مویشیوں کی ذبیحہ کیلئے فروخت پر امتناع

غضنفر علی خان
کسی اچھائی کیلئے نہیں بلکہ متنازعہ فیصلوں کیلئے مودی  حکومت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ایک کے بعد ایک ایسے فیصلے کئے جارہے ہیں جس سے ہندوستانی سماج میں بے چینی پیدا ہورہی ہے۔ نوٹ بندی کے فیصلہ نے سارے ملک کو دہلا دیا تھا۔ آج تک بھی قومی معیشت پر اس کے مضراثرات مرتب ہورہے ہیں لیکن وزیراعظم روم کے سابق حکمراں ’’ نیرو‘‘ کی طرح چین کی بنسری بجاتے ہوئے بیرونی دوروں میں مصروف ہیں۔ گاؤکشی کوئی قومی مسئلہ نہیں ہے لیکن اس کو روکنے کیلئے ’’گاؤرکھشکوں‘‘ کا روپ دھار کر کھلی غنڈہ گردی کی جارہی ہے۔ انسانوں کو ہلاک کیا جارہا ہے۔ جانوروں کیلئے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔ اب تازہ متنازعہ فیصلہ کے ذریعہ مویشیوں کی مارکٹ میں گائے کی خاص طور پر خریدوفروخت ممنوع قرار دی گئی ہے۔ جانوروں کی اقسام کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ کونسے مویشیوں کو ذبیحہ کیلئے خریدا اور بیچا جاسکتا ہے اور اگر خریدوفروخت ہوتی ہے تو صرف زرعی اغراض کیلئے ہوسکتی ہے۔ یہ سب کچھ گاؤکشی کو روکنے کیلئے کیا گیا ہے۔ مقصد بالکل صاف ہیکہ ہندوستان کا وہ بڑا طبقہ جو گائے کا گوشت استعمال کرتا ہے اور گائے کا ذبیحہ کرتا ہے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔ کسی طرح مسلم طبقہ کو جو اس صنعت سے وابستہ ہے اور عام مسلمانوں کو جو بڑا گوشت استعمال کرتے ہیں ان کی دیرینہ عادت سے محروم کردیا جائے۔ کیا یہ ممکن ہوگا۔ لاکھوں ملین ڈالر کا سوال ہے کیونکہ بڑا گوشت صرف مسلم طبقہ ہی استعمال نہیں کرتا، غیرمسلم آبادی میں بھی اس کا استعمال عام بات ہے۔ خاص طور پر نچلی ذات کے غیرمسلموں میں یہ عام رواج ہے۔ ہمارا ملک کئی لحاظ سے عجیب و غریب ہے۔ یہاں لوگوں کے کھانے پینے کی عادت ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ شمال مشرقی ریاستوں میں بڑا گوشت عام طور پر استعمال کیا  جاتا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں عوام کے کھانے پینے کے طریقہ بھی الگ ہیں۔

یہاں بھی بڑے گوشت کے استعمال کو وہ مذہبی تقدس حاصل نہیں ہے جو شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں ہے۔ اس پس منظر میں غذائی عادت کو بدلنے کی کوئی بھی کوشش اور اس کے لئے کسی بھی قسم کی قانون سازی مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ ہر ایسی کوشش سے مزید اور نئے مسائل پیدا ہوجائیں گے جس کا بی جے پی حکومت کو کوئی اندازہ نہیں ہے۔ وہ اس زعم میں ہیکہ اس کو پارلیمنٹ میں قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہ جو چاہے کرسکتی ہے۔ جس تیزی سے بی جے پی کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا اسی بلکہ اس سے زیادہ تیزی سے یہ آفتاب اقتدار غروب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مویشیوں کی خریدوفروخت سے متعلق اس نئے متنازعہ قانون نے کیرالا کی انتہائی جنوبی ریاست سے لیکر مغربی بنگال تک دھماکو صورتحال پیدا کردی ہے۔ خاص طور پر دونوں جنوبی ریاستیں کیرالا اور تملناڈو میں تو ایسا معلوم ہورہا ہیکہ اس نئے قانون کے خلاف باضابطہ ایک جنگ چھڑ گئی ہے۔ کیرالا کے چیف منسٹر نے اس نئے قانون کے خلاف عدالت سے رجوع ہونے کا اعلان کیا ہے۔ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتابنرجی نے بھی اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

