو وغیرہ کے خطوط کا بھی تحقیقات سے پتہ چلا ہے۔ ساتھ ہی یونانی تہذیب کے فوری بعد رومن تہذیب کے عظیم شاعر سیسرو (Sissroo) کے مکاتیب لاطینی زبان میں ملتے ہیں۔ اسی دور کے ہیورلیس Hurales کے تعلق سے تحقیقات ہوئی ہیں کہ اس نے سب سے پہلا منظوم خط لکھا ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں مثلاً سینٹ پال ، سینٹ پیٹرس و دیگر خطوط بھی یونانی زبان میں ملتے ہیں۔ عربوں میں اسلام کی آمد سے پہلے بھی مکتوب نگاری کا رواج تھا لیکن بہت مضبوط نہیں تھا اور نہ باقاعدگی تھی لیکن اسلام کی آمد کے بعد باضابط خطوط لکھے گئے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خطوط لکھے جو آج بھی محفوظ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں گورنروں کو ہدایتیں و اطلاعات بہ شکل مکاتیب روانہ کی جاتی تھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مجموعہ خطبات ’’نہج البلاغہ‘‘ میں آپ کے مکتوبات بھی شامل ہیں۔ عباسی دور میں البتہ اس پر باضابطہ توجہ دی گئی اس وقت اسے ’’انشاء نویسی‘‘ کہتے تھے۔ دوسری طرف ایران میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ساڑھے پانچ سو برس قبل ’’سائیرس مانس‘‘ نامی بادشاہ نے خطوط لکھے ۔ البتہ سامانی بادشاہ ’نوشیرواں‘‘ کے  خطوط ’’توقیعات نوشیرواں‘‘ کے نام سے جمع ہوئے ہیں۔ ایرانی بادشاہوں نے ہر دور میں فارسی میں خطوط لکھے ہیں۔ ایران میں اسلام کی آمد کے بعد ’’دارالانشاء‘‘ بھی قائم ہوا جہاں ’’منشی‘‘ یا ’’دبیر‘’ کے تقررات ہوا کرتے تھے کیونکہ سرکاری زبان عربی اور عوامی زبان فارسی تھی ۔ فارسی کے مشہور شاعر مولانا جامی کے مکتوبات ’’رقعات جامی‘‘ کے نام سے جمع ہیں۔

ہندوستان میں مختلف صوفیائے اکرام نے اپنی خانقاہوں سے فارسی زبان میں بے شمار خطوط تحریر کئے ۔ اکبر کے نو رتنوں میں ابوالفضل کے مکتوبات اتنے اہم تھے کہ مختلف نصابوں میں شامل رہے ہیں۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں تو ہندوستان میں فن خطوط نگاری پر کتابیں بھی لکھی گئیں۔ خاص طور پر ’’منیر لاہوری‘‘ کی ’’انشائے منیری‘‘ چندر بھان برہمن کی ’’چہار چمن‘‘ اور منشات برہمن اور مادھو راؤ کی انشاء مادھو راؤ ان تینوں کو ملاکر ’انشات و منشات‘‘ کہتے ہیں۔
انگریزی میں Jame Hall کو مکتوب نگاری کا باوا آدم کہتے ہیں حالانکہ Ferry Queen نامی مشہور انگریزی نظم کے شاعر Edmand Spencer کے خطوط سولہویں صدی عیسوی میں لکھے گئے ہیں۔ Charles lane, Kids اور Shally یہ انگریزی میں رومانی دور کے انتہائی اہم اور مشہور مکتوب نگار ہیں۔ اس کے بعد Browny کے نام کو اہمیت حاصل ہے ۔

