رشیدالدین
مہاراشٹرا اور ہریانہ میں بی جے پی اقتدار کی طرف پیشقدمی کرتی دکھائی دے رہی ہے لیکن یہ تو اگزٹ پول نتائج ہیں، جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے ، ٹی وی چیانلس کے اسکرین پر اگزاکٹ پول (حقیقی نتائج) ہوں گے جو دونوں ریاستوں میں کانگریس حکومتوں پر عوام کا فیصلہ ہوگا۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے چناوی نتائج کے بارے میں مختلف میڈیا اداروں نے اگزٹ پول کے ذریعہ قیاس آرائی کی ہے۔ توقع کے مطابق ہر ادارہ کا اگزٹ پول نشستوں کی تعداد کے اعتبار سے بھلے ہی مختلف ہو لیکن مجموعی طور پر مہاراشٹرا میں معلق اسمبلی اور ہریانہ میں بی جے پی حکومت کی قیاس آرائی کی گئی ہے۔ اگزٹ پول دراصل مختلف علاقوں میں رائے دہندوں کی رائے اور رائے دہی کی رجحان کی بنیاد پر اخذ کردہ نتائج ہوتے ہیں ۔ اس میں کمی بیشی کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگزٹ پول چند ہزار رائے دہندوں کی رائے سے حاصل کیا گیا رجحان ہوتا ہے۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں بیشتر اگزٹ پول نتائج بی جے پی اور حلیفوں کی حکومت کے حق میں تھے لیکن حقیقی نتائج میں بی جے پی کو مرکز میں تنہا واضح اکثریت حاصل ہوگئی جو گزشتہ 30 برسوں میں بی جے پی کی کامیابی کا ایک ریکارڈ ہے۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے اگزٹ پول نتائج کے مطابق نریندر مودی لوک سبھا چناؤ کے بعد اپنی مقبولیت کے پہلے امتحان میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، جس طرح مودی نے دونوں ریاستوں کی انتخابی مہم میں اپنے وقار کو داؤ پر لگادیا تھا۔ اسی بنیاد پر گزشتہ اتوار کی تحریر میں ہم نے بی جے پی کو دیگر جماعتوں پر سبقت کی پیش قیاسی کی تھی جو کہ درست ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے نتائج اس اعتبار سے بھی بی جے پی کے لئے اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ دونوں میں کانگریس برسر اقتدار ہے۔ نتائج اگر اگزٹ پول کے عین مطابق ہوں تو بی جے پی ہریانہ میں نئی تاریخ رقم کرے گی اور وہاں پہلی مرتبہ بی جے پی حکومت تشکیل پائے گی۔
اس کے برخلاف مہاراشٹرا میں معلق اسمبلی اور ا کثریت کے بغیر واحد بڑی پارٹی کے موقف کے ساتھ بی جے پی کیلئے تشکیل حکومت کسی چیلنج سے کم نہیں۔ بی جے پی۔شیوسینا کیلئے الیکشن سے عین قبل 25 سالہ قدیم اتحاد کے ٹوٹنے کے بعد نتائج کے ساتھ ہی پھر اتحاد کے امکانات آسان نہیں ساتھ ہی بی جے پی کے پاس شیوسینا کی تائید کے حصول کے سواء کوئی چارہ نہیں۔ شیوسینا کے موجودہ تیور دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹرا اسمبلی کا حال دہلی اسمبلی کی طرح ہوسکتا ہے، جہاں بڑی پارٹیاں تشکیل حکومت کیلئے تو تیار ہیں لیکن ان کی تائید کو دوسری پارٹی تیار نہیں۔ اگر یہاں بھی یہی صورتحال رہی تو اسمبلی کو معطل رکھنے کی نوبت آسکتی ہے۔ اگزٹ پول کے جائزہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہاراشٹرا کے رائے دہندوں نے شعور بیداری کا ثبوت دیا ہے اور چار اہم پارٹیوں کو امتحان گاہ میں کھڑا کردیا۔ جس طرح سیکولر اور غیر سیکولر اتحاد نے عین انتخابات سے قبل اتحاد توڑ کر تنہا مقابلہ کرتے ہوئے رائے دہندوں کو آزمائش میں مبتلا کیا ، اسی طرح عوام نے بھی واضح اکثریت سے محروم کرتے ہوئے انہیں کرسی کیلئے ترسنے پر مجبور کردیا ۔ اب ان جماعتوں کا امتحان بھی ہے کہ آیا وہ کرسی کے لئے دوبارہ اتحاد کریں گے؟ عوام دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان جماعتوں میں اصول پسندی کس حد تک باقی ہے۔ اگر حقیقی نتائج بھی اگزٹ پول کی طرح رہے تو اسے عوام کی جانب سے کرسی اور اقتدار کی لالچی جماعتوں کیلئے بہترین سبق ہوگا۔ نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود طاقت اور مقبولیت کے زعم میں بی جے پی ۔ شیوسینا نے 25 سالہ اور کانگریس۔این سی پی نے 15سالہ اتحاد کو اختلاف میں تبدیل کرلیا۔
ویسے بھی اب سیاسی جماعتوں اور عملی سیاست میں اصول اور اقدار کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ صرف مفادات اور اقتدار ہی سب کچھ ہے۔ سیکولرازم ہو کہ ہندوتوا دونوں کے دعویدار بھی مہاراشٹرا میں بے نقاب ہوگئے۔ کانگریس اور این سی پی جو 15 برسوں سے اقتدار میں تھے ، انہیں سیکولر ووٹ کی تقسیم اور اس کے نقصانات کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس طرح سیکولرازم کے تحفظ اور فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار سے روکنے کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ بی جے پی اور شیوسینا نے بھی ہندوتوا کے نظریہ پر اتفاق کے باوجود تنہا مقابلہ کو ترجیح دی۔ بی جے پی نے نریندر مودی کی شخصیت کو کامیابی کا ضامن سمجھا تو شیوسینا مراٹھا وقار اور شیواجی کی وراثت کے زعم میں رہی ۔ سیاسی جماعتوں کے نزدیک نظریات، اصول ، پالیسی اور اقدار کی جگہ موقع پرستی نے لے لی ہے ۔ نظریات کو اتحاد کے قیام کیلئے مجبوری کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
اگر نظریات اور اصول مضبوط ہوتے تو دونوں اتحاد بھی بکھرنے سے بچ جاتے۔ بی جے پی نے مہاراشٹرا اور ہریانہ میں لوک سبھا انتخابات کی کامیابی کے تسلسل کو جاری رکھا ہے۔ نریندر مودی گزشتہ چار ماہ میں بھلے ہی وزیراعظم کی حیثیت سے کامیاب ثابت نہ ہوئے لیکن انتخابی مہم کے اعتبار سے عوامی مقبول لیڈر کی شناخت کو برقرار رکھا ہے۔ حکومت نے بھلے ہی عوام کا کوئی بھلا نہیں کیا لیکن اپنی مکالمہ بازی اور شیریں بیانی کے ذریعہ مودی بی جے پی کو کامیاب بنانے کی اہلیت کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے نتائج بی جے پی سے زیادہ نریندر مودی کی شخصی کامیابی ہے۔ انتخابی مہم میں ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے قائدین نے حصہ نہیں لیا، جنہیں پارٹی نے ’’مارگ درشک‘‘ کے زمرہ میں رکھا تھا۔ مہم میں حصہ لینا توکجا ان قائدین نے گھر بیٹھے بھی بی جے پی کے لئے ووٹ کی اپیل تک جاری نہیں کی۔ پارٹی کے مین اسٹریم سے ہٹائے جانے کے بعد بزرگ قائدین اپنے گھروں تک محدود ہوچکے ہیں۔ سارا اقتدار نریندر مودی کے اطراف مرکوز ہوچکا ہے اور تمام وزراء محض کٹھ پتلی بن کر رہ گئے۔ بیرونی دوروں اور انتخابی مہم میں وزیراعظم کی مصروفیت نے حکومت کے کام کاج کو متاثر کردیا ہے۔ مہاراشٹرا میں مودی نے 27 سے زائد انتخابی ریالیوں سے خطاب کیا ، اگر نتائج بی جے پی کے حق میں ہوں تو مہاراشٹرا میں اپنی طاقت پر بی جے پی کی پہلی حکومت ہوگی۔ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے رجحان نے افراطِ زر کی شرح میں کمی کا راستہ ہموار کیا ہے، جس کا کریڈٹ نریندر مودی یا این ڈی اے حکومت کو نہیں جاتا۔
