ڈاکٹر مجید خان
کسی بھی مضمون لکھنے کی جو مجھ میں تحریک ہوتی ہے چاہے وہ نفسیاتی موضوع پر ہو یا سماجی یا سیاسی وہ سنجیدہ اور گہرے غور و فکر کے اضطراب کی وجہ سے ہوتی ہے۔ آج کا مضمون اس حجت کو واضح کردے گا۔ غالباً میں بہت حساس انسان ہوں۔ مسلسل مقامی، قومی اور بین الاقوامی حالات پر کڑی نظر رکھتا ہوں اور اِن پر اُن کی اہمیت کے مطابق تبصرے کرتا ہوں۔ خاص طور پر وہ حالات جن کا درست اثر ہم پر پڑتا ہے اور ہم قدم نہ سہی قلم تو اُٹھا سکتے ہیں۔ سیاست کے قارئین حسن سرور جو انگلستان سے The Hindu اخبار کیلئے لکھتے ہیں، واقف ہیں میں نے اور سیاست نے اُن کے مضامین کے ترجمے لکھے ہیں۔ بڑے غیر جانبدارانہ انداز میں مسلمانوں کے عالمگیر مسائل پر بہترین تجزیہ کرتے ہیں۔ اُن کی غور و فکر کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ نریندر مودی نے اپنی پہلی لوک سبھا کی تقریر میں کہا تھا کہ ہم 1200 سال سے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سنا کہ گجرات میں بھی آزادی کی تقاریب میں بھی اِسی بات کو دہراتے ہیں۔ آخر 1200 سالوں کا حساب اُنھوں نے کہاں سے لایا۔ انگریز تو دو سو سال حکمرانی کئے اور عام طور پر 200 سال کی غلامی کہا جاتا ہے۔ مگر اُنھوں نے مغلیہ دور کی حکمرانی کو بھی اُس میں شامل کرلیا ہے۔ یہ راشٹرم سویم سیوک سنگھ کا نظریہ ہے اور عام لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے۔ عادل آباد میں سیاست اخبار کے ایک قدیم قاری ہیں لکشمن راؤ صاحب۔ وہ میرے مضامین دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ کچھ دنوں قبل اُنھوں نے مجھے لکھا کہ میں آپ کے مضامین کو پسند کرتا ہوں مگر ایک مضمون میں آپ نے لکھا کہ مودی کے تعلق سے میری سوچ منفی سے مثبت ہورہی ہے، اِن کو یہ تبدیلی پسند نہیں آئی۔
میں اپنے خیالات کے دفاع میں ایک معمولی سی خبر کی طرف قارئین کی توجہ دلانا چاہوں گا جو انگریزی اخبارات میں چھپی مگر اُردو اخبارات میں، میں نے نہیں دیکھا۔ وہ خبر تھی کہ حکومت ہند نے طلباء وغیرہ کیلئے اپنے دستاویزات، سرٹیفکٹس وغیرہ کی نقولات پر گزیٹیڈ آفیسر یا پھر نوٹری کے لزوم کو ایک قلم کی جنبش سے برخاست کردیا۔ عام لوگوں کیلئے یہ کتنی بڑی راحت ہے اُس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے کام مودی کررہے ہیں۔ خیر حال میں یعنی 18 جولائی 2014 ء کے The Hindu میں حسن سرور صاحب نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا : ’’خلافت کے سائے میں‘‘ مضمون معلوماتی ضرور تھا مگر ہندوستان کی اُردو صحافت پر اُنھوں نے کچھ تنقیدیں کی ہیں جو قابل غور اور قابل تبصرہ ہیں۔ اُنھوں نے اپنے مضمون میں کسی ادیب اور ماہر تعلیم کا حوالہ دیا ہے جس میں اُس نے لکھا ہے کہ
"If things continue like this, The history of our age may one day be written under a caliphate’s supervision”.