تملناڈو ہائیکورٹ کے مدورائی بنچ نے پہلے ہی اس قانون کے خلاف 4 ہفتوں تک حکم التواء جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیرالا میں یوتھ کانگریس کے لیڈر نے ڈنکے کی چوٹ پر ایک بچھڑے کو ذبح کرکے اپنے کھلے احتجاج کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک ذمہ دار پارٹی کی حیثیت سے اور مسئلہ کے حساس ہونے کا اندازہ کرتے ہوئے کانگریس پارٹی نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بے تعلقی ظاہر کی ہے لیکن بڑی تیزی سے یہ پیام عام ہورہا ہیکہ مویشیوں کو ذبیحہ کیلئے فروخت کرنے پر امتناع کے اس قانون کو مختلف ریاستوں میں چیلنج کیا جائے گا۔ خود ہماری ریاست تلنگانہ میں بھی اس کی مخالفت کی جارہی ہے اور اس بات کا اشارہ مل رہا ہیکہ تلنگانہ ریاست بھی عدالت سے رجوع ہوسکتی ہے کیونکہ مویشیوں کی بہت بڑی مارکٹ ہماری ریاست میں ہے اور اس قسم کی پابندی سے سارے ملک کی طرح یہاں بھی لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہوجائیں گے۔ یہ ایک عظیم الشان صنعت ہے۔ کروڑہا روپئے کا زرمبادلہ اس صنعت سے حکومت کو ملتا ہے۔ کروڑہا افراد کی روٹی روزگار بھی اسی صنعت سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر ذبیحہ کیلئے مویشیوں کی خرید پر امتناع عائد کیا گیا تو پھر آخر ان مویشیوں کا کیا استعمال ہوگا۔ حکومت کا یہ کہنا ہیکہ صرف زرعی مقاصد کیلئے ہی مویشیوں کی تجارت ہوسکتی ہے۔ ایک ناقابل فہم خیال ہے۔ زرعی سیکٹر میں مویشیوں کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ سمجھنا کہ زرعی مقاصد کیلئے جانوروں کی تجارت ہو پوری طرح سے خام خیالی ہے۔ ایک ناعاقبت اندیش فیصلہ ہے۔ ایک جیتی جاگتی صفت کو مفلوج کرنے کی احمقانہ کوشش ہے۔ وہ بھی ایسے وقت ہیکہ ملک کی معیشت اسی حکومت کے سابقہ کئی غلط فیصلوں کی وجہ سے تنزل اور انحطاط کی شکار ہوگئی ہے۔ اس انحطاط کو دور کرنے کے بجائے مودی حکومت اپنی کم عقلی سے اس انحطاط کو بڑھا رہی ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی حکومت ایسا فیصلہ نہیں کرسکتی، جس سے معیشت کو نقصان ہو لیکن اپنی دانست میں ہوشیار اور خردمند مودی حکومت محض اس لئے ایسے فیصلے کررہی ہے کہ اس کی باگ ڈور سنبھالنے والی آر ایس ایس کے خفیہ ایجنڈہ پر عمل ہوسکے۔ ایک آر ایس ایس کو خوش کرنے اور سارے ملک میں ’’سبزی خوری‘‘ زبردستی لاگو کرنے کیلئے مودی حکومت یہ سب کچھ کررہی ہے۔ سبزی خوری بجائے خود اچھی عادت ہے، متوازن غذا میں ریشے Fibre کا ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن متوازن غذا کیلئے کسی مخصوص عقیدے کو سب پر مسلط کرنا علحدہ بات ہے۔ سی پی ایم (مارکسٹ کمیونسٹ پارٹی) نے صحیح کہا ہیکہ گوشت خوری کو ختم کرنے کیلئے اس قانون کی آڑ میں بی جے پی اور آر ایس ایس لابی کام کررہی ہے۔

بہت سارے مسائل ایسے ہیں کہ ان کا تعلق ریاستی حکومت سے ہوتا ہے۔ بہت سے شعبہ ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہوتے ہیں۔ کون کیا کھائے اور کیسے کھائے یہ طئے کرنا مرکزی حکومت کا کام نہیں ہے۔ ٹاملناڈو ہائی کورٹ کے مدورائی بنچ نے اس بنیاد پر 4 ہفتوں کا حکم التوا دیا ہیکہ یہ موضوع ریاستی حکومت کے امتیاز تمیزی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس حکم التواء کو اگر مرکزی حکومت اپنے لئے ایک خطرہ کی گھنٹی سمجھ کر متنازعہ قانون سازی کو واپس لے تو اسی میں اس کی بہتری ہے ورنہ ریاستی حکومتوں اور مرکز کے اختیارات تمیزی کی بحث طول پکڑے گی اور ملک میں ایک نئی قانونی رسہ کشی شروع ہوجائے گی۔ ملک کے عدلیہ کو ایک بے فیض مسئلہ پر اپنی توانائی اور وقت ضائع کرنا پڑے گا کیونکہ ملک کی ترقی یا اس کی رفتار پر ایسے فضول مسائل سے مضرت رساں اثرات مرتب ہوں گے۔ ملک کو اتنی ضرورت نہیں کہ وہ غیراہم مسائل جیسے یہ متنازعہ قانون ہے اس کے صحیح یا غلط ہونے پر ایک لامتناہی بحث اور قانونی لڑائی میں وقت ضائع کرے۔