اگزٹ پول کے مطابق مہاراشٹرا میں تشکیل حکومت کے امکانات صرف بی جے پی اور شیوسینا کے پاس ہیں۔ کانگریس اور این سی پی مل کر بھی تشکیل حکومت کے موقف میں نہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا شیوسینا دوبارہ بی جے پی سے اتحاد کرے گی اور تشکیل حکومت کیلئے اس کی تائید کرے گی؟ بی جے پی کیلئے سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرنا اہم نہیں بلکہ تشکیل حکومت کیلئے کسی بڑی پارٹی کی تائید کا حصول اہمیت رکھتا ہے۔ کانگریس اور این سی پی سے تائید کے امکانات خارج از بحث ہیں ۔ رہی بات راج ٹھاکرے کی زیر قیادت ایم این ایس کی تو وہ اس قدر مضبوط نہیں کہ اس کی تائید بی جے پی کو تشکیل حکومت کیلئے کافی ہوجائے۔ ہاں کم ارکان کی تائید کی ضرورت کی صورت میں راج ٹھاکرے کی تائید اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ شیوسینا سے ارکان کے انحراف کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر شیوسینا بی جے پی سے پھر دوستی کرلے اور ڈھائی سال کے وقفہ سے اقتدار کی منتقلی کا معاہدہ ہو ، اس صورت میں بھی نقصان شیوسینا کا ہوگا، جس نے عوام کو تنہا حکومت کے قیام کا خواب دکھایا تھا۔
شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے کو چیف منسٹر کے امیدوار کے طور پر پروجکٹ کیا گیا ، اگر شیوسینا ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدہ کو قبول کرتی ہے تو مستقبل میں اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔ ان حالات میں وہ بی جے پی کی تائید کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی۔ اتحاد ٹوٹنے کے بعد دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا ۔ شیوسینا کے ترجمان سامنا میں وزیراعظم نریندر مودی کو ’’چائے والا‘‘ لکھا گیا۔ ادھو ٹھاکرے نے یہاں تک کہہ دیا کہ مودی کے باپ بھی آکر مہاراشٹرا میں بی جے پی کو کامیابی نہیں دلا سکتے ۔ ایک دوسرے کے خلاف اس قدر دشنام طرازی، تلخیوں اور دوری کے بعد کیا دونوں میں پھر اتحاد ہوپائے گا؟ یوں تو سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا لیکن مہاراشٹرا میں بی جے پی سے دوبارہ اتحاد شیوسینا کیلئے خودکشی کے مترادف ہوگا۔ ایسے میں بی جے پی کس طرح درکار تعداد کی تکمیل کرے گی؟ اگر حقیقی نتائج اگزٹ پول کے مطابق ہوں تو ایسی صورت میں بی جے پی کو اقتدار سے روکنے کے نام پر دوسری جماعتوں کے پاس ایک ہی امکان باقی رہے گا ۔ وہ غیر بی جے پی حکومت کی تشکیل ہے، اس کے لئے کانگریس اور این سی پی باہر سے شیوسینا حکومت کی تائید کرسکتے ہیں۔ یوں تو اقتدار کیلئے کسی بھی امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا لیکن اگزٹ پول کے مطابق حقیقی نتائج کی صورت میں مہاراشٹرا میں دہلی جیسی غیر یقینی صورتحال کا ابھرنا یقینی ہے۔ چونکہ نریندر مودی اور امیت شاہ کے سبب بی جے پی عملاً گجرات پارٹی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ دیکھنا ہے کہ مودی اور ان کے سپہ سالار مہاراشٹرا پر پرچم لہرانے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کریں گے۔ ڈاکٹر بشیر بدر نے کیا خوب کہا ہے ؎
نہ جانے کب ترے دل پر نئی سی دستک ہو
مکان خالی ہوا ہے کوئی تو آئے گا