سوال : جب کوئی غیر مسلم واستو کے مطابق مکان بنانے کیلئے کسی پنڈت کو فیس دیکر مکان بناتاہے تو کیا ہم مسلمان اپنی شریعت کے مطابق مکان بنانے کے لئے کسی مفتی صاحب کو ہدیہ (فیس) دے کر اپنا مکان شریعت کے مطابق بناسکتے ہیں؟ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ عالیجناب مفتی صاحب سے اس بارے میں تفصیلی جواب دیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی ؟
نام مخفی ، حیدرآباد
جواب : شریعت میں مکان کی تعمیر کیلئے کوئی خاص احکام نہیں ہیں بلکہ حسب سہولت مکان کی تعمیر کی جاسکتی ہے ۔ اس کے لئے کسی مفتی یا عالم سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ غیر مسلمین کے نزدیک واستو کی اہمیت ہے اور اسلام میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ہر چیز کا خالق، خیر و شر اور نفع و نقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس کے اذن و اجازت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا ۔ البتہ بیت الخلاء کی تعمیر میں یہ امر ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ بوقت طہارت رخ اور پشت قبلہ کی طرف نہ ہو۔
جائیداد مسجد کو دینے کی نیت کرنا
سوال : زید لا ولد ہے ۔ اس نے یہ نیت کی تھی کہ اپنی وفات کے بعد اپنی پوری جائیداد مسجد کیلئے وقف کردے گا لیکن اب اس کا یہ ارادہ ہے کہ مستحقین قرابتداروں کو دو حصے دے گا اور ایک حصہ مسجد کیلئے وقف کرے گا۔ ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
محمد کامران،پھول باغ
جواب : وقف میں محض نیت یا ارادہ کافی نہیں، بلکہ زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری ہے ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 3 ص : 393 میں ہے (ورکنہ الالفاظ المخصوصۃ) ارضی ھذہ (صدقۃ موقوفۃ مؤبدۃ علی المساکین و نحوہ) من الألفاظ فتاوی عالمگیری جلد 2 ص : 357 کتاب الوقف میں ہے ۔ اذا قال أرضی ھذہ صدقۃ محررۃ مؤبدۃ حال حیاتی و بعد وفاتی اوقال ھذہ صدقۃ موقوفۃ محبوسۃ مؤبدۃ أو قال حبیسۃ مؤبدۃ حال حیاتی و بعد وفاتی یصیر وقفا جائزا لازماً۔
پس صورت مسئول عنہا میں زید کو اپنی ملک میں ہر قسم کے تصرف کا حق ہے ۔
حالت نشہ میں طلاق
سوال : حالت نشہ میں تین طلاق دی جائیں تو کیا طلاق واقع ہوگی ؟
حافظ احسان الحق، ملے پلی
جواب : اگر کوئی شخص بلا جبر و اضطرار اور بلا حاجت و ضرورت عمدا حرام نشہ کرے تو جمہور کے پاس مفتی بہ قول کے مطابق طلاق واقع ہوجائے گی۔
در مختار کتاب الطلاق میں ہے۔ (ویقع طلاق کل زوج بالغ عاقل) ولو تقدیرا بدائع ، لیدخل السکران ( ولو عبدا او مکرھا او ھازلا او سفیھاً او سکران) عالمگیری کتاب الطلاق فصل من لا یقع الطلاق میں ہے : ’’ و طلاق السکران واقع اذا سکر من الخمر او النبیذ وھو مذھب اصحابنا کذا فی المحیط‘‘۔
کیونکہ اگر کوئی شخص حالت نشہ میں کسی پاک دامن عورت پر ز نا کی تہمت لگائے تو اس پر حد نافذ ہوگی، حد کے ساقط ہونے کے لئے یہ عذر قابل اعتبار نہیں ہوگا کہ وہ نشہ میں تھا، اس کا قول عبث اور کلام لغو تھا۔ اس طرح اگر کوئی شخص حالت نشہ میں طلاق دے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ فتور عقل کے عذر کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ ’’ فلا یحد الصبی بل یعزر ولا المجنون الا اذا سکر بمحرم لانہ کالصاحی فیما فیہ حقوق العباد کمامر… (رد المحتار ج : 3 ص : 183 ۔ 184 )
مسجد کمیٹی کے ارکان کی ذمہ داریاں