یعنی اگر دنیا کے حالات اسی طرح سے جاری رہیں گے تو ہمارے زمانے کی تاریخ ’’خلافت‘‘ کی زیرنگرانی لکھی جائے گی۔ "David Selbourne”
عراق اور شام کے سنی گٹھ جوڑ کے سربراہ ابوبکر البغدادی جو اپنے آپ کو اس جماعت کا خلیفہ ہونے کا اعلان کررہا ہے اور اپنے آپ کو ساری دنیا کے مسلمانوں کا سربراہ ہونے کا دعویٰ کر بیٹھا ہے، یہ اُن کے مضمون کا پس منظر ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اُنھوں نے ہندوستان کی اُردو صحافت کو آڑے ہاتھ لیا ہے۔ یہاں پر مجھے اُن سے اختلاف ہے اور میں نے اپنی رائے سے اُن کو واقف بھی کرایا ہے۔ اُنھوں نے دہلی کی ایک ویب سائٹ "New Age Islam” جو ایک اعتدال پسند مانی جاتی ہے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُردو صحافت کا جھکاؤ Iraq Syria Islamic State "ISIS” کی طرف نظر آرہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ جس طرح سے اُردو صحافت کیرالا کی نرسیس کے اُن کے عراقی گرفتار کرنے والوں کے تعلق سے جو مثبت تاثرات کو اُبھارا ہے اور منفی تاثرات کو دبائے ہیں اُس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ مجھے یہاں پر حسن سرور صاحب سے اختلاف ہے۔ انگریزی میڈیا بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا تو اُردو صحافت کی ابوبکر البغدادی کی تائید کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے۔ میری سمجھ سے باہر ہے۔ میں چونکہ تمام تر اُردو صحافت سے واقف نہیں ہوں اس لئے سینئر صحافیوں کو اس معاملے پر روشنی ڈالنا چاہئے۔
آگے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمان عام طور پر اُن مسلمانوں کے خلاف آواز نہیں اُٹھائے جو مسلمانوں ہی کی خونریزی کررہے ہیں۔ حسن سرور صاحب کا یہ مشاہدہ بھی سوال طلب ہے۔ میں نے حسن سرور صاحب کو لکھا ہے کہ اُن کو ظفر آغا کا تازہ مضمون ’’جہادی سیاست یا مغرب کی حکمت عملی‘‘ پڑھنا چاہئے۔ ظفر آغا لکھتے ہیں کہ :
پچھلے 30 ، 40 برسوں میں عالم اسلام، اسلامی حکومت اور خلافت کے قیام کیلئے کوشاں ہے۔ لیکن اس اسلامی حکومت کی آڑ میں تقریباً تمام عالم اسلام میں دہشت گرد سیاست کا ننگا ناچ ہورہا ہے گوکہ تمام خود ساختہ جہاد اور اسلامی گروپس نظریاتی سطح پر مغرب اور بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور ان کو نیست و نابود کرنے کا دم بھرتے ہیں لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان تمام دہشت گرد گروپس کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ آخر یہ کونسا جہاد ہے جو مسلمانوں کو مسلمانوں کا خون بہانے کی اجازت دیتا ہے۔
بہرحال حسن سرور صاحب کے مضمون کے جواب میں ظفر آغا صاحب کا یہ مضمون بہت مدلل جواب ہے۔ اب اُردو داں حضرات کی رہبری اور معلومات کیلئے اہم مضامین پر تبصرے ہونے چاہئیں۔ حسن سرور صاحب کا مضمون اور بھی کئی مسائل پر خدشات کا اظہار کرتا ہے۔ اِن سے واقف ہونا ضروری ہے۔اس پس منظر میں غزہ پر فلسطینیوں پر جو ناقابل یقین مظالم ڈھائے جارہے ہیں اس پر کئی مسلم ممالک خاموش ہیں۔ اقوام متحدہ بھی بے بس نظر آرہا ہے۔ کیا یہ فوجی کارروائی جنگی جرائم نہیں ہیں۔ کیا نیتن یاہو پر جنگی جرائم کے قانون کے تحت مقدمہ نہیں چلانا چاہئے۔ ان پیچیدہ حالات کو سمجھنا آسان نہیں اس لئے سیاسی اور سماجی تجزیہ کاروں کے مضامین پر واقف کار حلقوں سے تبصرے ہونے چاہئیں اور غیر جذباتی انداز میں ہونے چاہئیں۔ عالمگیر واقعات کا اثر مقامی حالات پر بھی پڑتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کا موقف اِن حالات میں کیا ہونا چاہئے۔ حیدرآباد میں ہم مست ہیں۔ تلنگانہ کا قیام احساس تحفظ تو دے رہا ہے مگر قومی سطح پر جو سیاسی سونامی دکھائی دے رہی ہے وہ تلنگانہ کے سیاسی مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوگا بڑا غور طلب مسئلہ ہے۔اس لئے حالات حاضرہ کا صحیح جائزہ لینا چاہئے۔ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ ابوبکر البغدادی کا اپنے آپ کو ساری دنیا کے مسلمانوں کا خلیفہ ہونا کتنا واجب ہے۔ ان کی جماعت کا کیرالا کی نرسوں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک اُن کی حکمت عملی کو پوری طرح سے واضح تو نہیں کرتا۔ ابھی ابھی ایک اور خبر 26 جولائی 2014 کو آئی ہے کہ اُنھوں نے اپنی تنظیم کا نام بدل کر اب اس کو اسلامی حکومت کہنے لگے ہیں جہاں پر شرعی قانون ہی کی حکومت ہوگی۔
ابوبکر البغدادی کا تعلق پہلے القاعدہ سے تھا اور اب اس نے اُس سے علیحدہ ہوکر اُس سے خطرناک تنظیم قائم کرلی ہے اور شمالی عراق کا بہت حصہ اس کے قبضے میں ہے اور تیل کے قیمتی ذخیروں پر بھی اُس کا قبضہ ہے۔ یعنی اس کا اب اپنا ایک ملک قائم ہورہا ہے۔مگر جب اُس سے پوچھا گیا کہ آپ یہودیوں کے خلاف کیوں نہ ہتھیار اُٹھاتے تو اُس کا کہنا تھا کہ ہمارے اصلی دشمن شیعہ لوگ ہیں۔ ان حالات میں ہم کو بسنا اور رہنا ہے سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے نہیں معلوم۔ وطن سے جلاوطن کب ہونگے نہیں معلوم۔اس لئے ہمارا فریضہ ہے کہ عوام کو حالات حاضرہ سے واقف کراتے رہیں اور متوازن سوچ پیدا کریں جو جذبات سے دور ہو۔ کیا ہمارا شعور مکدر ہورہا ہے؟ اس پر غور کیجئے۔