جہاں تک اردو کا تعلق ہے،اردو میں مکتوب نگاری کا رواج فورٹ ولیم کالج کے قیام سے بھی بہت پہلے سے تھا ۔ عام طور پر رجب علی بیگ سرور اور غلام غوث بے خبر کو اردو کا پہلا مکتوب نگار کہا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر لطیف اعظمی نے اپنے مقالے ’’اردو مکتوب نگاری‘‘ میں بعد از تحقیق یہ بات ثابت کی ہے کہ کرناٹک میں ارکاٹ کے نواب والا جاہ کے چھوٹے بیٹے حسام الملک بہادر نے اپنی بڑی بھابھی نواب بیگم کے نام 6 ڈسمبر 1822 ء کو خط لکھاتھا۔ ڈاکٹر لطیف اعظمی کی تحقیق کے مطابق یہ اردو کا پہلا خط ہے۔ گیان چند جین اور عنوان چشتی نے بھی اس تحقیق کی تائید کی ہے۔
خلیق انجم نے اپنے مضمون ’’غالب اور شاہانِ تیموریہ‘‘ میں جان طپش (م 1814 ء) اور راسخ عظیم آبادی (م 1822 ء) دونوں کی باہمی مراسلت کا تذکرہ کیا ہے اور دونوں کے خطوط دریافت بھی ہوئے ہیں یعنی ظاہر ہے یہ خطوط 1814 ء سے پہلے کے ہیں تو ان کی قدامت ثابت ہوجاتی ہے۔ پروفیسر ثریا حسین کی تحقیقی تصنیف’’گارساں دتاسی اردو خدمات اور علمی کارنامے‘‘ میں انہوں نے دتاسی کی کتاب ’’ضمیمۂ ہندوستانی کی مبادیات ‘‘ کا تعارف کروایا اس میں گارساں دتاسی نے اردو کے 18 خطوط شامل کئے ہیںجو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لکھے گئے ۔ اس میں قدیم ترین خط جنوری 1810 ء کا ہے ۔ مکتوب نگار افتخار الدین علی خان شہرت (جو کبھی فورٹ ولیم کالج میں ملازم تھے) ہیں جبکہ مکتوب الیہ کوئی منشی ہے ۔ علاوہ ازیں حیدرآبادی شاعر شیر محمد خان ایمان کی کلیات 1806 ء میں شائع ہوئی جس میں ایک منظوم خط ہے جو کسی نثری مکتوب کے جواب میں ہے۔ مزید یہ کہ ایمان سے بھی بہت پہلے یعنی 1761 ء میں حیدرآباد کے دو منصب دار مرزا یار علی بیگ اور میر ابراہیم جیوان دونوں کے ایک دوسرے کے نام منظوم خطوط دریافت ہوئے ہیں جو 1761 ء میں لکھے گئے ۔ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد کے کتب خانے میں یہ خطوط محفوظ ہیں۔

لہذا اردو مکتوب نگاری کی قدامت ابھی تحقیق طلب ہے اور حتمی طور پر آج بھی کہنا مشکل ہے کہ کونسا اردو کا اولین خط ہے کیونکہ اردو کی قدیم دکنی مثنویوں میں لکھے گئے فرضی خطوط بھی مراسلت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
اردو مکتوبات نگاری کو اہمیت البتہ غالب کی مکتوب نگاری سے حاصل ہوئی اگرچیکہ غالب سے پہلے 1886 ء میں مرزا رجب علی بیگ سرور نے ’’انشائے سرور‘‘ کے نام سے مجموعہ مکاتیب شائع کیا ہے ۔ ان خطوط کی عبارت بھی فسانہ عجائب ہی کی طرح ہے ۔ بعد ازاں خواجہ غلام غوث بے خبر کے دو مجموعہ کاتیب ’’فغان بے خبر‘‘ اور ’’انشائے بے خبر ‘‘ شائع ہوئے ۔ سرور غالب اور بے خبر یہ تینوں ہی ہم عصر تھے ۔ بے خبر کے بعض خطوط سرور کی طرح مسجع اور مقضیٰ ہوتے تھے اور بعض غالب کی طرح انتہائی سادہ ۔ اسی لئے بعض لوگ سادہ مکتوب نگاری کے معاملے میں بے خبر کو غالب کے بجائے اولیت دیتے ہیں۔ غالب اردو کے سب سے بڑے مکتوب نگاری کے معاملے میں بے خبر کو غالب کے بجائے اولیت دیتے ہیں ۔ غالب اردو کے سب سے بڑے مکتوب نگار ہیں ۔ انہوں نے خط کو آدھی ملاقات قرار دیا اور مراسلے کو مالمہ بنادیا ، وہ شاعری میں جس قدر مشکل پسند تھے مکتوب میں اتنے ہی سادہ اور سہل نگار تھے ۔ ان کے بے شمار خطوط دستیاب ہوئے ہیں اور کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں ۔ ’’عودِ ہندی‘‘ ، ’’اردوئے معلی‘‘ ، ’’مکاتیب غالب‘‘، ’’مہر غالب‘‘وغیرہ وغیرہ ۔
غالب کے بعد تو مکتوب نگاری کو بڑی اہمیت حاصل ہوگئی جسے اردو نثر کی ایک باضابطہ صنف سمجھا جانے لگا۔ ان کے بعد سر سید احمد خان کے خطوط کا مجموعہ ’’مکاتیب سرسید‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ مولانا حالی کے خطوط کا مجموعہ ان کے فرزند خواجہ سجاد حسین نے 1925 ء میں مکاتیب حالی کے نام سے شائع کیا اب ’’مکاتیب حالی‘‘ مرتبہ اسماعیل پانی پتی موجود ہے۔ علامہ شبلی نعمانی کے مکاتیب ’’مکاتیب شبلی‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہوئے ہیں۔ ایک جلد میں علماء و مشاہیرین کے نام خطوط ہیںاور دوسری میں عطیہ بیگم اور زہرہ بیگم۔ ان دوخواتین کے نام خطوط ہیں۔ مولانا آزاد کے مکاتیب ’’غبار خاطر‘‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ صفیہ اختر کے خطوط ’’زیر لب‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ مختصر یہ کہ مکتوب نگاری نے نثر کی ایک صنف کی حیثیت سے ادب میں جگہ پائی ہے ۔ البتہ اردو میں مکتوب نگاری کی قدامت ہنوز تحقیق طلب ہے۔