سوال : کسی مسجد کی انتظامی کمیٹی کے لئے کتنے اراکین کی ضرورت ہوتی ہے؟ اور ان کا انتخاب کس طرح کیا جانا چاہئے؟ اور مسجد کے ارکان بننے کے حقدار کون ہیں؟۔ ایک شخص جو مسجد کے بالکل قریب سکونت رکھتا ہو مسجد کی انتظامی کمیٹی کا رکن بننے کا اہل ہے اور دیگر مساجد کے کمیٹیوں کا بھی رکن بن سکتا ہے؟۔ کسی ایک خاندان کے دو اراکین مسجد کے انتظامی کمیٹی کے رکن بن سکتے ہیں؟۔ مسجد سے متصل مکان میں رہنے والا مسجد کی دیوار پر اپنی دیوار بناکر اونچا کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی ان سوالات کے جوابات شریعت کی روشنی میں عنایت فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
محمد ولی الدین، نیو ملے پلی
جواب : مسجد اور مقاصد مسجد ، اس کے اوقاف کی حفاظت و صیانت کے ساتھ مسجد سے متعلقہ ضروری امور کی تکمیل مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ مذکورہ ذمہ داری کی تکمیل کے لئے حسب ضرورت جس قدر ارکان پر چاہے مشتمل کمیٹی بنائی جا سکتی ہے ، افراد انتظامی کی تعداد کتنی ہو اور ان میں سے ہر ایک کے فرائض و ذمہ داریاں کیا ہونی چاہئے، اس کا تعین خود ارکان انتظامی کا اختیاری عمل ہے۔ مقاصد مسجد کی تکمیل جب ہو رہی ہو تو شریعت طریقہ کار اور افراد کے اختیارات برائے انتظام میں مانع نہیں۔ رکن انتظامی کا فریضہ ہے کہ وہ اخلاص و للہیت کے ساتھ مقاصد مسجد اور اس کے وقف جائیداد کی حفاظت کرے اور اپنی ذمہ داری کو امانت و دیانتداری کے ساتھ ادا کرے۔ حسب صلاحیت مسجد کے قریب رہنے والے فرد کو بھی رکن بنایا جا سکتا ہے ، کسی اور مقام کی دیگر مساجد کا بھی وہ رکن بن سکتا ہے۔ شریعت میں ایسا کوئی خاص قاعدہ مقرر نہیں۔ شریعت کی نظر صرف مقصود پر ہوتی ہے۔ وہ اگر حاصل ہو رہا ہو تو مذکورہ در سوال ایک خاندان کے دو افراد کے رکن ہونے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ وہ مخلص ہوں اور امانت و دیانت کے ساتھ اپنے فریضے کو انجام دیتے ہوں اور مسجد کے مقاصد کی تکمیل اور اس کے اوقاف کی حفاظت کرسکتے ہوں۔ مسجد کی دیوار کا استعمال کسی کے لئے بھی جائز نہیں۔ انتظامی کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا سدباب کرے۔
امام و مؤذن کے ساتھ کمیٹی کا سلوک
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ موجودہ زمانے میں مسلمان حکومت نہ ملنے کے سبب مسجدوں پر حکومت کرتے ہیں۔ امام اور مؤذن پر حکومت کرتے ہیں ان کے شرعی کاموں میں دخل اندازی کرتے ہیں ۔ ان کے ہر شرعی کام پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے امام اور مؤذن انتظامی کمیٹی کے گھر کے نوکر ہیں۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں یہ بتائے کہ کمیٹی مسجد کے امور کی ہوتی ہیں یا امام اور مؤذن کی اور انتظامی کمیٹی کس حد تک امام اور مؤذن کو بول سکتے ہیں۔ اس کی وضاحت کریں۔ بولنے کا انداز کس طرح کا ہوں ؟
حافظ اکرام اللہ، حیدرآباد
جواب : دینی اعتبار سے منصب امامت و مؤذنی بہت اعلیٰ منصب ہے، اس لئے ان کو حسب ضرورت ا حکام شرع سے واقف ہونا، متقی و پرہیز گار ہونا چاہئے، اس منصب کے اعتبار سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ازخود اپنے فرائض منصبی کو باحسن الوجوہ انجام دینے کی کوشش کریں کہ حتی الامکان کسی کو شکایت کا موقعہ نہ رہے، بشری تقاضوں کے تحت اتفاقاً وہ اپنے فرض کو انجام نہ دے سکیں تو انتظامی کمیٹی وغیرہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اتفاقی معاملات میں ان کے منصب کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی باز پرس نہ کریں۔ بلا وجہ بار بار امام یا مؤذن کو انتظامی کمیٹی کے ذمہ داروں کا کچھ کہنا یا ان کو اپنے خادم و نوکر کی طرح سمجھ کر معاملہ کرنا شرعاً غیر درست عمل ہے جیسا کہ عام طور پر آج کل بعض ناسمجھ افراد انتظامی کا طرز عمل چشم دید ہے۔ اور اگر امام صاحب یا مؤذن صاحب اپنے فرائض پابندی سے ادا نہ کر رہے ہوں قابل شکایت حد تک ان کی غیر حا ضری ہو تو انتظامی کمیٹی کے ذمہ دار ان کو اس کی طرف توجہ دلاسکتے ہیں۔
کتوں کی تجارت
سوال : بعض کتے چھوٹے قد کے ہوتے ہیں لیکن خوشنما و خوش نظر ہوتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے کتوں کو اپنے گھر میں رکھتے ہیں اور پالتے ہیں۔ وہ بہت قیمتی ہوتے ہیں ۔ اس کی تجارت میں بہت فوائد ہیں۔ شرعی نقطہ نظر سے ایسے کتے پالنا اور ان کی تجارت کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟
محمد عبدالودود، بنجارہ ہلز
جواب : کتا بالاتفاق ناپاک و نجس ہے۔ اس کا خریدنا ، بیچنا، شوقیہ پالنا ، ناجائز ہے۔ ہاں اگر چوروں سے حفاظت مقصود ہو اور کھیتی اور مویشی جانوروں کی صیانت یا شکار کی غرض سے رکھا جائے تو شرعاً جائز ہے۔ عالمگیری ج : 5 ص : 361 میں ہے: وفی الاجناس لا ینبغی ان یتخد کلبا الا ان یخاف من اللصوص … و یجب ان یعلم بان اقتناء الکلب لاجل الحرس جائز شرعاً و کذلک اقتناء ہ للا صطیاد مباح و کذلک اقتناء ہ لحفظ الزرع والماشیۃ جائز ، کذا فی الذخیرۃ۔
سوال میں صراحت کردہ کتے سے چونکہ حفاظت و صیانت اور شکار مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس کو محض شوقیہ طور پر پالا جاتا ہے اس لئے اس کی تجارت شرعاً درست نہیں۔
رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت
سوال : ہمارے امام صاحب عموماً نماز میں ایسی سورتوں کا انتخاب کرتے ہیں جس میں آیت سجدہ ہوا کرتی ہے۔ کبھی تو وہ آیت سجدہ کی تلاوت کر کے سجدہ تلاوت کرتے ہیں اور بعض دفعہ نہیں کرتے۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے آیت سجدہ کی تلاوت تو کی لیکن سجدہ نہیں کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرلی،اس طرح رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرنے سے سجدہ تلاوت بھی ادا ہوجاتا ہے ، مزید سجدہ تلاوت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ کیا امام صاحب کا یہ کہنا شرعی لحاظ سے درست ہے یا نہیں ؟ سجدہ تلاوت کی بہتر صورت کیا ہے ؟ اور رکوع کے وقت اس کی نیت کی ضرورت ہے یا نہیں ؟
محمد سکندر علی، محبوب نگر
جواب : آیت سجدہ اگر ختم سورہ میں ہے تو اس کو پڑھ کر نماز کیلئے رکوع کرنا بہتر ہے۔ اگر سجدہ تلاوت ادا کر کے کھڑا ہوجائے تو چاہئے کہ دوسری سورۃ کی کچھ آیات اس کے ساتھ ملاکر نماز کیلئے رکوع کرے۔ اگر آیت سجدہ سورۃ میں ایسی جگہ واقع ہے کہ اس کی چند آیات کے بعد سورۃ ختم ہوتی ہے تو ایسی حالت میں مصلی کو اختیار ہے کہ آیت سجدہ ہی پر رکوع کر کے سجدے کواسی میں ادا کردے یا سجدہ تلاوت کے بعد کھڑا ہوجائے اور باقی آیتیں پڑھ کر رکوع کرے۔ مبسوط السرخسی جلد ثانی باب السجدۃ میں ہے: و ان کانت السجدۃ عند ختم السورۃ فان رکع لھا فحسن و ان سجد لھا ثم قام فلا بد ان یقرأ آیات من سورۃ اخری ثم یرکع ۔ اسی صفحہ میں ہے : و اذا قرأھا فی صلاتہ و ھو فی آخر السورۃ الا آیات بقین بعدھا فان شاء رکع و ان شاء سجد لھا۔
عالمگیری باب السجدۃ میں ہے: ثم یقوم و یختم السورۃ و یرکع۔ رکوع میں سجدہ تلاوت اس وقت ادا ہوتا ہے جبکہ رکوع کے پہلے سجدہ کی بھی نیت کرلے۔ اگر بغیر نیت کے رکوع میں چلا جائے اور بحالت رکوع سجدہ کی نیت کرے تو اس سے سجدہ ادا نہیں ہوتا۔ عالمگیریہ کے باب السجدۃ میں ہے: ولو قرأ آیۃ السجدۃ فی الصلاۃ فأراد ان یرکع بھا یحتاج الی النیۃ عند الرکوع فان لم توجد منہ النیۃ عند الرکوع لا یجزیہ عن السجدۃ ۔